مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

پشتو زبان کے اہم شعراء

پشتو زبان کے اہم شعراء


دوسرا دور (تحریک روشانیہ اور پہلا صاحب دیوان شاعر )

پشتو ادب کے فروغ میں بایزید انصاری اور ان کے مریدوں کی کوششوں کو جو دخل ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ بایزید انصاری اس تحریک کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا زمانہ 1525ء تا 1585ء بنتا ہے۔

اس تحریک نے قابل قدر ادبی خدمات سرانجام دیں اور اس سے وابستہ بلند پایہ شعرا کا پسندیدہ موضوع تصوف تھا جن کے توسط سے پشتو شاعری تصوف کے مضامین سے متعارف ہوئی ۔ بایزید انصاری کے مریدوں میں ارزانی خویشگی ، مرزا خان انصاری ، دولت اللہ لو انڑی، مخلص اور واصل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔

ارزانی خویشگی

ارزانی خویشگی ( پیدائش 1520/926ء) تحریک روشانیہ کے پہلے قابل ذکر شاعر ہیں اور موجودہ تحریری اسناد کی رو سے پشتو کے پہلے صاحب دیوان شاعر بھی ۔ بایزید انصاری کے مرید تھے اور ساتھ ہی ان کے مسلک، افکار اور خیالات کے تشریح کنندہ اور مفسر بھی۔

ارزانی کے قبیلہ اور وطن کے بارے میں ”حال نامہ“ کے مؤلف علی محمد مخلص لکھتے ہیں ” ملا ارزانی از قبائل خویشکی بود و وطن در قصور داشت یعنی ارزانی کا تعلق قبیلہ خویشکی سے تھا اور ان کا وطن قصور تھا۔

ارزانی خویشگی نے 1009ھ کے لگ بھگ اپنے کلیات کو مرتب کیا۔ ان کا کلام تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ پشتو میں رہائی ، الف نامے اور موضوعاتی نظمیں لکھنے کے ابتدا اُنھوں نے کی۔ ان کی بعض موضوعاتی ہے۔

یہ نظموں کے اشعار کی تعداد دو سو تک پہنچتی ہے۔ ارزانی کا ذکر کرا خون در ویزہ بابا نے اپنے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ کیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایک اچھے عالم تھے اور چار زبانوں میں شاعری کیا کرتے تھے۔

مرزا خان انصاری

مرزا خان انصاری کا اصل نام فتح خان ہے لیکن ادبی دنیا میں مرزا خان انصاری کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کا مجموعہ کلام پہلی بار 1959ء اور دوسری بار 1975 ء میں شائع ہوا ۔ مرزا خان انصاری کی شاعرانہ عظمت کو خوشحال خان خٹک نے بھی سراہا ہے اور ان کو واحد شاعر کہا ہے جو علم و عروض سے بہرور ہے۔

اُنھوں نے بایزید انصاری کے مسلک کو شہرت بخشی۔ ان کی شاعری تصوف اور وحدت الوجود کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ پشتو شاعری میں مرزا خان اس مکتبہ فکر کے بہت بڑے مبلغ اور غزل کو ایک خاص روش پر ڈالنے والوں میں شمار ہوتےہیں ۔

نمونہ کلام کا اردو منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو :

جب سے دیکھا ہے حسنِ زہر جمال
عاشق غم نصیب پامال
وہ زوال آشنابھی ہے ہوتاہے
جس کوحاصل ہوا جہاں میں کمال
تنکے سیلاب کے ہیں راہنما
کب سلامت رہا حباب کاجال

دولت اللہ لو انڑی

تحریک روشانیہ کے تیسرے قابل ذکر شاعر دولت اللہ لوانڑی ہیں۔ خوشحال خان خٹک کے ہم عصر ہیں ۔ علامہ حبیبی نے اپنی کتاب پختانہ شعراء میں ان کی تاریخ پیدائش 1000ء کے لگ بھگ لکھی ہے جبکہ ان کی زندگی کے شواہد 1058ء کے بعد بھی پائے جاتے ہیں۔

ان کے کلام کا قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں موجود ہے جو غزلیات و رباعیات اور دیگر اصناف سخن پر مشتمل ہے۔ ان کا بیشتر کلام تصوف کے مضامین کا حامل ہے ۔ دولت اللہ لوانڑی کا نمونہ کلام (اردو ترجمہ ) ملاحظہ ہو:

جلوے کثرت میں وحدت کے دیکھے کوئی
صورتیں لاکھ ہیں ایک ہے منتہا

ایک ہی شے ہیں مشہودوشاہد سبھی
فراق ان میں نہیں ہے کسی بات کا

دہر کے سب سہارے دکھاوے کے ہیں
در حقیقت ہے دولت وہی آسرا

واصل روشانی

دولت کے بعد روشانی مکتبہ فکر کا نمائندہ شاعر واصل روشانی (1055ھ اور 1062ھ کے دوان زندہ) ہیں جن کا شمار اس مکتبہ فکر کے آخری شعراء میں ہوتا ہے۔

واصل کے دور تک روشانی ادبی تحریک صرف تصوف کے ایک خاص مکتبہ فکر تک محدود تھی لیکن ان کے بعد پشتو کے شعراء نے تصوف کے مضمون کو الگ الگ انداز میں بیان کیا اور تصوف کے ساتھ قومیت کا رنگ بھی شامل کیا۔

واصل روشانی اپنے قدما کی طرح وحدت الوجود کے قائل تھے اور انہوں نے اپنے اشعار میں اسی فلسفہ کو بیان کیا ہے اور اپنے کلام میں وہی ادبی روایات برقرار رکھی ہیں جو روشانی مکتبہ فکر کے شعرا کی تھیں ۔ واصل روشانی کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

ترجمه:

عارفوں کو پنہاں اشارے سے مست کیا ۔ اس کا دستور یہ ہے کہ اپنا چہرہ نقاب سے چھپائے رکھتا ہے۔ اے واصل ! شک کا شکار مت بنو وہ غفور ہے۔ پیالے ( مراد مئے کا پیالہ ) کا گناہ بخش دے گا۔

مخلص

مخلص کا پورا نام محمد مخلص ہے۔ مرزا خان انصاری کا ہم عصر تھا ۔ مخلص بھی بایزید انصاری کے مکتب فکر کا شاعر تھا۔ اس کی شاعری پر تصوف کی مکمل چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔

کلام مخلص کا مائیکر و فلم نسخہ پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ اپنے اشعار میں پیر کامل کی ضرورت اور تربیت پر زور دیتے رہے۔ علی محمد مخلص روشانیہ دور کی مشہور کتاب حالنامہ کے مؤلف بھی ہیں۔

ان کے علاوہ اس دور کے دوسرے شعرا میں کریم داد، قادر داد روشانی اور اورکزئی شامل ہیں۔

پشتو شاعری کا یہ دوسرا دور دو صدیوں پر محیط ہے۔ اس دور کی شاعری میں تین رنگ تصوف ، پشتو زبان و ادب کا فروغ اور قومی احساس نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر بایزید انصاری اور ان کے حلقہ اثر کے دوسرے شعرا نے پشتو شاعری کی روایت کو مزید آگے بڑھایا۔

یہ بھی پڑھیں: پشتو میں جدید شاعری

اور اس میں خصوصی طور پر تصور کے مضامین کو داخل کیا اور بالخصوص فلسفہ وحدت الوجود کو بھی اپنی شاعری کا بنیادی اور مرکزی موضوع بنایا۔

اس کے ساتھ ساتھ پشتو شاعری میں دوسری مشرقی زبانوں کے محبوب موضوعات کو بھی رواج دیا جس سے پشتو شاعری کا دامن اور وسیع ہوا۔

حواشی

کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب2
کوڈ : 5618
صفحہ:33تا35
موضوع :3۔ دوسرا دور (تحریک روشانیہ اور پہلا صاحب دیوان شاعر )
مرتب کردہ: زائرہ تسنیم

پروف ریڈر محمد شعیب اعوان

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں