پنجابی زبان میں اردو ڈرامے کا ارتقاء

پنجابی زبان میں اردو ڈرامے کا ارتقاء

پنجابی زبان میں اردو ڈرامے کا پہلا دور

پنجابی میں یہ صنف بھی آورہ اصناف میں سے ہے، اور اپنے جدید مفہوم میں بیسویں صدی کے اوائل سے ہی اس کا آغاز ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب کوئی زبان ترقی کی منازل طے کرنے لگتی ہے تو سب سے پہلے تراجم ہی اس کا سہارا بنتے ہیں۔

ڈرامے کے حوالے سے یہ بات پنجابی زبان پر بھی صادق آتی ہے۔ تراجم کا یہ دور 1899ء کے ارد گرد کے زمانے سے شروع ہوتا ہے۔

جب چرن سنگھ نے شکنتلا کو پنجابی میں ڈھال کر سنسکرت کی ڈرامائی روایت کو پنجابی ادب سے متعارف کرایا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈرامہ کی تعریف اور اقسام

بعد ازاں انگریزی ثقافتی یلغار کے زیر اثر کالجوں کی ڈرامیٹک کلبوں میں شیکسپیئر ، گالر وردی، برنارڈ شا اور دیگر معروف یورپی ڈراما نگاروں کی تخلیقات کو پنجابی روپ دے کر انگریزی ڈرامے کی تکنیک سے آگاہی حاصل کی گئی ۔

اخذ و ترجمہ کے اس دور میں ایشور چندر نندا کی تخلیقی صلاحیتوں اور نورار رچرڈز کی پنجابی تھیٹر کے ساتھ خصوصی لگن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایشور چندر نندا ( پیدائش 1892ء) نے”سبھدرا” کے نام سے 1920ء میں اسٹیج کے لئے ایک دلچسپ ڈراما تحریر کیا جو 1928ء میں لاہور سے شائع ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ڈرامہ کی تعریف اور ارتقاء

کتابی صورت میں شائع ہونے والا یہ پہلا ڈراما تھا۔ اس کے بعد اور بھی کئی ڈرامے لکھے گئے اور وقت کے ساتھ ترقی کرتے کرتے یہ صنف موجودہ دور تک پہنچی۔

موجودہ دور میں ڈراما چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

ٹی وی ڈراما، ریڈیو ڈراما ، اسٹیج ڈراما اور تحریری ڈراما ( جو کہ صرف پڑھنے کے لئے لکھا جاتا ہے )۔

یہ الگ بات کہ اپنی مقبولیت اور ہمہ گیریت کے باعث پہلی تینوں اقسام کے بعض ڈرامے بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے

تاہم یہاں ہم دوسرے دور میں صرف ان ہی ڈراموں کا جائزہ لیں گے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔

پنجابی ڈرامے کا دوسرا دور

پنجابی ڈرامے کا دوسرا دور قیام پاکستان کے بعد شروع ہوتا ہے اور سجاد حیدر کی کتاب ” ہوا دے ہوکے” پنجابی ڈراموں کی پہلی کتاب بنتی ہے۔

جو 1957ء میں شائع ہوئی۔ ہر چند کہ 16 دسمبر 1937ء کو لاہور میں قائم ہونے والے ریڈیو اسٹیشن سے پنجابی ڈراموں کا اجراء ہو چکا تھا

اور سجاد حیدر کے یہ ڈرامے بھی ابتدائی طور پر ریڈیو کے لیے ہی لکھے گئے تھے مگر کتابی صورت میں یہ بہت بعد میں شائع ہوئے۔

سجاد حیدر کا شمار جدید ڈرامے کے بانیوں میں ہوتا ہے جن کی یہ چوتھی کتاب ” کالا پتن” 1986 ء میں منظر عام پر آئی۔

ان کے ڈراموں میں جہاں موضوعات کی گہرائی اور تنوع پایا جاتا ہے وہیں تکنیکی اعتبار سے بھی یہ کئی طرح کی جدتوں کے حامل ہیں ۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کے ہاں خارجی برائیوں کی بجائے اپنے اندر کا میل دھونے کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے۔

بہ الفاظ دیگر ان کا موقف یہ ہے کہ فرد اگر اپنے آپ کو ٹھیک کرلے تو معاشر ہ خود بخود سدھر جاتا ہے۔

سجاد حیدر کے علاوہ آغا اشرف اور اشفاق احمد نے بھی اس دور میں ریڈیو کے لیے خاصے اہم ڈرامے لکھے لیکن ان کے ہاں فرحیہ انداز کی فروانی پائی جاتی ہے۔

سجاد حیدر کے بیشتر ڈرامے نوعیت اور انجام کے اعتبار سے المیہ ہیں اور ان کا رخ داخل کی طرف ہے جبکہ آغا اشرف کے ہاں زندگی کی شگافتہ نقل کو بنیاد بنا کر لفظی بازیگری دکھائے گئے ہیں۔

آغا اشرف کی کتا میں ” نما نما دیوا بلے” دھرتی دیاں ریکھاں” اور ” بدلاں دی چھاں بالترتیب 1963، 1976ء اور 1967ء میں شائع ہوئیں۔

اشفاق احمد کی کتاب ” ٹاہلی دے تھلے” 1960 ء میں چھپی ۔ اشفاق صاحب نے ریڈیو کے لیے اس عنوان سے بیس بائیس ڈرامے لکھے تھے

جن میں سے چھ ڈرا مے کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔ زبان و بیان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان ڈراموں میں فلسفیانہ زبان استعمال کرنے کی بجائے عام بول چال کی زبان کے ذریعے فلسفیانہ مسائل بیان کیے گئے ہیں

یعنی اشفاق احمد عام کتابی علم سے ہٹ کر سماجی حوالے سے کوئی نہ کوئی ایسی بات نکال لاتے ہیں جو منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہوتی ہے۔

ان کا اصل میدان طنز ہے جس کا وار کبھی خالی نہیں جاتا۔

بانو قدسیہ نے ریڈیو کے لیے جو اصلاحی و اخلاقی ڈرامے لکھے وہ بعد ازاں ” آسے پاسے“ کے نام سے 1987ء میں کتابی صورت میں بھی سچپ چکے ہیں۔

مختلف النوع مسائل کے ادراک اور ان کی پیش کش سے قطع نظر ہر ڈاما نگار کا ایک مخصوص اسٹائل اور تکنیک ہوتی ہے

جس کے ذریعے وہ حقائق اور مسائل کو تخلیق کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔

بانو قدسیہ کے ڈراموں کو تکنیکی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اصل مسئلہ ڈراما شروع ہونے کا کافی دیر بعد سامنے لاتی ہیں۔

شروع کے حصے میں صرف دو کرداروں کے مکالمات ہوتے ہیں جو ایک پہیلی کی طرز آگے بڑھتے جاتے ہیں

یہاں تک کہ فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعے اصل وقوعہ سامنے آ جاتا ہے۔ انھوں نے

اپنے ڈراموں میں زیادہ تر خانگی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔

فخر زمان چڑیاں دا چنبہ مطبوعہ 1969ء میں چار ڈرامے پیش کیے گئے ہیں

جو اشاعت سے قبل ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں ۔

ان ڈراموں میں واضح انداز میں سماجی مسائل کو پیش کر کے اصلاحی مقاصد تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے

اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں وسیع پیمانے پر پھیلتی ہوئی خود غرضی کے خلاف مثبت سوچ اور اخلاقی فرائض ادا کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

حفیظ خان کی کتاب ” کج دیاں ماڑیاں مطبوعہ 1989 ء میں ریڈیائی ڈرامے پیش کیے گئے ہیں جو ریڈیو بہاولپور اور ملتان سے نشر ہوئے۔

سرائیکی میں لکھے گئے یہ ڈرامے سماجی جبر کی مختلف صورتوں کے دلچسپرومانی اظہار سے تعلق رکھتے ہیں۔

نیاز لکھویرا کی کتاب کیچ دی دنیا ، مطبوعہ 1990 ء میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے سات ڈرامے پیش کئے گئے ہیں۔

مختصر دورانیے کے ان اصلاحی ڈراموں میں جزئیات نگاری اور مکالمات کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

یہاں سے پنجابی ڈرامے نشر ہونا شروع ہو گئے ۔ منو بھائی کا جزیرہ ٹی وی سے نشر ہونے والا پہلا ایسا ڈرامہ بنتا ہے جو بعد ازاں 1977 ء میں کتابی صورت میں بھی سامنے آیا۔

یہ 25.25 منٹ کی 13 اقساط پر مبنی ہے اور اب تک کئی بار نشر ہو چکا ہے۔

اس میں ایک ایسے دیہات کا پس منظر دکھایا گیا ہے جس میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے غریب لوگ ایک دوسرے کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں اور پیار محبت بناتے ہیں۔

سرمد صہبائی کا ڈراما توں کون تین ایکٹ کا اسٹیج ڈراما ہے جس کے آخر میں لکھاری نے روشنی کو آزادی کی علامت کے طور پر نمایاں ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔

"خصماں کھانیاں” کے نام سے 1993ء میں شائع ہونے والی شاہد محمود ندیم کی کتاب اسٹیج ڈراموں میں ایک منفرد اضافے کا درجہ رکھتی ہے۔

اس میں وہ ڈرامے پیش کیے سکتے ہیں جن میں معاشرتی و معاشی جبر کو موضوع بنایا گیا ہے۔

تکنیک کے اعتبار سے بھی یہ ڈرامے اسٹیج کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں ۔

الحق محمد کا اسٹیج ڈراما قفس، مطبوعہ 1976ء اور نجم حسین سید کے تحریری ڈرامے تخت لاہور ایک ہی موضوع سے متعلق ہیں

یعنی ان میں پنجاب کے ہیروز نے بھٹی کی کہانی پیش کی گئی ہے۔

افق محمد کے دوسرے اسٹیج ڈرامے مصلی، مطبوعہ 1972 کی اصل تقسیم مارکسزم کے گرد گھومتی ہے

اور اس میں ایک جاگیر زادے کے جھوٹے انقلابی نقاب کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔

نجم حسین سید کا دوسرا تحریری ڈراما ” اک رات راوی دی” مطبوعہ 1983 ء بھی تاریخی موضوع سے تعلق رکھتا ہے اور برکلے دی وار” سے ماخوذ ہے۔

یہ دار لوک صنف ھولوں کی صورت میں پہلے موجود تھی جس میں انگریز افسر لارڈ پر کلے اور احمد خان کھرل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور لڑائیوں کو نظم کیا گیا تھا۔

نجم حسین سید نے انہی واقعات کو اپنے انداز سے ڈرامائی روپ میں پیش کیا ہےجس میں پنجاب کی تاریخ جھلکتی نظر آتی ہے۔

پنجابی میں تحریری ڈراموں (Closet Plays) کی جو دیگر کتا ہیں ملتی ہیں ان میں منیر نیازی کی کتاب قصہ دو بجر والوں دا مطبوعہ 1981ء بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

اس میں دو ڈرامے پیش کئے گئے ہیں جو 1971 ء کی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے مفکرانہ تجزیے پر مہینے ہیں۔

یہ علامتی اظہار پر مبنی منفرد نوعیت کے ڈرامے ہیں جو صرف پڑھنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔

بابو جاوید گر جاکھی کی کتاب ”ست ڈرامے” میں بڑوں کی عزت اور حب الوطنی کا درس دیا گیا ہے

جبکہ نذر فاطمہ کے ڈراموں کی کتاب ست رنگ مطبوعہ 1988ء میں پیش کیے گئے سات ڈرا سے بنیادی طور پر نیم علامتی انداز اپنائے ہوئے ہیں

کیونکہ ان میں کئی جگہ الفاظ اپنے ظاہری مفہوم کے ساتھ ساتھ دیگر معافی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان ڈراموں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ کوئی واقعہ بھی بغیر جواز کے پیش نہیں کیا گیا۔

عام طور پر ڈرامے کے دو ہی مقاصد بتائے جاتے ہیں، اصلاح اور تفریح ۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ پنجابی ڈراما مسلسل ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے اور اس میں ہر نوع ، ہر موضوع اور ہر تکنیک کے ڈرامے لکھے جا رہے ہیں۔

ہر چند کہ ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد خاص طور پر شہری علاقوں میں ریڈیائی ڈرانے کا وہ چرچا نہیں رہا جو پہلے تھا

لیکن اپنے اپنے حلقہ اثر میں ڈرامے کی ہر قسم آج بھی مقبول ہے اور ٹی وی ڈرامے سے لے کر ریڈ یوتک اور اسٹیج ڈرامے سے لے کر مطالعاتی ڈرامے تک ہر طرح کا ڈراما لکھا جا رہا ہے۔

نوٹ: اصلی متن کے لیے حواشی دیکھیں شکریہ

حواشی

کتاب ۔پاکستانی زبانوں کا ادب،صفحہ ۔219،موضوع ۔ڈرامہ،مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں