نظیر اکبر آبادی کی نظم روٹیاں کا تنقیدی

نظم روٹیاں کا تنقیدی جائزہ

نظیر اکبر آبادی نے ہمیں دنیا کی بے ثباتی کے بہت سبق آموز پیغامات دیے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کی شان و شوکت ، جاہ و منصب ، دولت و ثروت یہ سب اسی وقت تک ہیں ، جب تک کہ سانس چلتی رہتی ہے۔ یہ دنیا فانی ہے، یہاں بے کار مصروفیت اپنے جی کا زیاں ہے۔ وہ اپنے اشعار میں کہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نظیر اکبر آبادی ایک رجحان ساز نظم نگار | PDF

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ نیل بدن کا ہانکے گا

کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سے اور ٹانکے گا

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیر اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

نظیر اکبر آبادی آگرے کے رہنے والے تھے ، جب مغلیہ سلطنت کا زوال زندگی کی ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کا خصوصی مطالعہ

صراف، بنیے ، جو ہری، سیٹھ، ہنر مند ، دست کار سنار، دکان دار، کوتوال ، چوکیدار، ملاح ، سب کے ہاں اُس غیر یقینیت کے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ روٹیاں نظیر اکبر آبادی کی ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے روٹی کو انسانی سرگرمی کا مرکز بتایا۔ ہے۔ انسان خواہ کچھ بھی کرتا رہے اگر اس کے پاس روٹی نہیں تو وہ انسانیت کے درجے سے بھی گر جاتا ہے۔ معاش یا معیشت انسانی سرگرمی کی سب سے بڑی مصروفیت ہے۔

انسان دوسرے جانوروں کی طرح روٹی کے لیے ہی سب کچھ کرتا ہے۔ جب روٹی اُسے میسر ہوتی ہے ، جب وہ کسی اور طرف دھیان دیتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اپنی اس نظم میں مذہبی عبادات تک کو روٹی سے منسلک بتایا ہے۔
۔ ان کے نزدیک :
روٹی سےناچے پیادہ قواعد دکھا دکھا

اسوار ناچے گھوڑے کو کا وہ لگا لگا

گھنگھرو کو باندھے پیک بھی پھرتا ہے ناچتا

اور اس سوا جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا

سو سو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں

پروف ریڈر: عطیہ بتول

حواشی

موضوع نظیر اکبر آبادی کی نظم ”روٹیاں “ کا تنقیدی جاٸزہ،کتاب کا نام۔بنیادی اردو،کورس کوڈ۔ 9001،مرتب کردہ۔Hafiza Maryam

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں