پشتو ادب میں افسانہ
موضوعات کی فہرست
پشتو افسانے کی فکری اور معنوی تفہیم کے ضمن میں، اسے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک آزادی سےپہلے کا دور اور دوسرا آزادی کے بعد کا پہلا افسانہ مجلہ "افغان” پشاور میں 1917ء میں شائع ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: پشتو ادب میں انشائیہ
اس کا عنوان تھا کونڈو جینی ( بیوہ لڑ کی ) اور افسانہ نگار تھے سید راحت زاخیلی ۔
یہ ایک کرداری افسانہ تھا اور ناقدین کے نزدیک اس کا مزاج اردو افسانے کے مزاج سے قریب تر ہے۔ ان کا دوسرا افسانہ "شیلیدے پنڑہ)(پھٹہ ہوا جوتا ) 1918ء میں منظر عام پر آیا۔
سید راحت زاخیلی کو پشتو زبان و ادب کا پہلا با قاعدہ افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے اور پشتو افسانوی ادب میں ان کو وہی مقام حاصل ہے جو معاصر اردو ادب میں مولوی نذیر احمد اور راشد الخیری کا ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعی رنگ اصلاحی ہے۔
سید راحت زاخیلی کے بعد میاں آزاد گل نے ” دیو مڑی پیغام” کے نام سے ایک افسانہ لکھا جو اگست 1926ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک اصلاحی افسانہ تھا جس میں پشتونوں کی جہالت اور بعض غلط رسوم پر طنزکی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پشتو ادب میں جدید نثر
اس کے بعد سر بلند خان رئیس بدرشی نے” دنوانب آشنائی ( نواب صاحب کی آشنائی ) کے نام سے ایک افسانہ لکھا جو اگست 1926 ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک مقصدی افسانہ تھا اور کردار نگاری کے حوالے سے بھی اسے ایک بہترین افسانہ قرار دیا جاتا ہے۔
سر بلند خان کے بعد ماسٹر عبدالکریم پشتو افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم اور مستند نام ہے جنھوں نے 1930 ء اور 1955 کے درمیانی عرصے میں متعدد افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات کا تعلق زیادہ تر روز مرہ زندگی کے مسائل سے ہے ۔ ” جولئی گلونہ” کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ 1955 ء میں شائع ہوا۔
معنویت کے اعتبار سے اس مجموعے کے افسانوں کا شمار ماحولیاتی اور تاثراتی افسانوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد نادرخان بزمی نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا اور کئی بہترین افسانے تخلیق کئے، جن میں "عارفہ ، مفرور، مہربانی اور دمور قاتل” کردار نگاری اور فنی پختگی کے حوالے سے بہترین افسانے شمار کئے جاتے ہیں۔ بالخصوص افسانوں کا مجموعہ ” پلوشے کے نام سے طبع ہوا۔
اس دور کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر تحریک آزادی، پشتون سوسائٹی کے خدوخال اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ( بالخصوص منشی پریم چند اور ٹالسٹائی کے زیر اثر ) طبقاتی کشمکش اور مظلوم طبقے کے مسائل پر مبنی ہیں۔
مجموعی طور پر پشتو کے ان ابتدائی افسانوں کا رنگ خالص اصلاحی اور تعمیری ہے۔ ان میں تصور حیات کے ساتھ ساتھ ” تنقید حیات "کا رنگ بھی موجود ہے بلکہ نمایاں بھی ہے۔
اور 1955ء کے درمیانی عرصے میں متعدد افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات کا تعلق زیادہ تر روز مرہ زندگی کے مسائل سے ہے ۔ ” جولئی گلونہ کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ 1955 ء میں شائع ہوا۔
معنویت کے اعتبار سے اس مجموعے کے افسانوں کا شمار ماحولیاتی اور تاثراتی افسانوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد نادرخان بزمی نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا اور کئی بہترین افسانے تخلیق کئے، جن میں عارفہ ، مفرور، مہربانی اور دمور قاتل کردار نگاری اور فنی پختگی کے حوالے سے بہترین افسانے شمار کئے جاتے ہیں۔ بالخصوص افسانوں کا مجموعہ ” پلوشے” کے نام سے طبع ہوا۔
اس دور کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر تحریک آزادی، پشتون سوسائٹی کے خدوخال اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ( بالخصوص منشی پریم چند اور ٹالسٹائی کے زیر اثر ) طبقاتی کشمکش اور مظلوم طبقے کے مسائل پر بنی ہیں۔
مجموعی طور پر پشتو کے ان ابتدائی افسانوں کا رنگ خالص اصلاحی اور تعمیری ہے۔ ان میں تصویر حیات کے ساتھ ساتھ ” تنقید حیات کا رنگ بھی موجود ہے بلکہ نمایاں بھی ہے۔
اس دور کے اواخر میں (یعنی 1946ء کے لگ بھگ ) لکھے گئے اکثر افسانوں کے طرز تحریر اور لہجے میں جدیدیت کا عنصر غالب ہے اور شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان میں جدید پشتو ادب کی طرف پیش رفت کے عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔
آزادی سے پہلے پشتو اردو سے متاثر تھا لیکن آزادی کے بعد پشتو افسانے نے براہ راست انگریزی ادب سے استفادہ کیا ۔ اگست 1947ء کے بعد پشتو افسانے نے فنی شعور اور پختگی کے اعتبار سے کافی ترقی کی اور کئی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے افسانوی ادب کی ہمسری کے قابل ہو گیا۔
اس دور کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر عوامی اور سماجی زندگی کے مسائل سے متعلق ہیں نیز ان میں سیاسی اور معاشی مسائل کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس دور کو پشتو افسانے کا شعوری دور بھی کہتے ہیں۔ اس دور میں اولسی ادبی جرگہ (قیام 1951ء) کے تنقیدی اجلاسوں نے پشتو افسانے کو فنی پختگی عطا کی ۔
اس جرگہ میں پشتو زبان و ادب کے اعلی انگریزی تعلیم یافتہ دانشور شریک ہوئے تھے جو اپنے وقت کے بہترین ادیب بھی تھے۔ ان میں دوست امیر حمزہ خان شنواری ، کا کا جی صنوبر حسین، دوست محمد خان کامل ، قلندر مہمند√ ، اور ہمیش خلیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
آزادی کے بعد سید میر مہدی شاہ مہدی ایک باقاعدہ افسانہ نگار کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے اور 1956ء کے لگ بھگ ان کے افسانوں کے چار مجموعے ” نشان” د بوڈئی ٹال” پت” اور لالہ گلونہ شائع ہوئے جن میں سماجی الجھاؤ ، طبقاتی تفاوت اور معاشرتی و معاشی ناہمواریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ان افسانوں کے کردار ہمواد اور لچک دار ہیں اور قابل ذکر بات یہ کہ ان مجموعوں کے ہر افسانے کا انجام المیہ ہے۔
1958ء میں قلندر مہمند√ کے افسانوں کا مجموعہ ” گجرے” کے نام سے چھپا جس کے تمام افسانے معنوی اعتبار سے ماحولیاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے کردار مؤثر ہیں اور پلاٹ بھی کافی مضبوط ہیں۔
ان افسانوں میں زندگی کے ایک معمولی سے واقعے کو معاشرتی اور نفسیاتی الجھاؤ کے تناؤ میں پیش کیا گیا اور ہر افسانہ کلائمکس پر جا کر ختم ہوتا ہے
1963 ء میں اشراف حسین احمد کے افسانوں کے دو مجموعے” شندی گل” اور”مورے ششتے” کے نام سے چھپے۔ وہ افسانے کے فن پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اور نئے دور کے افسانہ نگاروں کی صف اول میں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر ان کے افسانے ترقی پسند سوچ کے زیر اثر واقعہ نگاری اور حقیقت پسندی پر مبنی ہیں اور ان کی فکر پر سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور ممتاز مفتی کی واقعہ نگاری اور حقیقت پسندی کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر جنسی مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے ۔
اشراف حسین احمد کے بعد گل افضل خان کے افسانوں کے دو مجموعے "کگے لارے "اور "داغونہ "کے ناموں سے چھے جن میں پشتون سوسائی کا دیہاتی ماحول اور ان لوگوں کا مخصوص کردار اور طرز عمل جلوہ گر ہے۔
ان افسانوں کا عمومی رنگ عوامی اور اصلاحی ہے۔ فاضل افسانہ نگار نے زندگی کے معمولات کا تذکرہ نہایت ہی سادہ پیرائے میں کیا ہے۔ ڈولئی” اور ” خدائے دے اوبخہ "طبقاتی مسائل پر مبنی افسانے ہیں۔
1973 ء میں ہمیش خلیل کے افسانوں کا مجموعہ ” چار گل ، طبع ہو کر سامنے آیا جس کے افسانے معنویت کے اعتبار سے نظریاتی اور سیاسی ہیں اور ان پر مقصدیت اور جذباتیت کا رنگ غالب ہے۔
ز یتون بانو خواتین لکھاریوں میں ایک باشعور اور باقاعدہ قلم کار ہیں جن کے افسانوں کے تین مجموے "ہندارہ مات بنگڑی” اور "ژوندی غمونہ” طبع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کے حقوق کے لیے معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف مردانہ وار لڑتی نظر آتی ہیں ۔ ان کے افسانوں کے کردار د یہی زندگی کے بجائے جدید دور کے شہری ، تعلیم یافتہ اور سوشل کردار ہیں ۔
یہ افسانے معنویت کے اعتبار سے اصلاحی ہیں لیکن ۔ کہیں کہیں ان پر رومانیت کا دھندلا ساعکس بھی موجود ہے۔ "لاس” کے نام سے لکھا گیا افسانہ ان کے رومانی تصورات کی ایک واضح مثال ہے جبکہ” ماہتابہ” مقصدیت ، حقیقت پسندی ، فنی باریکیوں اور زبان و بیان کی شیرینی کے حوالے سے ایک نادر نمونہ ہے۔
آزادی کے بعد پشتو کے دیگر اہم افسانہ نگاروں میں حسن خان سوز ، ارباب احمد خان، طاہر آفریدی، مبارک سلطانه شمیم ، شیر زمان طائزے، سحر یوسف زئی، قمر زمان قمر، سید رسول رسا ، رضا مہدی ، افضل رضاء سعد الله جان برق اور ڈاکٹر محمد اعظم شامل ہیں
پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب،کورس،کوڈ-5618،صفحہ ۔69،عنوان ۔پشتو ادب میں افسانہ ،مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین،پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی