پنڈت دیا شنکر نسیم کا تعارف
موضوعات کی فہرست
گلزار نسیم کے خالق پنڈت دیا شنکر نسیم کا تعارف
پنڈت دیا شنکر نسیم سنگا پور شاہ کوٹ لکھنو کے ایک معزز کشمیری خاندان میں 1811 ء میں پیدا ہوئے۔
اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کر کے فوج میں بطور وکیل ملازمت اختیار کی۔
شاعری کا شوق شروع ہی سے مزاج میں داخل تھا۔
غزل اور مثنوی جیسی اصناف سخن میں طبع آزمائی کیا کرتے تھے۔
شعر وسخن کی تعلیم میں خواجہ حیدر علی آتش سے تلمذ رکھتے تھے ۔
پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کے مزاج کے صحیح ترجمان گردانے جاتے تھے ۔نسیم نے ایسے ماحول اور معاشرے میں پرورش پائی جہاں تکلف پسندی ،آورد ،تصنع پسندی ،رنگینی الفاظ کا استعمال علم و فضل کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں شاعری الفاظ کا گورکھ دھندہ بن چکی تھی۔
اس پر تکلف انداز سخن کا رنگ نسیم کی مثنوی میں بھی جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔
مرصع سازی کے نمونے پوری مثنوی میں جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں۔
پنڈت دیا شنکر نسیم کا انتقال 32 سال کی عمر میں 1844ء میں لکھنؤ میں ہوا ۔
پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی نگاری
مثنوی سحر البیان کے بعد دوسری قابل ذکر مثنوی پنڈت دیا شنکر نسیم کی ” گلزار نسیم” ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں مثنویاں دو مکتبہ ہائے فکر کی نمائندگی کرتی ہیں
بس فرق صرف اتنا ہے کے سحر البیان میں میر حسن کی سادگی ، سلامت، روانی اور فصاحت و بلاغت نظر آتی ہے
جبکہ گلزارنسیم کی زبان تکلف پسندی، آورد، رعنائی الفاظ اور مرصع کاری سے آراستہ دکھائی دیتی ہے۔
دونوں مثنویاں علی الترتیب دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کی یاد دلاتی ہیں۔
گلزار نسیم دبستان لکھنو کی پہلی عاشقانہ مثنوی ہے۔ یہ مثنوی اپنے اسلوب اور تخیل کے اعتبار سے بہت بلند پائے کی کہا جاتا ہے
جبکہ نسیم نے گلزار نسیم لوگوں کی فرمائش پر میر حسن کی مثنوی سحر البیان کے جواب میں لکھی تھی۔
جب نسیم نے گلز ار نسیم کا نسخہ بغرض اصلاح اپنے استاد خواجہ حیدر علی آتش کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے کہا کہ اتنی طویل مثنوی پڑھے گا کون ، جاؤ اس کا اختصار کر ڈالو۔
با ادب شاگرد نے ایسا ہی کیا ۔ ایسا مختصر کیا کہ بس عطر نچوڑ کر رکھ دیا۔ اس اختصار سے مثنوی میں اور زیادہ لطف اور حسن پیدا ہو گیا۔
قابل ذکر بات یہی ہے کہ یہ ایجاز و اختصار ہی اس مثنوی کی بنیادی خصوصیت ہے۔
صنائع و بدائع کا استعمال نسیم نے بڑے فنکارانہ انداز میں کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شہرت سحر البیان کے حصے میں آئی وہ اردو کی کسی اور مثنوی کو حاصل نہ ہو سکی۔
مثنوی گلزار نسیم قصد گل بکاؤلی کے نام سے بھی مشہور ہے۔
اس مثنوی کا اصل قصہ عزت اللہ بنگالی نے 1722ء میں قصہ گل بکاؤلی کے نام سے فارسی میں تخلیق کیا تھا۔
جس کو 1803ء میں منشی نہال چند لاہوری نے گلکرسٹ کی فرمائش پر” مذهب عشق ” کے نام سے اردو نثر میں منتقل کیا اور پھر تیسری مرتبہ اس قصے کو پنڈت دیا شنکر نسیم نے منظوم شکل میں اردو میں”گلزار نسیم“ کے نام سے 1839 میں تخلیق کیا۔
اس مثنوی کو پہلی بار رشید حسن خاں نے مرتب کیا۔ رشید احمد صدیقی کے بقول شعر و شاعری کے جن پہلوؤں سے لکھنو بد نام تھا گلزار نسیم نے انھیں پہلوؤں سےلکھنو کا نام اونچا کر دیا۔
کتاب۔شعری اصناف ،تعارف و تفہیم ،کورس کوڈ ۔9003،صفحہ ۔185،مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں