مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

پشتو ادب میں جدید نثر

پشتو ادب میں جدید نثر

جدید پشتو نثر نگاری کی داغ بیل ڈالنے والوں میں مولوی احمد تنگی ، میر احمد شاہ رضوانی اور منشی احمد جان شامل ہیں۔

پشتو نثری ادب میں مولوی احمد کی کتاب گنج پشتو میر احمد شاہ رضوانی کی دو کتابیں بہارستان افغانی اور شکرستان افغانی اور منشی احمد جان کی دو کتابوں "ھفہ، دغہ ” ( وہ اور وہ) اور ” دقیصہ خوانہ گپ ” (قصہ خوانی کی گپ شپ) نے جدید پشتو نثر نگاری کے لیے راہ ہموار کی ۔

مولوی احمد تنگی اور میر احمد شاہ رضوانی کی نثر عام بول چال اور دیہاتی محاورے کے قریب ہے ، جبکہ منشی احمد جان کی نثر فنی شوخی اور رنگینی کی حامل ہے۔ علاوہ ازیں اس میں افسانوی اور تخیلاتی رنگ بھی موجود ہے۔

ان کی نثر میں طنز و مزاح کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی روز مرہ مکالموں کا رنگ بھی غالب ہے۔ ان تینوں حضرات کے علاوہ ہمیں اس دور میں اور بھی کئی سادہ عام فہم اور رواں نثر لکھنے والے مل جاتے ہیں ۔ جن کا تعلق صوبہ سرحد کے علاوہ بلوچستان اور افغانستان سے ہے۔

جدید نثر نگاروں کے ان چند ابتدائی نثر پاروں کے بعد پشتو نثر میں مختلف اصناف سخن مثلاً ناول ، افسانہ ، سفرنامہ اور انشائیہ وغیرہ شامل ہوئیں ۔ بیسویں صدی کے اوائل میں پشتو ڈرامے ، افسانے اور ناول نے ایک ساتھ ہی جنم لیا اور ایک ساتھ ہی ارتقائی سفر طے کیا۔

ان تینوں کے موضوعات بھی قریب قریب ایک ہی ہیں۔ پشتون قلم کاروں نے ان اصناف سخن کے ذریعے نہ صرف پشتون سوسائٹی کے خدوخال اجاگر کیے بلکہ تحریک آزادی کے دوران میں ان اصناف سے سماجی بیداری اور معاشرتی اصلاح کا کام بھی لیا گیا۔

ناول

سب سے پہلے میاں حبیب گل کاکا خیل (1825 تا 1887) نے جدید پشتو ناول کے لیے زمین ہموار کی۔ انہوں نے 1876 میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس کا نقش نگین کے نام سے ترجمہ کیا۔ یہ رواں سلیس اور با محاورہ ترجمہ ہے جس پر طبع زاد کا گمان ہوتا ہے ۔

اس آزاد ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ناول کا پلاٹ اور اس کے کردار خالص پشتون ماحول کی پیداوار معلوم ہوتے ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد کے ایک اور ناول توبۃ النصوخ کو محمد یوسف کاکا خیل نے پشتو میں ڈھالا لیکن اس ترجمے کا معیار وہ نہیں جو نقش نگین کا ہے تا ہم پشتو زبان و ادب کا پہلا طبع زاد ناول سید راحت زاخیلی کا "ماہ رخ "یا "نتیجہ عشق” میں لکھا گیا ہے۔

اس کے بعد پشتو کا دوسرا ناول بے تربینہ زوئے 1939 میں لکھا گیا۔ یہ ناول افغانستان کے سابق صدر نور محمد ترکی نے لکھا تھا جو محلہ قابل میں قسط وار شائع ہوا۔

یہ ایک نظریاتی اور سیاسی ناول ہے جو ناول کے فنی معیار پر پورا نہیں اتراتا۔

فنی اور تکنیکی اعتبار سے پہلا مکمل ناول پروفیسر صاحب زاد محمد ادریس نے "پیغلہ” (دو شیرہ) کے نام سے لکھا جو 1950 میں شائع ہوا۔ یہ ناول بعد میں لکھے گئے پشتو ناولوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔

اس ناول میں فاضل مصنف نے پشتون معاشرے کی نوجوان نسل کا ایک خاکہ پیش کیا ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید تعلیم سے آراستہ ایک نوجوان پٹھان اور پٹھانی (دوشیرہ ) کا ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے کیا کردار ہونا چاہیے۔

( اس ناول کا اردو ترجمہ 1994 میں دوشیرہ کے نام سے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کی جانب سے شائع ہو چکا ہے) 1957 میں اشرف درانی نے ” زر کے ستر گے” کے نام سے ایک ناول لکھا۔

یہ ایک رومانوی ناول ہے جو تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے رومانی اور جذباتی تصورات پر ایک خوبصورت طنزیہ ہے لیکن اس کا پلاٹ فنی اور تکنیکی اعتبار سے کمزور ہے اس لیے اسے معیاری ناول نہیں کہا جا سکتا۔

پشتو ناول کی ارتقائی زنجیر کی ایک اور اہم کڑی امیر حمزہ شنواری کا لکھا ہوا ناول ” نوے چپے ” ہے جو 1975 میں سامنے آیا ۔

موضوع کے اعتبار سے یہ ایک نظریاتی اور سیاسی ناول ہے کیونکہ اس کا مرکزی خیال حصول آزادی سے پہلے ان مسائل سے متعلق ہے جن سے آنے والے وقت میں پشتونوں کا سیاسی مستقبل وابستہ تھا۔

سلطان محمد پانی عرف مانو خان نے تین ناول لکھے جن میں "چاودے خخیہ ” ( مطبوعہ 1962) ، ” انتظار ” ( مطبوعہ 1966) اور ” ھیرے اور ایرے ” شامل ہیں۔

جدید پشتو نثر میں فکشن کے حوالے سے جو نام زیادہ ابھر کر سامنے آیا وہ میاں سید رسول رساکا ہے جنہوں نے پانچ ناول لکھے ان کے نام یہ ہیں۔” مفرور” ،” شمئ ” ، "ماموننی” ، "خودکشی” اور "میخانہ” ان میں سے "خودکشی” بنیادی طور پر ایک رومانوی اور عشقیہ ناول ہے اور ناقدین کے نزدیک رسا کے ناولوں میں سب سے معیاری اور اہم ہے ۔

ان کا پانچویں اور آخری ناول "میخانہ” میں کابل شہر کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کا نقشہ پیش کیا گیا۔یہ ناول بھی فنی اور تکنیکی اعتبار سے معیاری ناول تصور کیا جاتا ہے۔

سید رسول رسا کے بعد ایک اور اہم ناول نگار ڈاکٹر شیر زمان طائزے ہیں جنہوں نے پانچ ناول لکھے ” گل خان ” ، "امانت رحمان ” ، "کورونہ ” ، ” غونڈے "اور "وادہ ہونا شو "( شادی نہ ہوئی ) شامل ہیں ۔

ان ناولوں میں مصنف نے جن موضوعات میں دلچسپی ظاہر کی ان میں قبائل علاقوں کے جغرافیائی ، ثقافتی ، تاریخی حالات اور مخصوص قبائل طرز زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں ۔

اس کے علاوہ پشتون سوسائٹی میں خواتین کی زیادتیاں اور غریبوں کی مظلومیت بھی ان کے ناولوں کے خاص موضوع ہیں۔ پشتو کے دیگر اہم ناول نگاروں میں رحیم شاہ رحیم ، ساغر آفریدی ، اسیر منگل ، سلمہ شاہین اور غازی سیال شامل ہیں۔

پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں