قصیدے کی تعریف اور خصوصیات

کتاب کا نام ۔۔۔۔اردو شاعری 2
کوڈ۔۔۔۔5608
صفحہ نمبر ۔۔۔37سے20
موضوع ۔۔ قصیدے کی تعریف اور خصوصیات
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ

قصیدے کی تعریف اور خصوصیات

قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی مغز یا گودا کے ہوتے ہیں ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ لفظ قصد سے نکلا ہے جس کے معانی ارادہ کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ شاعر ارادتا قصیدے میں کسی شخص کی مدح و ستائش کرتا ہے ۔ اس لئے اس نظم کو قصیدہ کہتے ہیں اصطلاحا قصیدے کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے۔

قصیدہ ایک ایسی صنف ہے جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور بقیہ اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہم ردیف ہوں اور جس میں مدح یا ذم ( برائی ) کا بیان ہو ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عام طور پر ایسے اشعار ہی کو قصیدہ کہا جاتا ہے جن میں مدح کی گئی ہو اور وہ اشعار جن میں کسی کی برائی ہو ہجو کہلاتے ہیں۔

جاتی ہے۔ شبلی نعمانی نے شعر انجم میں قصیدے کے چار اجزاء بتائے ہیں ۔ ذیل میں ان اجزاء کی وضاحت کی

-1 تشبیب : یہ قصیدے کا ابتدائی حصہ ہے۔ اس حصے کے اشعار کے ذریعے شاعر اپنی قدرت زبان جولانی طبع اور تخیل کی بلندی کا پتہ دیتا ہے۔ عربی میں تشبیب عشقیہ اشعار کے لئے مخصوص تھی ۔ بعد میں اس حصے میں ہر طرح کے مضامین قلمبند کئے جانے لگے۔

-2 گریز: یہ قصیدے کا سب سے مختصر حصہ ہے جو ایک یا دو شعروں تک محدود ہوتا ہے۔ اس مقام پر شاعر بڑی مہارت کے ساتھ تشبیب سے مدح کی طرف آتا ہے۔

-3 مدح: یہ قصیدے کا بنیادی جزو ہے۔ اسی حصے میں شاعر اپنے مدروح کی تعریف میں اشعار لکھتا ہے۔

-4 دعا : اس حصے میں شاعر اپنے ممدوح کے حق میں دعا کرتا ہے۔ اپنا احوال بھی بیان کرتا ہے اور انعام و اکرام کا طالب بھی ہوتا ہے۔ قصیدے کی صنف عربی سے فارسی میں آئی اور پھر فارسی سے اردو شاعری کا حصہ بنی ۔

مختصر سوانحی خاکہ:
2- مرزا محمد رفیع سودا

مرزا محمد رفیع نام اور سود اتخلص تھا ۔ 27 جون 1706ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام مرزا محمد شفیع تھا جو دہلی میں آباد تھے اور تجارت کرتے تھے۔ گھر میں خوشحالی تھی اس لئے سودا کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے طریقے سے ہوئی ۔ کچھ عرصہ فوج میں ملازم رہے مگر پھر جلد ہی یہ نوکری ترک کر کے ملازمت و مصاحبت کا پیشہ اختیار کر لیا اس طرح مختلف درباروں سے وابستہ رہے۔ سودا نے فارسی میں شعر کہنے کا آغاز کیا تھا مگر پھر خان آرزو کے کہنے پر اردو میں بھی شعر گوئی کرنے لگے ۔ شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے اور جلد ہی اپنی قابلیت اور لیاقت کے سبب سے اہل سخن و دانش میں شہرت حاصل کر لی۔ یہ اسی شہرت کا نتیجہ تھا کہ تاجدار ہندوستان شاہ عالم نے انہیں شاعری میں اپنا استاد مقرر کیا۔ لیکن جب بادشاہ سے کسی بات پر رنجش ہو گئی تو در بار جانا چھوڑ دیا۔ دہلی میں بے شمار امراء و روسا ان کے قدر دان تھے لہذا انہیں معاشی اعتبار سے کوئی دشواری پیش نہ آئی ۔ یہ زمانہ چونکہ سیاسی افراتفری کا زمانہ تھا اس لئے دوسروں کی طرح انہیں بھی دہلی شہر چھوڑ نا پڑا۔ وہ ساٹھ برس کی عمر میں فرخ آباد گئے جہاں نواب احمد خان بنگش کے ہاں قیام کیا اور ان کے دیوان اعلیٰ نواب مہربان خان رند کے استاد مقرر ہوئے ۔ لیکن جب نواب احمد خان بنگش نے وفات پائی تو نواب شجاع الدولہ کے پاس فیض آباد آ گئے ۔ شجاع – الدولہ کی وفات کے بعد نواب آصف الدولہ کے دربار میں رہے جہاں انہیں ملک الشعراء کا خطاب دیا گیا۔ سودا کی وفات 1781 ء میں لکھنو میں ہوئی۔

سودا کے عہد تک اردو قصیدے کی روایت

دکن میں بہمنی سلطنت کا قیام 1350 ء میں ہوا تھا۔ اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ اسی سلطنت کے حلقے میں اردو شعر و ادب میں خاطر خواہ کام کا سلسلہ آغاز ہوا۔ مشتاق اور لطفی جیسے شاعروں کا ذکر بھی اسی عبد میں ہوتا ہے جنہوں نے قصائد لکھے ۔ جب بہمنی سلطنت کئی حصوں میں تقسیم ہوئی تو عادل شاہیوں اور قطب شاہیوں کے ہاں اردو شاعری کا فروغ نہ صرف جاری رہا بلکہ ارتقاء پذیر بھی ہوا۔ عادل شاہی دور (1490-1685) میں علی عادل شاہ ملک خوشنود ، امین الدین اور نصرتی وغیرہ کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے قصیدہ نگاری کے فن میں اپنے جو ہر دکھائے ۔ ان شاعروں میں نصرتی ایک ایسا شاعر ہے جسے قصیدہ میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس نے فارسی قصیدے کی روایت کو پیش نظر رکھا ۔ فنی اصولوں کی پیروی کی اور مقامی زبان کے علاوہ فارسی الفاظ سے بھی کام لیا۔ وہ واقعہ نگاری تسلسل بیان اور شوکت لفظی کی اہمیت کو بخوبی سجھتا تھا۔ قطب شاہی دور (1518-1686) ۔ شاعروں میں افضل قادری محمد قلی قطب شاہ اور غواصی نے قصیدہ نگاری کی ۔ غواصی کو اپنے عہد میں دوسروں پر ترجیح حاصل ہے لیکن فنی اعتبار سے ان کے قصائد میں بعض خامیاں پائی جاتی ہیں۔ خواصی نے نہ ہی فارسی قصائد کو سامنے رکھا اور نہ ہی قصیدے کی فنی ضرورتوں کو پورا کیا ۔ وہ قصیدے کو براہ راست مدح کے حصے سے آغاز کر دیتے تھے ۔ یہاں ولی وکنی کا ذکر بھی کیا

جاسکتا ہے جنہوں نے چند قصائد لکھے ہیں لیکن ان کا قصیدہ بھی فنی اعتبار سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کے ہاں وہ زور الفاظ بھی موجود نہیں جو قصیدے کی ایک لازمی شرط ہے۔

شمالی ہندوستان میں اردو شاعری کی مقبولیت کا دور اورنگ زیب عالمگیر کی وفات (1707) کے بعد شروع ہوتا ہے جب ولی دکنی کا دیوان دہلی میں پہنچا تو اردو زبان کو فروغ ملنا شروع ہوا ۔ ولی دکنی کے ہاں چونکہ قصائد بھی موجود تھے لہذا اس صنف کی طرف بھی توجہ دی جانے لگی۔ لیکن چونکہ ان دنوں دہلی سیاسی انتشار اور خلفشارکا شکار تھا جبکہ قصیدے کا تعلق زیادہ تر درباروں سے وابستہ سمجھا جاتا تھا لبند اسے غزل کی طرح خصوصی توجہ حاصل نہ ہوسکی ۔ سودا سے قبل ناجی ، حاتم اور فغان کا ذکر ملتا ہے لیکن اس فن کو اصل فروغ سودا نے دیا۔ سودا ہی کے معاصرین میں میر تقی میر بھی شامل ہیں جنہوں نے قصیدے کے فن میں بھی اپنے جو ہر دکھائے لیکن اس میدان میں دوسودا کی برابری نہیں کرتے ۔

4- سودا کے قصائد کا فکری جائزہ

سودا جس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں وہ سیاسی انتشار اور خلفشار کا زمانہ ہے۔ اور نگزیب عالمگیر کی وفات (1707) کے ساتھ ہی مغلیہ اقتدار میں جو زوال شروع ہوا تھا وہ سودا کے عہد میں جاری رہا۔ نادر شاہ درانی، احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں نے قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ دہلی کو تباہی و بربادی کی عبرت گاہ بنا کر رکھ دیا ۔ جب نادر شاہ دہلی پر حملہ آور ہوا تو یہ سودا کی جوانی کا زمانہ تھا ۔ سودا نے یہ تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔

پے در پے حملوں نے دہلی میں سیاسی انتشار ہی پیدا نہیں کیا بلکہ معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی ابتری بھی پیدا کی ۔ اس صورت حال کا اثر یہ ہوا کہ اس عہد میں جونئی فکر پیدا ہوئی اس میں رنج والم کا پہلو بہت نمایاں تھا اسی لئے اس عہد کی شاعری میں جذبہ و احساس کا غلبہ ہے اور دنیا کی بے ثباتی بے یقینی اور حزن و یاس کی کیفیات عام ہیں ۔ سودا بھی اسی عہد کے شاعر ہیں مگر وہ داخلیت پسند شاعر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی شاعری پر رنج و غم کی گہری

چھاپ موجود ہے بلکہ اس کے مقابلے میں وہ بیروں میں شاعر ہیں ۔ حالات پر طنز کرتے ہیں مگر آنسو نہیں بہاتے ۔ ان کے لہجے میں تو انائی ہے اور موضوعات میں نشاطیہ رنگ ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں ایک تو یہ کہ انہیں فطری طور پر کشادہ اور شگفتہ مزاج عطا ہوا تھا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور جب ملازمت بھی اختیار کی تو شاہوں اور امیروں کے درباروں سے وابستہ ہوئے۔ تمام عمر شان و شوکت سے بسر ہوئی ۔ یہی شان و شکوه ، کشادگی اور شگفتگی ان کے قصائد میں بھی موجود ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے اپنے عہد سے اثر قبول نہیں کیا حقیقت یہ ہے کہ غزل کے ساتھ ساتھ ان کے قصیدے میں بھی گردو پیش کے حالات کے اثرات جابجا موجود ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ معروضی اور خارجی حقائق سے مواد اور توانائی حاصل کرتے ہیں اور انکی نگاہ ایک تماشائی کی نگاہ ہے۔ وہ اگر زندگی کے تاریک پہلو دیکھتے ہیں تو روشن پہلو بھی سامنے لاتے ہیں ۔ وہ صرف جذبانت واحساسات سے کام نہیں لیتے بلکہ آنکھ سے نظر آنے والی اشیاء کی تصویر میں بھی بناتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی لکھتے ہیں۔

سودا کی تماشائی نظر میں دنیا وسیع اور بوقلموں نظر آتی ہے ( ولی کا دبستان شاعری ص 172 ) سودا کی تماشائی نظر نے معاشرے کی اخلاقی خرابیوں، حکومت کی بے عنوانیوں اور افراد کی بے ہودگیوں کا ذکر اپنے شہر آشوب اور ہجویات میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ شہر آشوب اور قصیدہ تضحیک روزگار میں مغلوں کی عسکری قوت کے زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں جبکہ شمس در ہجوحات غراب” میں مذہبی عالموں کی تنگ نظری اور اخلاقی کوتاہیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ جو سودا کی بیدار مغزی کا ثبوت ہے۔

مدحیہ قصائد میں شاعر کی ساری توجہ چونکہ اپنے ممدوح کی تعریف وستائش پر مرکوز ہوتی ہے اس لئے ایسی باتوں سے گریز ہی کیا جاتا ہے جو اصل موضوع کی شگفتگی یا شان و شکوہ کو متاثر کر یں ۔ لیکن ایک اچھے شاعر کو اپنی فکر مشاہدات اور تجربات کو کسی نہ کسی طرح اپنی شاعری کا حصہ بنانے کی قدرت حاصل ہوتی ہے ۔ سودا کا عہد طرح طرح کی معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی خرابیوں میں گھرا ہوا تھا جس سے انہوں نے کبھی نظریں نہیں چرائیں ۔ اس لئے ہمیں ان کے قصائد کی تشبیہوں میں اخلاقی مضامین بھی دستیاب ہو جاتے ہیں ۔ ایک مثال ملاحظہ کیجئے ۔

فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہوئے

نہیں کچھ جمع سے نیچے کو حاصل جز پریشانی نہ جھاڑے آستین کہکشاں شاہوں کی پیشانی

خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی

پہلے شعر میں دولت کے ارتکاز اور دوسرے میں اہل دولت کی خوشامد کرنے کو موضوع بنایا گیا ہے جو سودا کی بیدار مغزی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ہمیں ان کے کلام میں تہذیب و معاشرت کے نمونے بھی دستیاب ہو جاتے ہیں جو ان کے مشاہدے کی قوت کا اندازہ ہم پہنچاتے ہیں ۔

سودا کا عہد قصیدہ نگاری کے لئے موزوں نہیں تھا۔ حکومتوں میں استحکام ختم ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں دربار کی وہ شان بھی نہیں رہی تھی جو قصیدہ نگاری کے لئے مناسب سمجھی جاتی ہے لیکن چونکہ سودا کو قدرت نے بلند تخیل اور نشاطیہ لہجہ عطا کیا تھا اس لئے فطری طور پر وہ اس صنف کے لئے بہت موزوں ثابت ہوئے ۔ علاوہ ازیں قصائد میں چونکہ انہوں نے فارسی زبان کے اساتذہ کو پیش نظر رکھا اس لئے ایک ترقی یافتہ زبان کی فکر اور لہجے نے انہیں اپنی فکر

ترتیب دینے اور تخلیقی توانائی کو کھل کر سامنے آنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ۔ سودا کی فکر آزاد تھی ۔ ان کی زندگی میں بے نیازی کا بھی ایک عصر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف شاہوں اور امیروں کے ہی قصائد نہیں لکھے بلکہ بزرگان دین کی بھی مدح کی جو مذہب سے انکی پختہ وابستگی
کا کھلا اظہار ہے ۔ علاوہ ازیں قصائد کو انہوں نے دوسروں کی تعریف و ستائش ہی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اپنی قدرت زبان اور ز و تخیل کے اظہار کا بھی ذریعہ بنایا ہے۔
سودا کی قصیدہ نگاری کے فکری جائزے کے لئے ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ رائے بھی پیش نظر رکھی جاسکتی ہے۔ سودا کی شاعری خیالی شاعری نہیں بلکہ اس میں شعور حیات کا گہرا احساس ملتا ہے ۔

سودا کے قصائد کا فنی جائزہ۔
سودا نے اپنے قصائد میں فنی اصولوں کی سختی سے پیروی کی ہے ان کے قصیدوں میں تمام اجزا تشبیب ، گریز ، مدح اور دعا کا التزام ترتیب کے ساتھ اور مکمل صورت میں تشکیل پاتے ہیں ۔

سودا کے قصائد کے مطلعے زور دار اور دلکش ہوتے ہیں۔ مطلع قصیدے کا پہلا شعر ہوتا ہے اور اس سے قصیدے کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے ۔ ہمیں ان کے مطلعوں کے ذریعے ہی ان کے تخیل کی بلندی اور زور بیان کا اندازہ ہوتا ہے اور تجنس بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاعر تشبیب میں آگے چل کر کس طرح اپنے اظہار بیان کے جوہر دکھائےگا۔ سودا کے چند مطلعے ملاحظہ کیجئے ۔

اٹھ گیا بہن و دے کا چمنستان سے عمل
شیخ اروی نے کہا ملک خزاں متاصل

صباح عید ہے اور یہ سخن ہے شہرہ عام

حلال دختر رز بے نکاح و روزه حرام

ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی

نه تونی شیخ زنار تسبیح مسلمانی

تشبیب کو قصیدے کی تمہید کہا جاتا ہے۔ اس حصے میں شاعر اصل موضوع سے پہلے مختلف طرح کے مضامین بیان کرتا ہے اور یوں اپنے علم ذخیرہ الفاظ ، قدرت بیان اور زور تخیل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سودا نے تشبیب میں ہر طرح کے موضوعات رقم کئے ہیں۔ بہار حسن و عشق ، دنیا کی بے ثباتی علم دان کی ناقدری اپنے عہد کے سیاس و سماجی اور اخلاقی حالات غرض انکی فکر کی وسعت ہر جگہ اپنے جو ہر دکھاتی ہے۔
بہار کی شبیہوں میں سودا نے جا بی خیالی تصویریں بنائی ہیں اور مالٹے سے کام لے کر اپنی فنی چابکدستی اور بے پناہ تخیل کا اظہار کیا ہے۔ حسن و عشق کے مضامین میں بھی سودا مبالغہ آرائی سے خیالی تصویریں بناتے

میں در مدح عماد الملک غازی الدین خان بہادر کی تشبیب سے دو شعر ملاحظہ کیجئے ۔

حسن میں کان کے آویزے سے وہ لطف کہ جوں

مستعد قطره شبنم کہ پڑے گل سے ٹپک

متی آلوده وه لب انگر تھے یہ خاکستہ

کہ ہوا سے وہ سخن کرنے کے جاتے تھے ایک

پہلے شعر میں سودا نے کانوں میں پڑے ہوئے آویزوں کو شبنم کے ایسے قطروں سے تشبیہ دی ہے جو ٹپک پڑنے کو تیار ہوں جبکہ دوسرے شعر میں منی آلودہ لبوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ باتیں کرتے ہوئے ہوا ان سے کراتی ہے تو وہ ایک اٹھتے ہیں۔ انوکھی تشبیہ اور تخیل کی بلندی ان اشعار کی خصوصیت ہے۔

نعتیہ و منقبتیہ قصائد کی تشبیہوں میں سودا نے زیادہ تر اخلاق و حکمت کے موضوعات پیش نظر رکھتے ہیں لیکن عام دنیا وی قصائد میں بھی گردو پیش کی زندگی معاشرت کی جھلک اور سیاسی سماجی اور اخلاقی با تیں شامل

ہوئی ہیں ۔

سودا کے قصائد میں گریز کا حصہ بھی نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ گریز کی خوبی یہ ہے کہ اسمیں تشبیب کے بعد مروح کا ذکر بڑے فطری انداز سے آنا چاہیے تا کہ بیان میں تسلسل قائم رہے۔ سودا کے ہاں یہ عمل فن کی خوبیوں کے مطابق ہوتا ہے جسکی وجہ سے تشبیب اور گریز میں کوئی وقفہ نہیں پڑتا۔

قصیدے کا اصل جزو مدح ہے اس میں شاعر اپنے ممدوح کی عظمت ، شان و شوکت ، شجاعت ، عدل وانصاف ، جاہ و جلال اور بزرگی کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ وہ مدروح کے ساز و سامان ، تلوار ، تیرکمان نیز ہاتھی گھوڑ الشکر سب کی اہمیت و وقعت واضح کرتا ہے اگر کسی بزرگ کا ذکر ہے تو روضے اور مزار کی تعریف بھی کرے گا۔ بادشاہ کی ستائش کرتے ہوئے وہ اس میں ایسی تمام خوبیاں تلاش کرے گا جو مثالی ہونگی سودا نے مدح میں نئی نئی تشبیہات اور استعارے استعمال کر کے اور مبالغے سے کام لے کر محمد وحین کے اوصاف کو اس بلندی پر پہنچا دیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاہ عالمگیر ثانی کی مدح میں لکھے گئے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے ۔

شرار سنگ سے خاشاک کو جو پہنچے ضرر لے آوے کھینچ کے دیواں میں کوہ کو پرکاہ
کرم بھی اتنا ہی تیرا ہے خلق کے اوپر

کہ اب ونور سے خالق ہی جس کے ہے آگاہ

امید خو ترا نہ بھی ضامن ہو

کوئی نہ کر سکے ہر گز کسی طرح کا گناہ

او پر درج کئے گئے اشعار میں بادشاہ کے عدل، کرم اور درگذر کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سودا کی مدح بہت مبالغہ آمیز ہوتی ہے اور بعض اوقات بڑی مصنوعی سی لگتی ہے ۔ اس رائے کی حقیقت یہ ہے کہ چونکہ سودا کے عہد میں شاہوں میں اعلیٰ خوبیاں باقی نہیں رہی تھیں اس لئے سو دوا کی تعریف میں جھوٹ کا پہلو دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قصیدہ نگاری میں مبالغہ آرائی ایک فنی ضرورت ہے جس کا سودا کو پوری طرح ادراک تھا ۔ اس لئے مدح میں انوکھی تشبیہات کا استعمال ، شکوہ الفاظ اور ایک ہی بات کو کئی طرح سے بیان کرنے کا سلیقہ سودا کی شعری صلاحتیوں کا اندازہ بہم پہنچاتا ہے۔ سودا نے جن قصائد میں بزرگان دین کی مدح کی ہے وہاں یہ خامی موجود نہیں ہے بلکہ جذبات و احساسات انداز بیان کو اور بھی پر لطف بنا دیتے ہیں۔

قصیدے میں مدح کو دعا پر ختم کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں ایک طرف تو شاعر اپنے ممدوح کے حق میں دعا کرتا ہے تو دوسری طرف انعام واکرام کا بھی طالب ہوتا ہے۔ یہ رسمی حصہ ہے مگر سودا کا کمال یہ ہے کہ وہ دعا پر قصیدے کو اس طرح ختم کرتے ہیں کہ مدح کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔

آخر میں سودا کے قصائد کی فنی خصوصیات کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے ملاحظہ کیجئے۔ سودا قصیدے کے مطلعے کو تشبیب سے تو سے گریز کو مدح سے اور مدح کو خاتمے سے اس طور پر مربوط و پیوستہ رکھتے ہیں کہ قصیدہ ایک مکمل اکائی بن جاتا ہے ۔

پر مربوط و پیوستہ رکھتے ہیں کہ قصیدہ ایک مکمل اکائی بن جاتا ہے ۔

6- قصیدہ نگاری میں سودا کا مقام

سودا سے قبل اردو میں قصیدہ نگاری کی روایت تو موجود تھی مگر جس قدر شعراء کا تذکرہ ملتا ہے انہیں تاریخی اعتبار سے تو اولیت حاصل ہے مگر فنی اور فکری اعتبار سے جو مقام و مرتبہ سودا کو حاصل ہوا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہو سکا ۔ دکنی ادب میں نصرتی ہی ایک ایسا شاعر ہے جس نے فارسی قصائد کو پیش نظر رکھا اور یوں اس صنف کے فنی

اصولوں کی پیروی کرنے کی کوشش کی مگر سودا نے نصرتی سے اثر قبول نہیں کیا بلکہ اس کی طرح براہ راست فارسی زبان کے اساتذہ کی طرف رجوع کیا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے اردو میں قصیدے کی باقاعدہ روایت بنانے کی کوشش کی ۔ سودا نے فارسی کے مشہور قصیدہ نگاروں خاقانی عرفی اور انوری کے انداز کو پسند کیا اور ان کی زمینوں اور بحروں میں قصائد لکھ کر اپنے فنی کمال کا اظہار کیا اسکی ایک مثال سودا کا وہ مشہور قصیدہ ہے جو انہوں نے حضرت علی کی مدح میں عرفی کے ایک قصیدہ لامیہ کے انداز میں لکھا۔ سودا کے قصیدے کا مطلع ہے۔

اٹھ گیا بہن و دے کا چمنستاں سے عمل

تریخ اردی نے کیا ملک خزاں مستاصل

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ سودا نے تقلید محض نہیں کی بلکہ فارسی روایت سے اثر لے کر اردو میں اپنی انفرادیت اور فنی کمال کا لوہا منوایا ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے۔
( سودا نے ) فارسی کے بہترین قصیدوں کے مقابلے پر اردو میں قصیدے لکھے اور اپنی خلاقی سے اردو قصیدے کو فارسی قصیدے کا ہمسر بنا دیا

سودا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ہر طرح کے قصائد مل جاتے ہیں ۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ اور اہل بیت کی شان میں بھی قصیدے لکھے ۔ اپنے عہد کے حکمرانوں، وزیروں اور امیروں کی مدح بھی کی جبکہ ایسے قصائد بھی موجود ہیں جن میں اپنے زمانے کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

سودا نے جن نوابوں اور امیروں کے قصائد لکھے ان میں میر نسبت خان’ خواجہ سرا عالمگیر ثانی ، عماد الملک سیف الدولہ مہربان خان اور احمد خان بنگش ، شجاع الدولہ آصف الدولة سرفراز الدولة حسن رضا خان اور رچرڈ نکسن ریذیڈنٹ لکھنو جیسی شخصیات شامل ہیں ۔

سودا کے قصائد کی تعداد کے بارے میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ کلیات سودا ( طبع نولکشور 1932 ء) میں چوالیس (44) قصائد شامل ہیں ۔ گویا مقدار کے لحاظ سے بھی سودا کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

سودا کو نہ صرف اپنے عہد میں بلکہ ہر آنے والے عہد میں عظیم قصیدہ نگار کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ مصحفی

نے انہیں اس فن میں ” نقاش اول کہا تھا اور مولانا آزاد نے آب حیات میں لکھا ہے۔ ان کے کلام کا زور انوری اور خاقانی کو دباتا ہے اور نزاکت مضمون میں عرفی وسودا کی قصیدہ نگاری کے بارے میں دیگر نقادوں کی بھی چند آرا ملاحظہ کیجئے ۔

سودا قصائد اردو قصیدہ نگاری کی تاریخ میں ایک بڑے موڑ کا پتہ دیتے ہیں ( ڈاکٹر تنویر احمد علوی : ذوق مجلس ترقی ادب لاہور 1963 ص 216)

اگر چه قصیدہ کا وجود ان (سودا) سے پہلے تھا لیکن قصیدے کو حقیقی معنی میں قصیدہ انہوں نے ہی بنایا ۔ انکے معاصرین اور بعد والوں میں سب نہیں تو اکثر ان سے متاثر ہوئے ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں