قصیدے کے اجزائے ترکیبی

کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم،
کوڈ : 9003،
صفحہ: 224 تا 229،
موضوع: قصیدے کے اجزائے ترکیبی

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

قصیدے کے اجزائے ترکیبی

مطلع

قصیدہ کی فنی خوبیوں اور خامیوں کا انحصار مطلع پر ہے اس لیے شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ مطلع دلکش ہو اور جدت خیال اور جدت بیان سے ایسی ندرت اور ایسی شگفتگی پیدا کر دے کہ سننے والا پڑھنے والا چونک جائے اور اس کی توجہ قصیدہ جذب کرے سودا اس فن کے ماہر ہیں ان کے مطلعے اس فن پر پورے اترتے ہیں اور کامیابی سے تاثر پیدا کرتے ہیں قاری ان سے متاثر ہوتا ہے۔

جوں غنچہ آسمان نے مجھے بہر حال عرض حال
دیں سو زبان و دہن و لیکن سبھی ہیں لال!

یہ بھی پڑھیں: قصیدے کی تعریف اور خصوصیات

مطلع ثانی دیکھیے :

چاہے اگر کوئی دو جہاں کا متاع ومال
تیرے گدائے در سے کرےآکے وہ سوال

قصیدوں کے لیے جو معیار سودا کے پیش نظر تھے ان کے لحاظ سے ان کے قصیدے جانچے جائیں تو معلوم ہو گا کہ وہ ہر طرح معیاری ہیں اکثر قصیدوں کے مطلعے ایسے ہیں جو قاری یا سامع کی توجہ کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں خواہ خیال کی ندرت کی وجہ سے خواہ بیان کی جدت یا زبان کی برجستگی و شگفتگی کے سبب ۔

تشبیب

تشبیب قصیدے کی تمہید ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر تشبیب کا مدح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا چونکہ اس میں ہر طرح کے موضوعات کی گنجائش ہے اس لئے شعراء کو اپنی قابلیت کے اظہار اور قادر الکلامی کے جو ہر دکھانے کا پورا پورا موقع ملتا ہے۔

سودا کی بیشتر تشبیہیں بہت دلچسپ ہیں بعض میں جدت ، فکر اور ندرت بیانی نے تشبیب کو فن قصیدہ گوئی کا بہترین نمونہ بنا دیا ہے۔ سودا نے بھی ان تمام موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ جو فارسی قصیدوں میں موجود تھے۔ ایک نعت کی تشبیب میں قناعت کی تلقین کرتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اگر انسان اپنے اندر ہنر پیدا کرے تو پھر اسے مادی عظمت کی ضرورت نہیں دولت جمع کرنے سے صرف پریشانی ہی ہوتی ہے۔

تشبیب کے ضمن میں بہار کا موسم خاص طور پر اہم ہے۔ شعراء کے اکثر اسے بیان کر کے کمال فن کے جوہر دکھائے ہیں۔ سودا نے ایک قصیدے کی تشبیب بہار یہ لکھی ہے یہ تشبیب زور بیان تشبیہات استعارات اور جدت تخیل کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ فن پارہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو قصیدے کی روایت

اس تشبیب کے کچھ اشعار دیکھئے:

سجدہ شکر میں ہے شاخ ثمر دار ہرایک
دیکھ کر باغ جہاں میں کرم عز و جل !
واسطے خلعت نو روز کے ہر باغ کے بیچ
قطع لگی کرنے روش پر مخمل تار بارش میں پروتے ہیں گہر ہائے تگرگ
ہار پہنانے کو اشجار کے ہر سو بادل !!

تشبیب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ موقع محل کے بالکل خلاف نہ ہونی چاہیے۔ سو دافنی اعتبار سے اس اصول کے پابند رہتے ہیں۔ مگر کہیں کہیں قابو نہیں رکھ پاتے ۔ انھوں نے حضرت علی کے قصیدے کی تشبیب میں جو غزل شامل کی ہے اس کے چند اشعار دیکھیے :

چہرہ مہ وش ایک ہے، سنبل مشک فام دو
حسن بتاں کے زور میں ہے سحر ایک شام دو
ابروئے یار کے خیال میں رہوں میں تو روز و شب
ہو وے جو تیغ آبدار کیوں نہ کرے نیام دو

تشبیب کے بعد شاعر اصل موضوع یعنی مدح پر آتا ہے۔ چونکہ تشبیب اور مدح دو مختلف چیزیں ہیں اس لیے ان دونوں میں تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ شعر کہا جاتا ہے۔ ان اشعار کو گریز کہتے ہیں۔

گریز

میں برجستگی اور بے ساختگی اعلیٰ درجہ کی ہونی چاہیے تا کہ یہ ظاہر نہ ہو سکے کہ شاعر خوامخواہ مدح پر اتر آیا ہے۔ اصل فن یہ ہے کہ شاعر بات ہی بات میں ممدوح کا ذکر کرنے لگتا ہے۔ اس لئے ماہرین کا خیال ہے کہ قصیدے کے حسن و کمال کا انحصار گریز لکھنے پر ہے سودا اس فن کے ماہر ہی نہیں امام ہیں ۔

وہ بڑی بے تکلفی اور بے ساختگی سے گریز کے اشعار کہتے ہیں ان کے ہاں ممدوح کا ذکر اس طرح آتا ہے جیسے تشبیب کا لازمی نتیجہ ہو۔ ذوق نے ایک قصیدہ اس وقت کہا تھا جب بہادر شاہ ظفر ولی عہد تھے۔ اپنی ولی عہدی کے دوران علیل ہو گئے وہ صحت یاب ہوئے تو اکبر ثانی نے جشن غسل منا یا ذوق نے اس موقع پر قصیدہ کہا جس کی تشبیب بہار یہ ہے ذوق فرماتے ہیں۔

واہ واہ کیا معتدل ہے باغ عالم کی ہوا
مثل نبض صاحب صحت ہے ہر موج صبا
بھرتی ہے کیا کیا مسیحائی کا دم باد بہار
بن گیا گلزار عالم رشک صد دار الشفا
ہو گیا موقوف سودا کا بالکل اختراق
لالہ، بے داغ سید پانے لگا نشونما

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوق کے ہاں گریز بہت فطری انداز میں نمایاں ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں کبھی کبھی تشبیب اور گریز میں ایک خلا رہ جاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ دو اینٹوں ذوق کے قصیدے میں رندانہ مضامین بھی نظم ہیں جیسے،

پیری میں پر ضرور ہے جام شراب ناب
پائے فروغ صبح نہ بے نور آفتاب
لیکن ہے ابر رحمت باری سے درخشاں
دامان ترا مرا روش دامن سحاب
اس تشبیب کے بعد گریز شروع ہوتی ہے
مداح میں ہوں اس کا کہ ہے جس کی دور میں
شب زمانہ کے لئے بے کیفیت شباب

یہاں تشبیب سے گریز بالکل پیوستہ نہیں بلکہ دونوں میں ایک زبردست خلا واقع ہے گریز اچانک، بے موقع بے محل اور بے
ربطی کے ساتھ آگئی ہے۔

گریز

گریز کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور حقیقی بنانے کے لیے سودا نے ڈرامائی رنگ بھی پیدا کیے ہیں۔ غازی الدین کے قصیدے میں خوشی سودا کو بیدار کرتی ہے اور کہتی ہے اب تو شیشہ سے اندوہ کا پتھر ٹپک آج خوشی کا دن ہے۔ محتسب کا خوف نہیں گھر گھر خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں تو کیوں غم میں غرق ہے ۔ یہاں سے گریز کا مضمون شروع ہوتا ہے۔

سن کے میں نے یہ کہا اس سے کہ اے مایہ ناز
خیر ہے بات سمجھ کر کہیں اتنا نہ چہک

مبالغہ ہماری شاعری اور خصوصاً قصیدے کی جان سمجھا جاتا ہے وہ مدح بالکل بے لطف اور سپاٹ خیال کی جاتی ہے۔ جس میں مبالغہ کی چاشنی نہ ہو۔ سودا نے اس خیال سے مبالغہ آرائی میں کوئی تامل نہیں کیا۔ اس لئے مولانا حالی کے اصلاحی معیار پر اس کی مدحیات کو جانچنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ اس کی مبالغہ آمیز مدرحیات میں بہت کم مواقع ایسے ملیں گے ۔

جہاں مولانا حالی کے معیار کی پوری شرطیں موجود ہوں اس کا پورا سرمایہ مدرح مبالغہ سے بھرا پڑا ہے خیالی مضامین ہیں اور ان پر مبالغے کا نہایت شوخ و تیز رنگ ہے۔ یہ سودا کی بدعت نہیں بلکہ یہ چیز اس کو فارسی سے ورثے میں ملی ہے۔

اس نے فارسی قصیدوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی مدحیات کو انشا کیا ہے۔ ایسی حالت میں ان کو کسی خاص معیار پر جانچنا اصولاً صحیحنہیں ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے محمد وجین کے کن اوصاف کی ستائش کی ہے اور ان کے بیان میں کس شاعرانہ ہنرمندی سے کام لیا ہے۔

مدح

جہاں تک ذوق کا تعلق ہے وہ رسم مرح نبھاتے ہیں انہوں نے زیادہ تر اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح کی ہے۔ اس ہی میں سارا زور قلم صرف کر دیا ہے۔ انہوں نے سلاطین کی سخاوت، شجاعت اور عدالت وغیرہ کینہ چیک سن کے میں نے یہ کہا اس سے کہ اے مایہ ناز خیر ہے بات سمجھ کر کہیں اتنا

مبالغہ ہماری شاعری اور خصوصاً قصیدے کی جان سمجھا جاتا ہے وہ مدح بالکل بے لطف اور سپاٹ خیال کی جاتی ہے۔ جس میں مبالغہ کی چاشنی نہ ہو۔ سودا نے اس خیال سے مبالغہ آرائی میں کوئی تامل نہیں کیا۔ اس لئے مولانا حالی کے اصلاحی معیار پر اس کی مدحیات کو جانچنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ اس کی مبالغہ آمیز مدرحیات میں بہت کم مواقع ایسے ملیں گے ۔

جہاں مولانا حالی کے معیار کی پوری شرطیں موجود ہوں اس کا پورا سرمایہ مدرح مبالغہ سے بھرا پڑا ہے خیالی مضامین ہیں اور ان پر مبالغے کا نہایت شوخ و تیز رنگ ہے۔

یہ سودا کی بدعت نہیں بلکہ یہ چیز اس کو فارسی سے ورثے میں ملی ہے۔ اس نے فارسی قصیدوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی مدحیات کو انشا کیا ہے۔ ایسی حالت میں ان کو کسی خاص معیار پر جانچنا اصولاً صحیح نہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے محدوحین کے کن اوصاف کی ستائش کی ہے اور ان کے بیان میں کس شاعرانہ ہنر مندی سے کام لیا ہے۔

مدح

جہاں تک ذوق کا تعلق ہے وہ رسم مرح نبھاتے ہیں انہوں نے زیادہ تر اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح کی ہے۔ اس ہی میں سارا زور قلم صرف کر دیا ہے۔ انہوں نے سلاطین کی سخاوت ، شجاعت اور عدالت وغیرہ کی تعریف کی ہے۔
ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی صحت یابی کے وقت پر شکوہ قصیدہ کہا اور بادشاہ کی صحت یابی کا اثر کا ئنات پر دکھایا وہ فرماتے ہیں،

عجب نہیں یہ ہوا سے کہ مثل نبض صحیح

کرے اگر حرکت موج چشمه تصویر
نہ برق کو تپ لرزہ،نہ ابرکو ہوزکام
نہ آپ میں ہو رطوبت، نہ خاک میں تبخیر

غرضیکہ بادشاہ کی صحت یابی اس قدر مبارک ہے کہ سطح کیتی سے سارے امراض ختم ہو گئے ہیں ۔ اگر چہ ان اشعار میں مبالغہ موجود ہے مگر بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے قصیدہ گو شعرا یہی نسخہ استعمال کرتے تھے۔ اسی قصیدے میں ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی دیگر خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے مثلاً وہ کہتے ہیں:

مجال کیا کہ ترے عہد میں شرر کی طرح
اُٹھائیں سر کو شرارت سے سرکشان شریر
ہوا میں آئے جو کرتا ہے سرکشی شعلہ
تو چٹکیاں دل آتش میں بے ہی آتش گیر

ان اشعار میں ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی شان میں عید کے موقع پر جو قصیدہ کہا ہے۔ اس کی مدح بھی بہت شاندارہے غرضیکہ بادشاہ کی صحت یابی اس قدر مبارک ہے کہ سطح گیتی سے سارے امراض ختم ہو گئے ہیں۔

اگر چہ ان اشعار میں مبالغہ موجود ہے مگر بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے قصیدہ گو شعرا یہی نسخہ استعمال کرتے تھے۔ اس قصیدے میں ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی دیگر خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے مثلا وہ کہتے ہیں:

مجال کیا کہ ترے عہد میں شرر کی طرح
اُٹھائیں سر کو شرارت سے سرکشان شریر
ہوا میں آئے جو کرتا ہے سرکشی شعلہ
تو چٹکیاں دل آتش میں بے آتش گیر

ان اشعار میں ذوق نے بہادر شاہ ظفر کی شان میں عید کے موقع پر جو قصیدہ کہا ہے۔ اس کی مدح بھی بہت شاندار ہے۔ ذوق بادشاہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:

تیرا دروازه دولت ہے مقام امید تیرا دیوان عدالت ہے محل عبرت
ذہن عالی ہے ترا طائر شاخ صدره

اسی طرح سودا کے قصائد میں بھی مدح کے خوبصورت شاعر ملتے ہیں۔ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی سودا کے فن کےاس پہلو پر یوں گفتگو فرماتے ہیں:

جہاں تک مدح کا تعلق ہے اس میں بھی سودا نے بالعموم فرق مراتب ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ بزرگان دین و آئمہ کی نیکی و بزرگی عفو و کرم ، شرافت و نجابت علم و حیا، عدل و انصاف ، ہمت و جرات ، خدا تری ، فیوض و برکات اور کشف و کرامات کو سراہا ہے اور امراء وسلاطین کے تدبر و تفکر ہیبت و جلال ، شجاعت و دلیری ، سخاوت و فیاضی ، عدل و انصاف کی توصیف ہے

اور متقضیات مدح نگاری کے مطابق مبالغہ وغلو کے نئے نئے پہلو نکالے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے اوصاف جن کے لئے آئمہ اور امراء وسلاطین دونوں کو خراج تحسین ادا کیا ہے۔ مثلاً عدل و انصاف اور شجاعت و فیاضی وہاں تعریف ایک جیسی ہے، کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ۔“

اسی طرح سب ممد وحین کو تلوار اور گھوڑوں کی تعریف بھی ایک جیسی ہے۔

مقطع

قصیدے کی آخری منزل مقطع ہے جس کو حسن الخاتمہ بھی کہتے ہیں۔ قصیدے کو اس طرح ختم کرنا چاہیے کہ اس کی ابتدائی شان و شکوہ کے مقابلے میں پست نظر نہ آئے بلکہ خاتمہ پر سامع مطمئن ہو جائے :

کرے ہے ختم دعائیہ پر اب سخن سودا
ادب سے دور ہے خدمت میں تیری طول کلام
مے سرور مجھے دے ہر ایک عید کے دن
ظرف سے ساقی کوثر کے ساغر گلفام

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں