میر ببر علی انیس کی شخصیت اور فن

شہنشاہِ مرثیہ خدائے سخن میر ببر علی انیس کی شخصیت اور فن، مضمون نگار: سیف علی خان

اردو ادب میں میر انیس کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے جو اردو ادب کے آسماں پر ہمیشہ روشن رہے گا۔میر ببر علی ان کا پورا نام اور انیس تخلص استعمال کرتے تھے۔انیس کس سن میں پیدا ہوئے اس کی دریافت اب تک نہیں ہوئی۔

سیف علی خان

چونکہ ہمارے پاس کوئی مستند شہادت موجود نہیں ہے جس سے اُن کی پیدائش کا تعین کیا جا سکے۔اس لیے تذکرہ نگاروں کی مختلف بیانات کی روشنی میں یہی کہنا مناسب رہے گا کہ میر انیس 1801 سے 1805 کے درمیان کسی نہ کسی تاریخ کو فیض آباد میں پیدا ہوئے۔

انیس فیض آباد میں ہی پلے بڑھے اور تعلیم و تربیت بھی وہی ہوئی۔انیس نے فارسی اور عربی کی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی۔اُن کے والد میر مستحسن خلیق جو خود بھی اپنے وقت کے معروف مرثیہ گو شاعر تھے۔

انیس نے منطق و فلسفہ کا درس مفتی میر عباس سے لیا۔میر نجف علی جیسے صاحب علم معلم سے بھی تعلیم حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: انیس کی سحر نگاری

البتہ میر انیس نے کسی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔مکتبی تعلیم کے علاوہ انیس نے فنِ سپہ گری، ورزس اور فنِ خطاطی کی بھی تعلیم حاصل کی۔انیس قانع و غیور شخصیت کے مالک تھے۔

انیس شیعہ تھے لیکن ان کی زبان و قلم سے کبھی ایسا لفظ نہیں نکلا جو کسی غیر شیعہ کی دلآزاری کا باعث ہو۔یہی وہ اوصاف تھے جس کے سبب انیس کے کلام میں ایک طرف پاکیزہ و لطافت طبع کے اثار پیدا ہوئے۔

دوسری طرف عقائد سے بلند ہوکر ہر فرقے ہر طبقے میں انھیں مقبولیت حاصل رہی۔شعر گوئی کا شوق انیس کو لڑکپن ہی سے تھا اور یہ اثر اُن کے گھر اور باہر کی فضا کا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات

اپنے والد کی طرح انیس نے بھی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کی اور "حزیں” تخلص اختیار کیا۔یہی وہ دور تھا جب انیس اپنے والد کے ہمراہ لکھنؤ آئے اور شیخ امام بخش ناسخ سے ملے۔ناسخ نے انیس سے کچھ سنانے کو کہا انیس نے لبوں کو جنبش دی اور الفاظ کے نگینے اس شعر کی صورت میں نکلے:

کھلا باعث یہ اُس بے داد کے انسوں نکلنے کا

دھواں آں لگتا ہے آنکھوں میں کس کے دل کے جلنے کا

یہ شعر سنتے ہی ناسخ جھوم اُٹھے اور بے ساختہ کہنے لگے:
"آپ کے فرزندِ رشید یادگارِ خاندان ہوں گے اور یاد رکھیے ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اِن کی زبان و شاعری کو عالمگیر شہرت حاصل ہوگی مگر! بجائے حزیں اِن کا تخلص کچھ اور ہو تو بہتر ہے”۔


میر خلیق نے جب ناسخ سے میر ببر علی حزیں کے لیے تخلص طلب کیا تو ناسخ نے کہا "انیس”۔


آج ساری دنیا میر ببر علی کو میر انیس کے نام سے جانتی ہے۔میر انیس نے اپنے والد کے کہنے پر غزل ترک کی اور ہمہ تن سلام و مرثیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔اپنے والد میر خلیق کے انتقال کے بعد انیس نے لکھنؤ کو اپنی قیام گاہ بنایا،جہاں 10 دسمبر 1874 کو ان کی وفات ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس کی مرثیہ نگاری | pdf

میر انیس کو شعر گوئی وراثت میں ملی تھی کیونکہ اُن کے خاندان میں شعر گوئی کا سلسلہ پشتوں سے چلا آ رہا تھا۔

اُن کے پردادا میر ضاحک، دادا میر حسن (مصنفِ سحر البیان) اور ان کے والد میر خلیق اپنے اپنے زمانے کے ممتاز شاعر تھے۔میر انیس نے اپنے ایک مشہور مرثیے میں اپنے خاندانِ شرف اور مرثیہ نگاری کے لیے افرادِ خاندان کی خدمات کا بھی اظہار کیا ہے۔
چند بند ملاحظہ فرمائیں:

اِس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح

جدِ اعلیٰ سے نہ ہو گا کوئی اعلیٰ مداح باپ مداح کا مداح

ہے بیٹا مداح عمِ ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح

جو عنایاتِ الہٰی سے ہوا نیک ہو نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا

اِسی مرثیے کے ایک بند میں انیس فرماتے ہیں کہ اُن کا

خاندان پشتوں سے محمد و آل محمد کی مداح خونی کرتا آرہا ہے۔


انیس کہتے ہیں کہ
:
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

انیس کے مرثیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے زیادہ متاثر کرنے والے اوصاف واقعہ نگاری،منظر نگاری،جذبات نگاری اور کردار نگاری ہیں۔نیز ان کے کلام میں ڈرامائی اور رزمیہ عناصر بھی ملتے ہیں۔واقعہ نگاری بیانیہ شاعری کا ایک اہم جزو ہے جس کی گنجائش ہماری شعری اصناف میں کم نکلتی ہے۔

اردو میں اس کمی کی تلافی میر انیس نے اپنے مرثیوں میں کی۔انیس جس واقعے کو بیان کرنا چاہے اُس واقعے کی تصویر کھنچ دیتے ہیں۔اِن واقعات کو پڑھتے ہوئے قاری بے ساختہ داد دینے لگتا ہے۔انیس بڑے سے بڑے واقعے کو چند مصرعوں میں سمیٹ دیتے ہیں۔


حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے لیے میدانِ کارزار میں جانے سے زرا پہلے امام سجاد ع سے کچھ فرماتے ہیں۔انیس نے واقعے کو ایسے بیان کیا ہے، کہ گویا وہ اُس واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔انیس نے واقعے کی تصویر کچھ یوں کھنچی ہے:

آہستہ سے کچھ جھک کے کہا گوشِ پسر میں
بیمار کے رونے سے قیامت ہوئی گھر میں
اندھرا زمانہ ہوا بانو کی نظر میں
غش ہوئی زینب پہ اُٹھا دردِ جگر میں
ٹھہرا نہ گیا واں شہِ والا نکل آئے
تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے

میر انیس کے مرثیوں میں ہمیں جابجا تصویر کاری بھی ملتی ہے۔انیس کے مرثیوں کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ مصوری انیس کا فن تھا۔

وہ قلم سے برش اور لفظوں سے رنگوں کام کچھ اِس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ قاری کو واقعہ تصویر بنتا دکھائی دیتا ہے۔اور وہ تصویر اتنی دلکش اور پُر اثر ہوتی ہے کہ قاری اُس کا نظارہ کرکے خود تصویر بن جاتا ہے۔

میر انیس نے جن مناظر کی تصویر کشی کی ہے اُن میں گرمی،صحرا، رخصتِ شب،طلوعِ صبح،صبح عاشور اور صبح صحرا وغیرہ اہم ہے۔


امام حسین علیہ السلام کے گھوڑے سے گرنے کے بعد کے منظر کو انیس نے ایک قیامت خیز انداز میں بیان کیا ہے۔واقعے کو انیس تصویر میں یوں بدلتے ہیں:

گر کر کبھی اُٹھے کبھی رکھا زمیں پہ سر
اُگلا لہو کبھی تو سنبھالا کبھی جگر
حسرت سے کی خیام کی جانب کبھی نظر
کروٹ کبھی تڑپ کے اِدھر لی کبھی اُدھر
اٹھ بیٹھے جب تو زخموں سے برچھی کے پھل گرے
تیر اور تن میں گڑ گئے جب منہ کے بھل گرے

فنِ شاعری میں تصویر کاری کے علاوہ جذبات نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ احساسات و جذبات کی تصویر کھینچنا مشکل ہے۔جذبات نگاری کی بات کریں تو یہ فن انیس سے شروع ہوتا ہے اور انیس پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔

رشتوں کی نوعیت، باریکی، نزاکت، اور اُسی مطابقت سے انسانی زہنی کیفیات و واردات اور رد و عمل کو جس خوبی اور کمال سے بیان کرنے پر قادر ہے اُسے دیکھ کر بے ساختہ سراہنے کو جی چاہتا ہے۔اُن کے مرثیوں کو پڑھتے ہوئے قاری کا دل تڑپ اُٹھتا ہے، آنکھیں چھلک جاتی ہیں اور آہیں نکل جاتی ہے۔

جب امام حسین علیہ السلام اپنی بہن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو صبر کی تلقین فرماتے ہیں تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کو جس جذبے کے ساتھ جواب دیتی ہے اُس جواب کو انیس نے چار مصرعوں میں سمیٹ کر یوں بیان کیا ہے:

حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی
انساں ہوں کلیجہ مرا پتھرا نہیں بھائی
صدقے گئی یوں رَن کبھی پڑتے نہیں دیکھا
اک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا

شجاعت اور وفاداری کا ذکر انیس کے مرثیوں کی جان ہے۔میر انیس نے حضرت عباس کے کردار کو نہایت خوبصورتی اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کے کلام میں حضرت عباس کی شخصیت کو بہادری اور وفاداری کے بلند درجات پر دکھایا گیا ہے۔انیس حضرت عباس کی وفاداری کا ذکر کچھ یوں کرتے:

گرمی میں تشنگی سے کلیجہ تھا آب آب
تڑپا رہا تھا قلب کو موجوں کا پیچ و تاب
آجاتے تھے قریب جو ساغر بکف حباب
کہتا تھا منہ کو پھیر کے وہ آسماں جناب
عباس! آبرو میں تیری فرق آئے گا
پانی پیا تو نامِ وفا ڈوب جائے گا

انیس نے اردو شعرا میں سب سے زیادہ الفاظ اور سینکڑوں واقعات بیان کیے ہیں۔تاہم اُن کے تمام کلام میں غیر فصیح الفاظ نہ ہونے برابر ہے۔انیس کے کلام کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر موقع پر فصیح سے فصیح الفاظ ڈھونڈ لاتے ہیں۔


انیس خود اپنی فصاحت کا اقرار کچھ یوں کرتے ہیں:

نمک خوانِ تکلم ہے فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سُن سُن کے بلاغت میری

اللہ کیا نمک ہے کلامِ انیس میں
دشمن بھی گر پڑے تو زباں پر مزہ رہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انیس نے اردو نظم کو جو رفعت و بلندی عطا کی، وہ کوئی اور نہ دے پایا۔جب تک دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں لوگ واقعۂ کربلا پر محزن و ملول ہوتے رہیں گے، یادِ خانوادۂ رسول ص میں آنسو بہاتے رہیں گے، انیس اور اُن کا فن زندہ رہے گا اور بلاشبہ ایسا قیامت تک ہوتا رہے گا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں