؎ مشق سخن میں میں نے گزاری ہے زندگی
پایا ہے جو مقام ریاضت کی بات ہے (١٩)
جبکہ ڈاکٹر منور ہاشمی کے نزدیک:
"شعر و سخن کے میدان میں جو نسوانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ گلؔ کو یہ اعزاز طویل شعری ریاضت
سے حاصل ہوا ہے۔غزل ہو یا نظم اس نے دونوں کو اعتبار بخشا ہے۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ اس نے جدت کے ساتھ روایت کا دامن بھی تھامے رکھا اور شعریت
سے معنویت کو کبھی الگ نہیں ہونے دیا ۔ ” (٢٠)
ثمینہ گلؔ نے شعر گوئی کا باقاعدہ آغاز ١٩٨٠ء سے کیا۔ انہوں نے ابتدائی دور میں چند نثری اور آزاد نظموں سے شاعری شروع کی، جو آج بھی ان کی پرانی ڈائریوں کا حصہ ہے ۔ ثمینہ نے جب شاعری کا آغاز کیا اُس وقت وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ پہلا شعر جس سے آپ کا شعری سفر شروع ہوتا ہے وہ آپ کے پہلے شعری مجموعے "آنچل کی اوٹ سے” کی ایک غزل کا یہ شعر ہے:
؎ اجالے گھر کے اندر ہے تو باہر تیرگی کیسی
دیا کوئی جلا رکھنا ذرا سی اک گزارش ہے ( ٢١)
ثمینہ گلؔ کی ابتدائی دور کی شاعری اُس وقت کے کئی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہی جن میں سر فہرست آنچل، آداب عرض، خواتین ڈائیجسٹ اور اخبار جہاں وغیرہ شامل ہیں۔ ١٩٨٣ء، ٨۴ء تک ثمینہ گلؔ کی غزلیات اور قطعات ان اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہیں۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور مختلف رسائل و جرائد ان کی شاعری کو پورے اہتمام کے ساتھ چھاپنے لگے، جن میں نوائے وقت اور اسی قبیل کے دیگر رسائل و اخبارات شامل ہیں۔
٢٠٠٦ء میں ثمینہ گلؔ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئیں۔ ریڈیو پر کام کرنے کا شوق انہیں بچپن سے تھا۔ سرگودھا منتقلی کے بعد انہیں یہاں ایف ایم ١٠١ پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر انہیں بچوں کا پروگرام کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ پروگرام اتوار کے اتوار سرگودھا ریڈیو سٹیشن سے "آنگن تارے” کے نام سے نشر ہوا کرتا تھا۔ اس پروگرام میں بچوں کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ "آنگن تارے” کے ختم ہونے کے بعد بھی ثمینہ گلؔ ریڈیو پر بطور کمپئیر اپنی خدمات انجام دیتی رہیں۔
٢٠١٦ء میں ” ادب نامہ” کے عنوان سے ثمینہ گلؔ کی فرمائش پر ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا جس کی میزبان ثمینہ گلؔ خود تھیں اور پروگرام پروڈیوسری کے فرائض فریحہ کنول انجام دیتی تھیں۔ یہ خالصتًا ادبی پروگرام تھا جس میں مختلف ادبی سرگرمیوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جاتا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ثمینہ گلؔ نے کئی مشاعرے کرائے اور مختلف ادبی موضوعات سے سامعين کو روشناس کرایا۔ ثمینہ گلؔ تقریبًا دس سال (٢٠٠٦ء ۔٢٠١٧ء) تک ریڈیو پاکستان سے منسلک رہیں اور اپنی خدمات پیش کرتی رہیں ۔
٢٠٠٦ء سے ہی ثمینہ گلؔ "ماہنامہ تحریم” سے بطور ایڈیٹر وابستہ ہو گئیں اور تین سال تک اس رسالے کی ادارت سنبھالتی رہیں۔ اسی طرح ٢٠٠٧ء سے اخبار "نوائے جمہور” کی ادارت بھی انہوں نے سنبھال لی۔ یہاں ثمینہ گلؔ ایک ہفتہ وار صفحہ "ادب نامہ” کے عنوان سے نکالتی رہیں، جس میں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اردو شعراء کی تخلیقات کو جگہ دیتی تھیں۔ ان دونوں رسالوں میں ثمینہ گلؔ نے نہ صرف نامور قلم کاروں کے کلام کو شائع کیا بلکہ نو آموز شعراء کی بھی حوصلہ افزائی کی، جس سے انہیں ایک ایسا فلیٹ فارم مہیا ہوا جہاں وہ بآسانی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکتے تھے۔ ثمینہ گلؔ دس سال تک "نوائے جمہور” کی ادارت سنبھالتی رہیں اور ٢٠٠٧ء سے ٢٠١٧ء تک اس سے وابستہ رہیں ۔
٢٠٠٨ء میں ثمینہ گلؔ نے "بزم گل” کے نام سے اپنی ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے تحت ثمینہ گلؔ نے مختلف ادباء کی تخلیقات کی تقاریب رونمائیاں کرائیں اور بہت سے نامور شعراء کے اعزاز میں مشاعروں کا انعقاد کیا۔ بزم گل ایک سرگرم ادبی تنظیم تھی جس کی شعر و ادب کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس تنظیم کی روح رواں ثمینہ گلؔ تھی جنہوں نے اسے فعال بنانے میں نمایاں حصہ لیا۔
٢٠١٠ء میں ثمینہ گلؔ کا پہلا شعری مجموعہ ” آنچل کی اوٹ سے” منظرعام پر آیا ۔ اس کتاب میں شاعره نے تمام اصناف سخن کا احاطہ کیا ہے اور غزلوں کے علاوه حمد، نعت، مرثیہ، قطعات، پابند نظم، آزاد نظم، نثری نظم اور گیت وغیرہ جیسی اصناف سے کتاب کے صفحات کو مزین کیا ہے۔ کتاب کا منفرد انتساب قاری کو چونکاتا ہے جو شاعرہ نے قرآن مجید کی دو سورتوں کی مختلف آیات کے نام کیا ہے۔ ان کے تینوں مجموعوں کے انتسابات قرآنی آیات سے ماخوذ ہے جو شاعره کی فکری سمت متعین کرتی ہیں۔
ثمینہ گلؔ کے پہلے شعری مجموعے کو علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے کافی سراہا گیا اور اس کی کافی پذیرائی ہوئی۔ ان کے اس مجموعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے عطا الحق قاسمی کا کہنا تھا:
”ثمینہ گلؔ کا پہلا شعری مجموعہ اس کے لیے کامرانیوں کی پہلی سیڑھی ثابت
ہوا کہ وہ شاعری کی مختلف اصناف میں اپنا ہنر آزماتی ہے“ (٢٢)
جبکہ پروفیسر شاکر کنڈان ان الفاظ میں اہنے تاثرات بیان کرتے ہیں:
”ثمینہ گلؔ نے جب ادب کے میدان میں قدم رکھا تھا تو پھر وہ دوسری خواتین کی
طرح بند کمرے میں نہیں بیٹھی رہی بلکہ مردوں کے برابر ایک عزم اور حوصلے
کے ساتھ اس سفر میں رواں رہی اور اب بھی تازه دم ہے۔ ابتدا جب اتنی خوبصورت
ہے تو مجھے اُمید ہے کہ ادبی سفرکے تمام مراحل خوبصورت تراورمنزل خوبصورتترین ہوگی اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو“ (٢٣)
٢٣مارچ ٢٠١٣ء کو ثمینہ گلؔ کا دوسرا شعری مجموعہ "محبت آنکھ رکھتی ہے "کے عنوان سے سامنے آیا ۔ اس کتاب کی اشاعت شریف اکیڈمی جرمنی کے زیر اہتمام مغل پبلی کیشنز کی جانب سے ہوئی تھی۔ کتاب کے عنوان کے بارے میں شاعره خود لکھتی ہیں:
”محبت کرنے والوں کو اندھا کہا جاتا ہے مگر میری یہ کتاب اس بات کی تردید
کرتی ہے کہ محبت اندھی نہیں ہوتی۔ اسے اپنی اس آنکھ سے جو وجدان میں کھلتی
ہے، جو شعور ذات کے بھید کھولتی ہے، جو روح کی اتھاہ گہرائیوں میں چمکنے
والے جذبوں کا پتہ دیتی ہے، دیکھنے والا اسے وجدان کی آنکھ سے دیکھتا ہے
جو جذبے اور سچائیاں اسے اپنے محبوب میں نظر آتی ہیں وہ کسی اور میں
دکھائی نہیں دیتی۔“ (٢۴)
اس کتاب میں بھی شاعره نے جملہ اصناف کو موضوع سخن بنایا ہے۔ کتاب کے سر ورق پر موجود نعتیہ قطعہ شاعره کے فکری سمت کا پتہ دیتا ہے ۔
رخِ انور سے ذرا کملی ہٹا کر دیکھو
اپنی جلوؤں کی ہمیں سب کو تمازت دے دو
بحرِ عصیاں میں نہ ڈوبے یہ سفینہ میرا
اپنی رحمت کے اشاروں سے حفاظت دے دو (٢٥)
٢٠١٨ء میں ثمینہ گلؔ کی نثری کتاب” اردو کا پہلا سفر نامہ میر تقی میر” کے نام سے شائع ہوئی ۔ یہ ان کے ایم فل تحقیقی مقالے کا جزوی حصہ تھا جو اب کتابی شکل میں سامنے لائی گئی ۔ اُردو ادب کے حوالے سے یہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے تحقیق کرنے والوں کے لیے نئی راہیں کھل گئیں۔ اُردو ادب میں نثری سفر ناموں کے حوالے سے تو کافی تحقیق ہوئی ہے تاہم منظوم سفر ناموں کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔ ثمینہ گلؔ نے اپنے ایم فل کی تحقیق کے دوران میر تقی میر کا پہلا منظوم سفر نامہ ” نسنگ نامہ” دریافت کیا۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو اللہ تعالی نے انہیں بخشا اور ان سے اُردو ادب کے حوالے سے اتنا بڑا کام لیا ۔
ثمینہ گلؔ کا تیسرا شعری مجموعہ ” دیدم "کے عنوان سے جولائی ٢٠٢١ میں شائع ہوا۔ یہ کتاب ان کی غزلیات پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے فنی و فکری پختگی کا ثبوت دیا۔ کتاب آواز پبلی کیشن کی جانب سے شائع ہوئی۔ اس کے علاوه ان کے دو شعری مجموعے زیر طبع ہے، جن میں ایک منظومات کا مجموعہ "زمین کا مذہب "اور دوسرا نعتوں کا مجموعہ "معراج سخن "شامل ہیں۔ ثمینہ گلؔ کی فکر اپنے پہلے مجموعے سے لیکر آخری مجموعے تک ارتقاء پذیری کی حامل نظر آتی ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی ادبی خدمات کے صلے میں انہیں کئی ملکی اور غیر ملکی تنظیموں کی جانب سے انعامات اور اعزازی اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ ٢٠٠٦ء میں انہیں عالمی ادبی تنظیم کی جانب سے نسیم لیہ ایوارڈ سے نوازا گیا، ٢٠٠٨ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں روز نامہ” نوائے جمہور ” کی جانب سے انہیں محسن سرگودھا ایوارڈ دیا گیا، اسی طرح ٢٠٠٨ء میں انہیں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے خواتین کا عالمی ایوارڈ دیا گیا، جبکہ ماہنامہ” تحریم "کی طرف سے ٢٠٠٧ء، ٨ءاور ٢٠٠٩ء میں انہیں اعتراف خدمات شیلڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ ٢٠٠٩ء میں ثمینہ گلؔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے مادر ملت گولڈ میڈل بھی حاصل کر چکی ہیں ۔
یکم مئی ٢٠١٢ء کو اُردو تحریک لندن کی جانب سے ثمینہ گلؔ کی پہلی کتاب "آنچل کی اوٹ سے” کو پروین شاکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ یہ ایوارڈ اُردو تحریک لندن کے بانی ڈاکٹرعبد الغفار اعظم کی جانب سے دیا گیا۔ ایوارڈ انہیں لندن میں مشہور شاعر تسلیم الٰہی زلفی کے دست مبارک سے دیا گیا جو ثمینہ گلؔ کی طرف سے ان کے بڑے بیٹے فرخ دلشاد نے وصول کیا۔
ثمینہ گلؔ کی شاعری کو عالمی سطح پر پذیرائی مل
چکی ہیں ۔ بہت سے رسائل و اخبارات میں ان کی شاعری پر تنقیدی مضامین چھاپ رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوه بھارت اور برطانیہ میں بھی ان کی شاعری پر تنقیدی مضامین لکھے جا رہے ہیں اور بہت سی کتابوں میں ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے سامنے آ چکے ہیں، ۔کئی گلو کار ان کی شاعری گا چکے ہیں اور بہت سے نعت خواں ان کا نعتیہ کلام پڑھ چکے ہیں۔
ثمینہ گلؔ ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ وہ ملک بھر کے بے شمار مشاعروں میں سرگودھا کی نمائندگی کر چکی ہیں اور کئی ٹی وی چینل پر بھی مشاعرے پڑھنے کا اعزاز رکھتی ہیں ۔ اسی طرح وہ کئی ادبی تنظیموں سے بھی منسلک رہ چکی ہیں۔ اس وقت بھی وہ اکادمی عالمی ادب کی سینئر رکن ہیں۔
حوالہ جات
١٩۔ ثمینہ گلؔ ، آنچل کی اوٹ سے ، ص ٥٩
٢٠
۔ دھنک رنگ) ثمینہ گلؔ خصوصی گوشہ ) ، ص
٢١۔ ثمینہ گلؔ ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٢۴
٢٢۔ ثمینہ گلؔ ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ۱۴٢
٢٣۔ ایضًا، ص ۴٣١
۴٢۔ ایضًا، ص ١٥۔ ١٦
٢٥۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، سر ورق