ناول امراؤ جان ادا کا تنقیدی جائزہ | Novel Umrao Jaan Ada ka Tanqeedi Jaiza
موضوعات کی فہرست
امراؤ جان ادا کا پلاٹ اور مکالمہ نگاری
پلاٹ کی تعریف
اصطلاح میں واقعات کی ترتیب کو پلاٹ کہا جاتا ہے جس سے کہانی ایک منطقی رابطہ کی بجائے فکشن میں پیش کی جانے والی ترتیب کے تابع ہو جاتی ہے۔ پلاٹ ہی بیانیے میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ کہانی کو اگر اسی طرح پیش کر دیا جائے جس طرح وہ اصل واقعہ ہوئی ہے تو فکشن میں بیانیہ کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پلاٹ منطقی ربط کھو کر غیر روایتی ترتیب پیدا کرتا ہے
امراو جان ادا کا پلاٹ
امراؤ جان ادا کا پلاٹ مضبوط اور رواں ہے۔ پیچیدہ پلاٹ نہ ہونے کی وجہ سے کہانی میں روانی کا احساس قائم رہتا ہے۔ معاشرت دکھانے کے لیے ناول نگار نے کہانی سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی ہے جس سے قاری کو کہانی کے اردگرد کا ماحول بھی دکھایا جاتا ہے۔ پورے ناول میں تمام واقعات امراؤ جان ادا کے ہی اردگرد گھومتے ہیں۔ یوں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک طوائف کسی قدر زندگی کی تمام سرگرمیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
امراؤ جان ادا کی تکنیک
ناول میں بیانیہ اور واحد متکلم کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ ناول چوں کہ آپ بیتی کے انداز میں پیش کیا گیا ہے اس لیے واحد متکلم کی تکینک کا بھر پور اور مؤثر استعمال نظر آتا ہے۔ بیانیہ انداز کہیں کہیں مکالماتی انداز میں ڈھل جاتا ہے جہاں دیگر کردار خود بولتے نظر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امراؤ جان ادا کا کردار | PDF
امراؤ جان ادا کی کردار نگاری
ناول کا مرکزی کردار تو امیرن بیگم خود ہے جو بعد میں امراؤ جان ادا بن جاتی ہے۔
قدم قدم پر کئی کرداروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو سب اسی ایک مرکزی کردار امیرن کی توسط سے کہانی میں جلوہ گر ہوتے ہیں جیسے دلاور خان کا امیرن کو اغوا کرنا ۔
پھر فیض علی ڈاکو کے بہکاوے میں آکر ” خانم” کے کوٹھے سے بھاگنا اور سب سے آخر میں سب سے جذباتی منظر امیرن کا اپنی ماں اور بھائی کا سامنا کرنا ۔ اس دوران بھی بہت سے کردار جلوہ گر ہوتے ہیں اور لکھنوی معاشرت کی مختلف شکلوں کو دکھاتے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امراؤ جان ادا: فکری و فنی جائزہ | PDF
یہ کردار وہ زندہ جاوید کردار ہیں جو ہر سماج میں ہر جگہ پائے ہیں۔ یہ آج بھی زندہ ہیں اور ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد دائمی طرح موجود ہیں۔
لہذا ان کو کسی ایک علاقے سے زمانے سے جوڑنا مناسب نہیں ۔ ان کرداروں میں دلاور خان ، خانم جان ، بسم اللہ جان ، خورشید جان، بوا حسینی ، رام دئی، مولوی صاحب ، فیض علی ، نواب سلطان، گوہر مرزا، نواب راشد، نواب جعفر ، نواب محمود علی خان اور اکبر علی خاں وغیرہ شامل ہیں۔
امراؤ جان ادا کی مکالمہ نگاری
ناول ” امراؤ جان ادا” کی زبان کو بڑی مہارت سے بنا گیا ہے۔ رسوا چوں کہ خود بھی زبان کے استاد سمجھے جاتے تھے اس لیے ان کی زبان میں وہ تہذیبیں سمیٹ آئی ہیں جو کسی بھی بڑی تخلیق کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس کا بہترین اظہار کرداروں کی زبان میں نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں طوائف کو تہذیب کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ رسوا نے امیرن کو تہذیب و اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنا کر دکھایا۔ اس کی زبان ادبی زبان ہے۔ اس کے الفاظ اس وقت کے تہذیبی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔
خانم اور ڈاکو کی زبان بھی ان کرداروں کی منہ زبانی معلوم ہوتی ہے۔ ایک مولوی کی زبان کے لیے مولویانہ جملوں کو بھی مہارت سے ادا کیا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ رسوا نفسیات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے۔
امراؤ جان ادا میں لکھنؤ کی معاشرت اور تہذیبی منظر کشی
اس ناول میں لکھنو کے مختلف تہذہبی عناصر کو جمع کر دیا گیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ نواب، جاگیردار ، روسا اور امرا کا طوائف کے پاس جانا باعث افتخار سمجھا جاتا تھا۔ یوں طوائف کو مارجی اہمیت حاصل ہے۔
۲۔ تہواروں کے موقعوں پر مشاعروں اورادبی محافل کا انعقاد عام ہے ان میں عیدیں محرم ، شادی بیاہ، رقص کی محفلیں اورکھیل کو د شامل ہے۔
۳۔ عیش و عشرت کا بازار گرم تھا جس کے لیے عیش باغ کے میلے کا تذکرہ کیا گیا ۔ روساء امرا کے علاوہ مولوی حضرات بھی عیش و عشرت اور دنیاوی معاملات میں الجھے دکھائے گئے ہیں ۔
پروف ریڈر نائمہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
کتاب ۔ اردو داستان اور ناول: فکری و فنی جاںٔزہ
موضوع۔ "امراؤ جان ادا” کی ترکیب
صفحہ۔ 147 تا 149
کورس کوڈ۔ 9011
مرتب کردہ۔ اقصٰی فرحین