نگار عظیم کی افسانہ نگاری

نگار عظیم کی افسانہ نگاری | Nigar Azim ki afsana nigari

نگار عظیم کی افسانہ نگاری

۱۹۶۰ء کے بعد کی نمائندہ افسانہ نگاروں میں نگار عظیم اپنے مخصوص طرز تحریر کی بنا پر ایک منفرد مقام کی مالک ہیں۔ نگار عظیم کا پیدائشی نام ” ملکہ مہر نگار ہے اور وہ کہنہ مشق شاعر جناب محبان الہند حضرت مولا نا ثروت حسین ثروت میرٹھی کی صاحبزادی ہیں ، اور ۱۹۷۶ء میں جناب عظیم صدیقی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد نگار عظیم بن گئیں رنگار عظیم بن گئیں ۔

ادبی ذوق و شوق اور مصوری وراثت میں پانے کے باوجود قدیم روایتی پاسداری کے سبب اپنی تخلیقات شائع کرانے کی یا کسی کو دکھانے کی ہمت وہ اسکول کے زمانے میں نہیں کر سکیں۔

اور اپنا پہلا افسانہ عقیدت کے آنسو کے ساتھ ۱۹۷۴ء میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ اور بہت کم مدت میں اپنے قلم کی انفرادیت کا لوہا منوالیا۔ ان کے متعدد افسانے ملک کے تمام اہم رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں اور ریڈیوں دو ٹیلی ویژن پر بھی پڑھے جاچکے ہیں۔ وہ شاعرہ بھی ہیں ۔ اور مشاعروں میں شرکت کرتی رہتی ہیں۔

نگار عظیم نے فائن آرٹس اور اردو میں ایم اے کیا ہے۔ اور جامعہ ملیہ سے منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور آج کل دہلی ایڈ منسٹریشن کے ایک اسکول میں

ڈرائنگ ٹیچر کا کام انجام دے رہی ہیں۔ م دے رہی ہیں۔ اپنے پہلے مجموعہ مکس میں دیکھتی ہیں:

میرے افسانے انسانی زندگی کے ارد گرد گھومتے ہیں جن میں انسانی اور جذباتی رشتوں کی اہمیت رہی ہے۔ میں اردگرد ہونے والے واقعات و حادثات سے متاثر ہو کر بول چال کی سیدھی سادی زبان میں انسانی زندگی کے مسئلوں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی

ہوں۔نگار عظیم ایک روشن خیال پڑھی لکھی اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر رکھنے والی فنکارہ ہیں۔ ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ واضح ہے کہ اپنے زمانے کے حالات پر وہ گہری نظر رکھتی ہیں اور ان کا ہر افسانہ کسی نہ کسی واقعہ یا مخصوص حالات سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔

ان کے کچھ افسانوں کو پڑھکر یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہانی کس دور سے نیز آزماں ہے۔ مثال کے طور پر کہانی ” نسبندی ، اور بھو پال گیس المیہ پر کہانی زندگی زندگی حقیقت نگاری کی وہ قائل ہیں اور سیدھی سادی بیاغیہ تکنیک کا استعمال اپنی کہانیوں میں کرتی ہیں۔

وہ عام انسانوں کی زندگی ، ان کے حالات و واردات اور مسائل کو پوری سچائی کے ساتھ اپنی کہانیوں میں سمودیتی ہیں۔ اس لحاظ سے نگار عظیم کو ہم نئی نسل کی ان افسانہ نگاروں میں شامل کر سکتے ہیں جو ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتی ہیں اور حال کے مسائل کو وہ سنجیدگی سے سامنے لاتے ہیں۔

ان کے عورت ہونے کا احساس عورت کو ایک خاصی زاویہ سے دیکھتا ہے۔ وہ اسکے ساتھ ہمدردی کرتی ہیں اس کے ساتھ روتی ہیں اور ہستی بھی ہیں مگر مردوں کے وضع کئے ہوئے سماج میں عورت کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ احتجاج کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک پاتیں۔

ان کے فن پر قمر رئیس کہتے ہیں:

نگار عظیم جب کہانیاں لکھتی ہیں تو انسانی سماج اور انسانی سیرت دونوں کے ناسور اور نہاں خانے ان کے تخیل میں روشن ہوتے ہیں ۔ متوسط طبقہ کی شائستہ معنی خیز لیکن فشار

آلود زندگی ان کا خاص موضوع ہے ۔ وہ عصمت چغتائی کی طرح اپنے ماحول اور زندگی کی سچائیوں کو اس طرح ڈوب کر تیکھے شفاف اور بیباک لہجہ میں بیان کرتی ہیں کہ بعض لوگ سوچتے ہیں۔ وہ کہانی نہیں لکھتیں خود کہانی انھیں لکھتی ہے۔

خود اپنی کہانیوں کے بارے میں نگار عظیم لکھتی ہیں :

کوئی بھی تخلیق کار اپنے گرد و پیش کے حالات اور سماجی انتشار سے بے چین ہو کرہی قلم اٹھاتا ہے ۔ چنانچہ میری یہ کہانیاں بھی عام انسانوں کی زندگی ، ان کے مسائل ، الجھنوں اور محرومیوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ لے

عورتوں کی زندگی سے جڑے ہوئے مسئلے نگار کو خاص طور سے متوجہ کرتے ہیں۔ مردانہ سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف وہ آواز اٹھانے کے قائل ہیں۔ مثلاً کہانی "بیل اور "حصار”۔ حصار۔

د لکھتی ہیں :

مرد اگر عورت پر ظلم کرتا ہے تو مجھے مرد پر بہت غصہ آتا ہے لیکن جب عورت اس ظلم کو سہتی ہے اور آواز نہیں اٹھاتی ہے تو مجھے عورت پر اس ظلم کرنے والے مرد سے بھی زیادہ غصہ آتا ہے۔ عورت عورت کے کرب کو زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہے لیکن اس کے برعکس کبھی کبھی عورت ہی اس ظلم کا سبب بن جاتی ہے۔ ہے۔

نگار حالانکہ ایک متوسط مذہبی ماحول کی پروردہ ہیں مگر ان کی کہانیاں ایک روشن خیال اور روشن ضمیر ذہن کا مظہر ہیں وہ برائی کو برائی سمجھتی ہیں اور اس کا اظہار کھلے الفاظ سے کرتی ہیں۔

” کہانی ” بدلے کا سہاگ نگار عظیم کی یہ کہانی جہاں ایک طرف سماج میں پھیلی ہوئی جہیز کی برائی کو پیش کرتا ہے وہیں دوسری طرف باپ کی بیٹی کے لیے عظیم قربانی اور تیاگ کا اظہار ہے:

اس کی ساکت آنکھوں میں کچھ جنبش ہوئی ۔ اس نے خود کو آئینہ میں دیکھا ۔ نے

جگ مگ کرتے کپڑے۔ زیورات ، ہار سنگار، افشاں، مہندی، سیندر، چوڑی۔ مہندی کا رنگ ۔ معا۔ اسی آئینہ میں اسے پیچھے سے ماں کا عکس نظر آیا۔ جو اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔ مجسم بیوگی ۔ اس نے پھر اپنا سرا پادیکھا۔ اور پھر ماں کو دیکھا۔ خالی مانگ ۔ سونا ما تھا۔

نگی کلائیاں۔ سفید لباس۔ اجڑا چہرہ بے رونق آنکھیں۔ دل پر جیسے پتھر کی سل ۔ وہ کانپگئی نہیں نہیں ماں نہیں ۔ مجھے یہ بدلے کا سہاگ نہیں چاہیئے ۔

بابا اور ریڈ لائٹ“ کہانی بھی تیاگ اور ایثار کے جذبے سے پر ہے۔ نگار عظیم کے یہاں انسانی نفسیات نہ صرف خواتین بلکہ مرد کی نفسیات کا مطالعہ بہت گہرائی سے ملتا ہے وہ نفسیات کی گر ہیں سادہ اور سلجھے ہوئے انداز میں کھولتی ہیں یہی وہ قوت ہے جو انھیں اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ کہانی

عکس پھانس“ اور ”مرد“ اس کی بہترین مثالیں ہیں:

اف میرے خدا۔ یہ میں کہا دیکھ لیا مر اوجود پارہ پارہ ہو کر لرز نے لگا ہے۔ دل کی گھٹن بڑھتی ہی جارہی ہے … کاش میں نے یہ سب کچھ نہ دیکھا ہوتا۔ بچپن سے لیکر جوانی کے آخری لمحوں تک کی یادیں میرے ذہن کو جھنجھوڑ نے لگیں۔ اس وقت میں کوئی چھ برس کی

تھی۔

مرد کی مثال دیکھئے:

:

کہانی عکس مجموع عکس جس ۶۶

انتظار کے اندر ایک عجیب سی دیوانگی پیدا ہوئی ۔ کئی مرتبہ ان کی یہ دیوانگی حد سے گزرتی تو ان کے اندر ایک ایسی خواہش پیدا ہوتیں جس سے وہ اپنا آپ ثابت کر سکیں وہ

سوچتے کسی لڑکی کو پکڑ کر ریپ کریں اور پھر اخباروں میں ان کے ریپ کا قصہ چھپے۔ ہر

آدمی اسے پڑھے تب دنیا کو معلوم ہو کہ وہ بھی ایک مرد ہیں۔ مکمل مرد ۔۔۔

نگار عظیم کی کہانیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ انسانی رشتوں اور جذبوں کو بنے بنائے اصولوں کے تحت پر کھنے کے بجائے صاحب شعور انسانوں کے اندر کی کھلبلاہٹ کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ نفسیاتی تجزیہ کرتی ہیں۔ حالانکہ وہ ایک قدیم روایتی بندھنوں کی پیداوار ہیں جس کا اعتراف ان کے شوہر خطہ بشو ہر عظیم صدیقی نے کیا ہے:نگار عظیم

۱۹۶۰ء کے بعد کی نمائندہ افسانہ نگاروں میں نگار عظیم اپنے مخصوص طرز تحریر کی بنا پر ایک منفرد مقام کی مالک ہیں۔ نگار عظیم کا پیدائشی نام ” ملکہ مہر نگار ہے اور وہ کہنہ مشق شاعر جناب محبان الہند حضرت مولا نا ثروت حسین ثروت میرٹھی کی صاحبزادی ہیں ، اور ۱۹۷۶ء میں جناب عظیم صدیقی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد نگار عظیم بن گئیں رنگار عظیم بن گئیں ۔ ادبی ذوق و شوق اور مصوری وراثت میں پانے کے باوجود قدیم روایتی پاسداری کے سبب اپنی تخلیقات شائع کرانے کی یا کسی کو دکھانے کی ہمت وہ اسکول کے زمانے میں نہیں کر سکیں۔

اور اپنا پہلا افسانہ عقیدت کے آنسو کے ساتھ ۱۹۷۴ء میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ اور بہت کم مدت میں اپنے قلم کی انفرادیت کا لوہا منوالیا۔ ان کے متعدد افسانے ملک کے تمام اہم رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں اور ریڈیوں دو ٹیلی ویژن پر بھی پڑھے جاچکے ہیں۔ وہ شاعرہ بھی ہیں ۔ اور مشاعروں میں شرکت کرتی رہتی ہیں۔

نگار عظیم نے فائن آرٹس اور اردو میں ایم اے کیا ہے۔ اور جامعہ ملیہ سے منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور آج کل دہلی ایڈ منسٹریشن کے ایک اسکول میں

ڈرائنگ ٹیچر کا کام انجام دے رہی ہیں۔ م دے رہی ہیں۔ اپنے پہلے مجموعہ مکس میں دیکھتی ہیں:

میرے افسانے انسانی زندگی کے ارد گرد گھومتے ہیں جن میں انسانی اور جذباتی رشتوں کی اہمیت رہی ہے۔ میں اردگرد ہونے والے واقعات و حادثات سے متاثر ہو کر بول چال کی سیدھی سادی زبان میں انسانی زندگی کے مسئلوں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی

ہوں۔نگار عظیم ایک روشن خیال پڑھی لکھی اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر رکھنے والی فنکارہ ہیں۔ ان کے افسانوں کے مطالعے سے یہ واضح ہے کہ اپنے زمانے کے حالات پر وہ گہری نظر رکھتی ہیں اور ان کا ہر افسانہ کسی نہ کسی واقعہ یا مخصوص حالات سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ ان کے کچھ افسانوں کو پڑھکر یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہانی کس دور سے نیز آزماں ہے۔

مثال کے طور پر کہانی ” نسبندی ، اور بھو پال گیس المیہ پر کہانی زندگی زندگی حقیقت نگاری کی وہ قائل ہیں اور سیدھی سادی بیاغیہ تکنیک کا استعمال اپنی کہانیوں میں کرتی ہیں۔ وہ عام انسانوں کی زندگی ، ان کے حالات و واردات اور مسائل کو پوری سچائی کے ساتھ اپنی کہانیوں میں سمودیتی ہیں۔ اس لحاظ سے نگار عظیم کو ہم نئی نسل کی ان افسانہ نگاروں میں شامل کر سکتے ہیں جو ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتی ہیں اور حال کے مسائل کو وہ سنجیدگی سے سامنے لاتے ہیں۔

ان کے عورت ہونے کا احساس عورت کو ایک خاصی زاویہ سے دیکھتا ہے۔ وہ اسکے ساتھ ہمدردی کرتی ہیں اس کے ساتھ روتی ہیں اور ہستی بھی ہیں مگر مردوں کے وضع کئے ہوئے سماج میں عورت کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ احتجاج کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک پاتیں۔

ان کے فن پر قمر رئیس کہتے ہیں:

نگار عظیم جب کہانیاں لکھتی ہیں تو انسانی سماج اور انسانی سیرت دونوں کے ناسور اور نہاں خانے ان کے تخیل میں روشن ہوتے ہیں ۔ متوسط طبقہ کی شائستہ معنی خیز لیکن فشار

آلود زندگی ان کا خاص موضوع ہے ۔ وہ عصمت چغتائی کی طرح اپنے ماحول اور زندگی کی سچائیوں کو اس طرح ڈوب کر تیکھے شفاف اور بیباک لہجہ میں بیان کرتی ہیں کہ بعض لوگ سوچتے ہیں۔ وہ کہانی نہیں لکھتیں خود کہانی انھیں لکھتی ہے۔

خود اپنی کہانیوں کے بارے میں نگار عظیم لکھتی ہیں :

کوئی بھی تخلیق کار اپنے گرد و پیش کے حالات اور سماجی انتشار سے بے چین ہو کرہی قلم اٹھاتا ہے ۔ چنانچہ میری یہ کہانیاں بھی عام انسانوں کی زندگی ، ان کے مسائل ، الجھنوں اور محرومیوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ لے

عورتوں کی زندگی سے جڑے ہوئے مسئلے نگار کو خاص طور سے متوجہ کرتے ہیں۔ مردانہ سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف وہ آواز اٹھانے کے قائل ہیں۔ مثلاً کہانی "بیل اور "حصار”۔ حصار۔میں لکھتی ہیں :

مرد اگر عورت پر ظلم کرتا ہے تو مجھے مرد پر بہت غصہ آتا ہے لیکن جب عورت اس ظلم کو سہتی ہے اور آواز نہیں اٹھاتی ہے تو مجھے عورت پر اس ظلم کرنے والے مرد سے بھی زیادہ غصہ آتا ہے۔ عورت عورت کے کرب کو زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہے لیکن اس کے برعکس کبھی کبھی عورت ہی اس ظلم کا سبب بن جاتی ہے۔ ہے۔

نگار حالانکہ ایک متوسط مذہبی ماحول کی پروردہ ہیں مگر ان کی کہانیاں ایک روشن خیال اور روشن ضمیر ذہن کا مظہر ہیں وہ برائی کو برائی سمجھتی ہیں اور اس کا اظہار کھلے الفاظ سے کرتی ہیں۔

” کہانی ” بدلے کا سہاگ نگار عظیم کی یہ کہانی جہاں ایک طرف سماج میں پھیلی ہوئی جہیز کی برائی کو پیش کرتا ہے وہیں دوسری طرف باپ کی بیٹی کے لیے عظیم قربانی اور تیاگ کا اظہار ہے:

اس کی ساکت آنکھوں میں کچھ جنبش ہوئی ۔ اس نے خود کو آئینہ میں دیکھا ۔ نے

جگ مگ کرتے کپڑے۔ زیورات ، ہار سنگار، افشاں، مہندی، سیندر، چوڑی۔ مہندی کا رنگ ۔ معا۔ اسی آئینہ میں اسے پیچھے سے ماں کا عکس نظر آیا۔ جو اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔ مجسم بیوگی ۔ اس نے پھر اپنا سرا پادیکھا۔ اور پھر ماں کو دیکھا۔ خالی مانگ ۔ سونا ما تھا۔

نگی کلائیاں۔ سفید لباس۔ اجڑا چہرہ بے رونق آنکھیں۔ دل پر جیسے پتھر کی سل ۔ وہ کانپگئی نہیں نہیں ماں نہیں ۔ مجھے یہ بدلے کا سہاگ نہیں چاہیئے ۔

بابا اور ریڈ لائٹ“ کہانی بھی تیاگ اور ایثار کے جذبے سے پر ہے۔ نگار عظیم کے یہاں انسانی نفسیات نہ صرف خواتین بلکہ مرد کی نفسیات کا مطالعہ بہت گہرائی سے ملتا ہے وہ نفسیات کی گر ہیں سادہ اور سلجھے ہوئے انداز میں کھولتی ہیں یہی وہ قوت ہے جو انھیں اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ کہانی

عکس پھانس“ اور ”مرد“ اس کی بہترین مثالیں ہیں:

اف میرے خدا۔ یہ میں کہا دیکھ لیا مر اوجود پارہ پارہ ہو کر لرز نے لگا ہے۔ دل کی گھٹن بڑھتی ہی جارہی ہے … کاش میں نے یہ سب کچھ نہ دیکھا ہوتا۔ بچپن سے لیکر جوانی کے آخری لمحوں تک کی یادیں میرے ذہن کو جھنجھوڑ نے لگیں۔ اس وقت میں کوئی چھ برس کی

تھی۔

مرد کی مثال دیکھئے:

:

کہانی عکس مجموع عکس جس ۶۶

انتظار کے اندر ایک عجیب سی دیوانگی پیدا ہوئی ۔ کئی مرتبہ ان کی یہ دیوانگی حد سے گزرتی تو ان کے اندر ایک ایسی خواہش پیدا ہوتیں جس سے وہ اپنا آپ ثابت کر سکیں وہ

سوچتے کسی لڑکی کو پکڑ کر ریپ کریں اور پھر اخباروں میں ان کے ریپ کا قصہ چھپے۔ ہر

آدمی اسے پڑھے تب دنیا کو معلوم ہو کہ وہ بھی ایک مرد ہیں۔ مکمل مرد ۔۔۔

نگار عظیم کی کہانیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ انسانی رشتوں اور جذبوں کو بنے بنائے اصولوں کے تحت پر کھنے کے بجائے صاحب شعور انسانوں کے اندر کی کھلبلاہٹ کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ نفسیاتی تجزیہ کرتی ہیں۔ حالانکہ وہ ایک قدیم روایتی بندھنوں کی پیداوار ہیں جس کا اعتراف ان کے شوہر خطہ بشو ہر عظیم صدیقی نے کیا ہے:۲۷۹

نگار نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ ایک قدیم مذہبی ماحول تھا جس کے اقدار ھا جس کے اقدار کی جڑیں ستر ہوئیں اور اٹھارویں صدی میں تھیں۔ وراثت میں ادب اور مصوری کے ذوق ملے گو کہ قدامت پسندی نے ان میدان کارزار میں دوڑنے کی اجازت نہ دی مگر لفظوں اور خطوط سے شناسائی ضرور ہوگئی۔ ماحول بدلا تو میدان عمل کو بیکراں پایا۔ فن اور ادب سے شناسائیاں دوستی اور پھر عشق میں بدل گئیں ، افسانہ نگاری میں عکس، مرد، فرق ،، اور کسک جیسے افسانوں کو جنم دیا۔ جن کو نئی نسل کے قارئین نے ادبی ، فنی و نفسیاتی گہرائی کا آئینہ دار ٹھہرایا اور قد مانے اردو ادب پر سیاہ دھبہ لے

کہانی فرق اور منکس پر بے باکی کا الزام لگایا گیا حالانکہ یہ کہانیاں رشتہ کی پیچیدگی کا مظہر ہیں اور ایک طرح سے اپنے اندر پر اسراریت لئے ہوئے ہیں۔ فرق کی واحد متکلم ایک پرکشش نوجوان کی طرف کھینچتی ہے اور یہ کشش حالانکہ بنیادی طور پر جنسی ہے مگر چونکہ وہ شادی شدہ ہے اور اقدار کی پابند ہے اس لیے ایک کشمکش کا شکار رہتی ہے اور آخر میں اس چاہت کو اپنے کمسن بیٹے کی جوانی قرار دیکر اس رشتہ کو ایک نام دیدیتی ہے۔

کہانی ” عکس اسی انداز کی ایک پیچیدہ نفسیاتی کہانی ہے۔ جہاں باپ میں لڑکی کو محبوب کے خط و خال نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت کا اندازہ ہونے پر لڑ کی کی حیرت اور وحشت ایک سچائی لیے ہوئے نظر آتی ہے:

کیسے ہیں؟؟ کہاں ہیں؟ آپ کی ایک ایک یاد میرے ذہن کے ٹکڑے ٹکڑے کئے دے رہی ہے … ابا نظر آئے ۔ ۔ اف میرے خدا۔۔ یہ میں نے کیا دیکھ لیا۔۔ میرا وجود بکھر رہا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ابا کی پاکیزگی اور میری والہانہ محبت کا یہ انداز ۔۔؟؟ لیکن خواب پر کس کا بس چلا ہے ۔۔؟؟ ابا اور میں ۔ ۔ اتنے قریب ۔۔؟؟ کاش میں نے ابا کو خواب میں دیکھنے کی خواہش نہ کی ہوتی۔ کیا میری محبت کی انتہا صرف یہی تھی ؟؟ان موضوعات پر قلم اٹھانے کی جرات پر ان پر جنسی کہانیاں لکھنے کا الزام لگا حالانکہ وہ خود کہتی ہیں کہ میں نے اپنی قلمی زندگی میں ایک بھی جنسی کہانی نہیں لکھی بلکہ صرف زندگی کی کچی تصویر کشی کی ہے کیونکہ کھوکھلی اخلاقیات اور تصنع کی وہ قائل نہیں ہیں اور اپنی کہانی میں ان کھوکھلی اخلاقیات سے باغی کرداروں کو اپنی قلم سے جلا بخشتی ہیں۔ اور حقیقت پسندانہ رویہ رکھنے کے باوجود مشرقی قدروں کو نہیں بھولتیں اور جنسی تجربات کے بیان کو ممنوع قرار دینے کے بجائے اسے ایک صحت مند نقطہ نظر سے دیکھتی ہیں۔ عصمت چغتائی کی طرح انھوں نے بھی سماج کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے فنی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو نگار عظیم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی کہانیاں اختصار اور اعجاز کا بہترین نمونہ ہیں۔ ایک قول ہے افسانے کا اختصار کرداروں کے مختصر ہونے یا واقعات کے مختصر ہونے میں نہیں بلکہ افسانے میں اختصار کی خوبی ایجاز و بیان سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ یعنی افسانہ نگار اس بات کا خیال رکھے کہ وہ جن الفاظ کا انتخاب کر رہا ہے وہ مختصر سے مختصر ہو۔ مگر جامعیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ نا چاہئے ۔ نگار عظیم کی یہی خوبی ہے۔

نگار جس دور کی نمائندگی کرتی ہیں وہ دور تقسیم کے بعد کا دور ہے ۔ یہ وہ دور ہے جب فرقہ وارانہ فسادات ہر حساس ذہن پر اثر انداز ہوا اور خاص کر قلمکاروں کو اپنے گھیرے میں لئے رکھا۔ کہانی سنگین جرم حاجی عبد الودود کے چھوٹے سے خاندان کی بربادی کی کہانی ہے ۔ نئی نسل کے لیے آزادی اور تقسیم سے پیدا ہونے والے حالات ایک بار پھر باہر پھر بابری مسجد کی شکل میں سامنے آئے اور دونوں فرقوں کے بیچ بڑھتی ہوئی دوری اور نسل کشی کا موضوع ہر حساس قلم کار کو جھو ڑ گیا۔

سنگین جرم ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔ جو حاجی عبد الودو در یٹائر ڈ ڈی۔ایس ۔ پی ۔ کی داستان الم ہے۔ وہ اپنے آبائی مکان میں بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ خود فالج کے مرض میں مبتلا ہیں۔ تینوں لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں۔ بڑی لڑکی جو اسکول میں ٹیچر ہے اس کی منگنی ہو چکی ہے۔ شہر میں فساد پھوٹا، کھانے پینے کا سامان اکھٹا کر کے وہ مطمئن تھے کہیں اور جانے کا سوال نہیں تھا۔ مگر حالات بد سے بدتر ہوتے گئے بجلی اور فون کٹ گیا اور رات کے خوفناک سناٹے نے سب کو گھیر لیا۔ حالات کے مد نظر دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیاکہ بیگم بچوں کو لیکر کسی محفوظ جگہ منتقل ہو جائیں ۔ اس بیچ بیٹی گھبرائی ہوئی اطلاع دیتی ہے کہ فسادی مشعلیں بندوق لئے اندر آ رہے ہیں۔ کہیں جانے کا کوئی موقع نہیں تھا اور ایک بھیڑ گھر میں داخل ہوگئی۔

پولیس کی وردی میں کئی لوگوں کو دیکھکر حاجی جی بولے میں بھی تمھاری ہی طرح …. چپ بڑھے۔ لیکن جیسے ہی کسی نے بڑھے پر ٹارچ سے روشنی ڈالی تو انہیں بڑھے کے پیچھے کوئی کلبلاتا ہوا محسوس ہوا۔ انھوں نے کالی گھٹاؤں جیسے بالوں کو پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا۔ بے ترتیب بالوں میں ایک خوبصورت چاند چھکا … جس کی چاندنی پیلی پڑ چکی تھی ۔ حاجی جی گڑ گڑائے … ” یہ میری بیٹی ہے … میری بیٹی ہے یہ … تم سب کچھ لے لو … سب کچھ۔

لیکن اسے … باپ کے گڑ گڑانے کی آواز مدھم ہوتی چلی گئی ۔ آفرین کی چیخیں اندر ہی اندر گھٹ کر اب بند ہو گئیں. پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا “۔

فسادی لوٹ گئے ۔ حاجی جی کی بیگم اور حسین اور امرین با ہر نکلیں سب کی زبان کنگ تھی اور چپ چاپ خاموشی کے ساتھ انہوں نے گڑھے کھود کر دونو لاشوں کو دفنا دیا۔ چاروں طرف موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کہ دو دن بعد پھر ایک بھیڑ اندر داخل ہوئی:۔

ابھی وہ ڈیوڑھی بھی پار نہیں کر پائے تھے کہ ٹھا ئیں تھائیں کی آواز ہوئی اور اندر داخل ہونے والے لوگوں میں سے ایک کے بعد ایک دو تین گر پڑے۔ حملہ آروں کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ وہ واپس بھاگنے لگے۔ حسین کے ہاتھوں میں باپ کی بندوق تھی۔ اور وہ نشانہ تانے دالان کی چھت پر کھلنے والی کھڑکی کے درمیان کھڑی تھی۔ دنا دن پولیس کی گاڑیاں آگئیں … تین افرا کے قتل کے الزام میں تینون ماں بیٹوں کو گرفتار کر کے گاڑی لے گئی … کیونکہ جرم بہت سنگین تھا ۔

اس افسانے میں نگار عظیم نے وردی وا می والوں پر سوالیہ نشانہ لگائے ہیں۔ فساد پھیلانے میں اور لوٹگھسوٹ میں وہ وہ عام آدمی سے آگے نکل جاتے ہیں اور اقلیتی فرقہ ان کے ظلم کا نشانہ بنتا ہے۔ جشن بھی دو فرقوں کے درمیان فساد کی کہانی ہے۔ جس میں رنڈیوں کو بھی نہیں بخشا گیا:

اس شہر میں فساد کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ فساد کی نوعیت بھی کوئی نئی نہیں تھی۔ یہاں تو فساد ایسے پیدا ہوتا تھا جیسے ماں کی کوکھ سے بچہ، ہمیشہ کی طرح یہ فساد بھی دو فرقوں کے

درمیان تھا اور حسب معمول وردی والے ایک فرقے کے ساتھ تھے ۔ لے

فساد کی رات کو گلفام ہوٹل میں بھی بائی کی محفل بھی تھی۔ ایسے میں اچانک بھگدڑ مچی اور جنگل کی آگ کی طرح فساد پورے شہر میں پھیل گیا۔ چھمی بائی ہوٹل سے تو بحفاظت نکل گئی لیکن راستہ میں دھر لی گئی۔ وہ بہت روئی گڑ گڑائی بہت منت سماجت کی کہ ہم رنڈیوں کا کوئی مذہب نہیں۔ کوئی فرقہ نہیں ۔ ہمارا مذہب تو ہمارا پیشہ ہے۔ ہم سب کے لیے برابر ہیں ۔ لیکن ظالموں نے چھی بائی کی ایک نہ سنی ۔ چھی بائی کے سازنڈے چھمی کو بچاتے بچاتے جاں بحق ہو گئے۔ ۲

نگار عظیم کا کہانی کہنے کا انداز سیدھا سادا بیانیہ ہے وہ بغیر کسی پیچیدگی کے زندگی کے اہم اور نازک مسئلے کو صاف گوئی سے بیان کر جاتی ہیں ، انہوں نے اپنی کہانیوں کو علامت اور استعارے جیسی پیچیدگی سے دور رکھا ہے۔ وہ خو لکھتی ہیں کہ میرے افسانے انسانی زندگی کے ارد گرد گھومتے ہیں جسے میں بول چال کی سیدھی سادی زبان میں قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہوں۔ اور اپنی ایسی خوبی کی بنا پر وہ قاری کے بہت قریب چلی جاتی ہیں۔

نگار عظیم کے دو افسانوی مجموعہ شائع ہو چکے ہیں۔ اور تیسرا مجموعہ اشاعت کی منزلوں پر ہے۔

(1) عکس، فروری، ۱۹۹۰ء

ے: کہانی جشن، مجموعہ گہن جی اے

: نگار عظیم مجموعہ گہن ” جشن جس ۷۳

(۲) گین، جون ۱۹۹۹ء

دو کتا بیں شائع ہو چکی ہیں۔

منٹو کا سرمایه فکروفن ۲۰۰۲ء

ہر چرن چاول فن اور شخصیت – ۲۰۰۳ء

سفرنامه تاشقند قسط وار

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

پی ڈی ایف سے تحریر: الیان کلیم

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں