کتاب کا نام: تحریر و انشا،کوڈ : 9008،صفحہ: 94 تا 97،موضوع: پاکستان میں تبصرہ نگاری،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
موضوعات کی فہرست
پاکستان میں تبصرہ نگاری
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں سیاسی و معاشرتی سطح پر ابتری کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت کا عمل است رہا۔ جب اشاعتی ادارے ذرا سنبھلے اور کتابوں کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی تو رسائل و جرائد میں تبصرے بھی شائع ہونے لگے۔
ان رسالوں میں ادب لطیف (لاہور)، ماہ نو (کراچی)، اور افکار (کراچی) قابل ذکر ہیں البتہ ان میں شائع ہونے والے تبصرے اوسط درجے کے تھے۔
ماہ نو آج کل ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فلمز اینڈ پیلی کیشنز ، ادارہ مطبوعات پاکستان کے زیرا ہتمام لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے آخری صفحات پر کتابوں پر تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والا یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے اور اسے بھی اہم تبصرہ نگاروں کا تعاون حاصل ہے، لیکن اکثر تبصرے یک رخے ہوتے ہیں۔
ادب لطیف ایک ایسا ادبی پرچہ ہے، جو وقفے وقفے سے مسلسل شائع ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس کی ادارت نام در ادبا کے ہاتھ میں رہی، اس لیے اس کے تبصروں کا معیار کافی بہتر ہے۔ تبصرہ نگاروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، جنھوں نے کتابوں کو اپنے زاد پہ نظر سے جانچا ہے۔
مارچ ۱۹۵۰ء سے رسالہ "نقوش” لاہور سے نکلنا شروع ہوا۔ اس کے مدیر محمد طفیل تھے۔
یہ رسالہ ۱۹۸۷ ء تک متواتر شائع ہو کر ادب کی خدمت کرتا رہا۔ اس میں کتابوں پر جان دار اور معیاری تبصرے شائع ہوتے تھے۔ اس کے تبصرہ نگار اردو کے معروف ادیب تھے جنھوں نے قارئین کے لیے کتابوں پر تبصروں کو بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا۔
انجم ۱۹۵۶ء میں نیا دور کراچی سے دوبارہ شائع ہونا شروع ہوا۔ اس میں کتابوں اور رسالوں پر الگ الگ تجرے شائع ہوتے رہے۔ اس کو نام در تبصرہ نگار میسر آئے جن میں جمیل جالبی، جیلانی کامران، حنیف فوق سجاد باقر رضوی، رضیہ فصیح احمد ابن الحسن، اسلم فرخی، اصغر بٹ ، الطاف گوہر عبید اللہ علیم علام عباس محمد احسن فاروقی،
امداد نظامی اعظمی قمر سلطانه، وحید قریشی، جمیل الدین عالی، انور عنایت اللہ، سلطانہ بخش ، سلیم احمد، سلیم اختر سهیل جالبی، شمیم احمد وغیرہ شامل ہیں ۔ اس رسالے میں سب سے زیادہ تبصرے قمر سلطانہ جمیل جالبی اور شمیم احمد نے لکھے۔
نیاز فتح پوری نے جولائی ۱۹۶۲ء میں پاکستان ہجرت کی تو ان کا رسالہ نگار کے بجائے نگار پاکستان“ کے نام سے کراچی سے شائع ہونے لگا۔ اس نے اپنی پرانی روش پر چلتے ہوئے تبصرہ نگاری کی روایت جاری رہی ۔ان کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
مئی ۱۹۶۳ء میں احمد ندیم قاسمی نے سہ ماہی جریدے "فنون” کا اجرا کیا۔ اسے ابتدا ہی میں صف اول کے ادیب و شعرا میسر آئے، جنھوں نے تبصرہ نگاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
اس کے اہم تبصرہ نگاروں میں محمد حسن عسکری سید وقار عظیم، خاطر غزنوی، سید سبط حسن، مشفق خواجہ، ڈاکٹر حنیف فوق، یوسف حسن، صلاح الدین حیدر حکیم محمد سعید مظفر علی سید، آغا سہیل محمد کاظم ، ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر نظیر صدیقی، ستار طاہر، سید مشکور حسین یاد،
پروفیسر محمد رفیق، محمد خالد اختر ، سید حسن ناصر ، ناصر بشیر، الیاس عشقی، پروفیسر انور رومان، زاہد منیر عامر، جاذب سہیل ، امجد اسلام امجد بشینم رومانی، اے حمید، سحر انصاری، ماجد صدیقی، فتح محمد ملک وغیرہ شامل ہیں ۔
احمد ندیم قاسمی نے خود بھی کئی کتب درسائل پر تبصرے تحریر کیے۔ تبصرہ نگاری کی تاریخ میں فنون کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے تقریباً ہر شمارے میں تبصروں کے لیے الگ کو شہ مختص رہا، جس سے تبصرہ نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والا شش ماہی مجلہ منقطہ نظر مبنی کتابوں کے تعارف اور تبصرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مجلہ ۱۹۹۲ء سے شائع ہو رہا ہے۔
اس کے مدیر ڈاکٹر سفیر ان رہا اختر ہیں۔ اس میں ادبی کتابوں اور رسائل و حمدائک پر بے لاگ تبصرے شائع ہوتے ہیں، جن کا معیار معاصر ادبی پرچوں میں شائع ہونے والے تبصروں سے بلند ہے۔
قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے ماتحت ادارہ فروغ قومی زبان کا ماہ نامہ اخبار اردوئم اپنے آخری صفحات پر با قاعدگی کے ساتھ نئی کتابوں پر تبصرے شائع کرتا ہے۔ ان تبصروں میں تعارف سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کتابوں کے مندرجات اور مواد کے معیار کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس مجلے میں زیادہ تر ادبی اور تحقیقی کہتا میں ہی تبصرے کے لیے جگہ پاتی ہیں ۔
اخبار اردو کے معروف تبصرہ نگاروں میں آغا امیر حسین ، آنها ناصر، آصف فرخی، آفتاب احمد، احمد ندیم قاسمی، اسلم انصاری، اسد محمد خان، جمیل جالبی، انتظار حسین، جمیل الدین عالی ، انجم رحمانی، شان الحق حقی، افتخار عارف مرزا خلیل بیگ، رشید امجد شفیق انجم عطش درانی، فتح محمد ملک وغیرہ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن، پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہونے والا ما دنامہ ”کتاب“ تبصرہ نگاری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ادارے کے تحت شائع ہونے والی کتابوں پر نام و رادیوں سے تبصرے لکھوا کر بالالتزام شائع کیے گئے۔ مختلف ادیبوں اور اداروں سے موصولہ کتب اور رسائل پر تبصرہ ، اطلاعی نوعیت کا ہوتا ہے، جس میں کتاب کا نام، مصنف کا نام، صفحات، قیمت اور ادارے کا نام درج کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سربراہی میں ۲۰۱۳ء سے ۲۰۲۰ ء تک یہ رسالہ با قاعدگی سے شائع ہوتا رہا، جس سے تبصرہ نگاری کی صنف کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آیا۔
سرفراز شاہد کی ادارت میں اسلام آباد سے جاری ہونے والا سہ ماہی پرچہ خوش نما کتابوں پر تبصرہ نگاری کے حوالے سے قابل ذکر ہے ۔ اس کے آخری صفحات میں مختلف علمی، ادبی اور تحقیقی کتب پر تبصرے شائع ہوتے رہے۔ بد قسمتی سے یہ رسالہ چند سال بعد بند ہو گیا، لیکن اس کے تبصرے جامع ، معیاری اور غیر جانب دارانہ ہونے کی وجہ سے قارئین میں قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے ۔
۲۰۱۶ء میں رضا علی عابدی کی کتاب به عنوان کتابیں اپنے آباء کی منظر عام پر آئی ، جس میں سو کتابوں پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، اس میں اردو کی ابتدائی کتابوں کو مرکز نگاہ بنایا گیا ہے جنھیں مصنف نے برطانیہ کے قومی کتب خانوں میں محفوظ پایا ۔ برصغیر میں اردو کتابوں کی با قاعدہ اشاعت ۱۸۰۳ء میں شروع ہوئی ، یوں ۱۸۰۳ء سے ۱۸۷۷ء تک کی نایاب کتابوں پر تفصیلی تبصرہ کے ساتھ کتا بیں اپنے آباء کی اردو میں تبصرہ نگاری کی روایت کی جانب ایک منفر د قدم ہے۔ اس سے تبصرہ نگاری کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ نئی مطبوعات سے ہٹ کر پرانی کتابوں کو دو سو سال بعد دوبارہ اپنی تبصرہ نگاری کے ذریعے زندہ کر کے رضا علی عابدی نے ایک نئی رسم کی بنیاد ڈالی ہے، جسے ادبی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے۔
دور حاضر میں پاکستان میں اردو رسائل وحموائد کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اکثر رسالے چند ایڈیشن شائع کرنے کے بعد بند ہو جاتے ہیں لیکن جن رسالوں کے پیچھے ادارے موجود ہوتے ہیں وہ وقفے وقفے سے جاری رہتے ہیں۔ ایسے رسائل کی ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ ان میں بھی کتابوں اور رسالوں پر تبصرہ نگاری کی روایت جاری ہے۔
تبصرہ نگاری کی تاریخ میں ذرائع ابلاغ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان میں چھپنے والے اخبارات میں کتابوں پر تبصرہ کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے۔
روزنامہ نوائے وقت“ ”جنگ“ خبریں پاکستان ، ایکسپریس“دنیا “ وغیرہ کے ہفتہ دارا دبی صفحات اور سنڈے میگزین میں نئی شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے با قاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں، اگر چہ ان کا معیار بہت بلند نہیں ہے لیکن قارئین تک کتابوں کے بارے میں معلومات تسلسل کے ساتھ پہنچ رہی ہیں ۔
اس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کتابوں کی اشاعت جاری رہے گی، اس وقت تک تبصرہ نگاری کا فن زندہ رہے گا۔ عہد حاضر کے تبصرہ نگاروں کو اس فن کی باریکیوں کو سمجھ کر غیر جانب داری کے ساتھ تبصرے پیش کرتا ہوں
تبصرہ نگاری کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ فرمائشی تبصرے کی ہے۔ اکثر اوقات مختلف ادارے اپنی شائع کردہ کتابوں کی زیادہ سے زیادہ فروخت کے لیے معروف ادیبوں سے تعریفی نوعیت کے تبصرے لکھواتے ہیں، جن سے کتاب کا صرف ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے۔ اسی طرح ادیبوں میں بھی فرمائشی تبصرے لکھوانے کا رواج عام ہے۔ تبصرہ نگاری کے فروغ کے لیے رسائل و جرائد کو تبصرہ نگاری کے اصولوں پر عمل کروانا چاہیے، تا کہ غیر معیاری اور یک رنے تبصروں کا خاتمہ ہو اور حقیقی و معیاری تبصروں کے ذریعے یہ صنف پھل پھول سکے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں