اسلوب کیا ہے۔۔۔
مرتب کردہ منظور احمد
کتاب ۔۔۔ میر اور غالب کا خصوصی مطالعہ۔۔
کورس کوڈ۔۔۔ 5612
پیج۔۔۔ 43
////__/
اسلوب کیا ہے
غالب کا فنی اور اسلوبیاتی مطالعہ دو چیزوں کا مطالعہ نہیں دراصل ایک ہی چیز کا مطالعہ ہے۔ آپ اس سے فن کا مطالعہ کریں اس میں ان کا اسلوب آ جائے گا۔ اگر آپ ان کے اسلوب کا مطالعہ کریں، اس میں ان کا فن آ جائے گا۔ فن یا اسلوب کسی بات کسی مضمون کسی مشاہدے کسی جذبے یا کسی تجربے کو ظاہر کرنے کے طریقے کا دوسرا نام ہے۔ اظہار کا وسیلہ صرف الفاظ (یعنی شاعری اور نثر ) نہیں ۔ آواز بھی ہے ( یعنی موسیقی ) رنگ بھی ہے (یعنی مصوری) جسمانی حرکات بھی ہیں (یعنی رقص ) سنگ تراشی بھی ہے (یعنی مجسمہ سازی) غالب چونکہ شاعر تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے اظہار کے لیے الفاظ (شاعری) سے کام لیا۔ ایک ادیب یا شاعر الفاظ کو جس طریقے سے استعمال کرتا ہے وہی اس کا اسلوب کہلاتا ہے۔
اب سے سوڈیڑھ سو سال پہلے بچوں کی تعلیم میں فارسی شروع سے پڑھائی جاتی تھی۔ غالب کو اپنی تعلیم کے ابتدائی : دور میں فارسی کے دو بہت اچھے اساتذہ مل گئے تھے۔ ایک مولوی محمد معظم دوسرے ملا عبد الصمد ۔ کہا جاتا ہے کہ غالب کو فارسی زبان سے قدرتی لگاؤ تھا۔ ان کے اس ذوق کو ملا عبد الصمد نے چپکا دیا ( ملا عبد الصمد کے وجود کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے )
مرزا غالب دس گیارہ برس کی عمر میں ہی جبکہ ابھی مولوی محمد معظم کے مکتب میں زیر تعلیم تھے شعر کہنے لگے ۔ ۔ شروع میں ان کی توجہ زیادہ تر اردو ہی کی طرف رہی مگر وہ فارسی کے مشہور شعرا بیدل اسیر اور شوکت کے رنگ میں اُردو میں شعر کہنے لگے۔ بیدل ان کا محبوب شاعر تھا۔ نہ جانے ان کے اندر بیدل کا ذوق کیونکر پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے کسی فارسی کے معلم کا نام نہیں لیا ہے۔ بیدل سے ان کے شغف نے ان کو حد درجہ مبہم گوئی یا مہمل گوئی تک پہنچا دیا۔ بعض معاصرین ان کی شاعری کا مضحکہ اڑانے لگے۔ کسی نے کہا :
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں