نظم اور نظمانے کی تعریف مکمل

نظم اور نظمانے کی تعریف مکمل | Nazm awr Nazmani Ke Tareef

موضوعات کی فہرست

نظم

ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہ نثر ہے اور ایک نظم – منظوم کلام کو نظم کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کی رُو سے غزل بھی نظم کی ہی ایک قسم ہے کیوں کہ اس میں بھی منظوم کلام ہوتا ہے

لیکن علمائے ادب نے کچھ ذیلی شرائط کے تحت نظم اور غزل میں حد فاصل قائم کی ہے۔ لغوی اعتبار سے نظم کے معانی : پرونا بڑی، سلک ، آرائش یا آراستہ کرنے کے ہیں۔
اصطلاحی مفہوم میں جمالیاتی مفہوم کا حامل شعروں کا ایسا مجموعہ جس میں ربط اور تسلسل ہو نظم کہلاتا ہے۔

نظم بحیثیت کل ایک اکائی ہوتی ہے۔اور غزل کے شعروں کے برعکس نظم کا ہر شعر اپنی مجرد حیثیت سے محروم ہوتا ہے، مرکزی خیال کی تعمیر ہی اس کا مصرف ہوتی ہے۔ نظم کی تفصیل و تعریف "نثر“ کے عنوان کے تحت بھی کتاب ہذا میں موجود ہے۔


اردو ادب میں شاعری کی تمام اصناف به استثنائے غزل (نظم سے ممیز کرنے کی حد تک، ورنہ یہ بھی نظم ہی ہے) ، نظم کے ذیل میں ہی آتی ہیں۔

مثنوی، مسمط ، ترجیع بند ، ترکیب بند، رباعی، ہائیکو، ثلاثی تروینی مستزاد، کینٹو، لمرک، آزاد نظم ، پابند نظم ،قطعہ، قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ نظم ہی کی قسمیں ہیں۔

نظم میں بھی غزل کی طرح علامتی زبان مختلانہ، اظہار، تشبیہ، استعارہ اور صنعتوں کا استعمال ہوتا ہے۔
ایمائیت اور ایجاز بھی نظم کے بنیادی اوصاف شمار ہوتے ہیں نظم کی تین اقسام ہیں :۔ ۱۔پابند نظم ۲۔ نظم معراء آزاد نظم ۔

پابند نظم میں قافیے ، ردیف، وزن اور بحر کی پابندی ہوتی ہے۔
رباعی ، قطعہ، ترجیع بند، ترکیب بند، مسمط ( تثلیث، مربع مخمس، مسدس، مسبح مثمن متمع معشر ) وغیرہ پابند نظم میں شمار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی ایک ہی مضمون کے حامل ایسے اشعار جن میں مطلع اور مقطع نہ ہو اور وہ کسی عنوان کے تحت ہوں، پابند نظم کے ذیل میں ہی آتے ہیں، جیسے”اقبال کی نظم ” خطاب به نوجوانان اسلام ۔

فی زمانہ جب لفظ نظم کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلاسیکی دور کی اصناف نظم مثلاً : رباعی مسمط ، قطعہ مثنوی، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ اس میں شامل نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ مخصوص نظمیں ہیں، جن کا کوئی حسین موضوع ہوتا ہے اور جس میں شاعر نے فلسفیانہ، بیانیہ یا مفکرانہ انداز میں کچھ داخلی و خارجی احساسات منظوم کیے ہوتے ہیں ۔

نظمانے

محسن بھوپالی اس صنف سخن کے موجد ہیں۔ دو بند پر مشتمل اس نظم میں کسی کہانی یا مختصر افسانے کو سمویا جاتا ہے۔

نظمانے کا پہلا بند پانچ مصرعوں اور دوسرا چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ مصرعوں کی تعداد ۳،۳ اور ۳ ،۴ بھی ہو سکتی ہے۔

پہلے بند میں واقعے کا تاثر ابھارا جاتا ہے جب کہ دوسرے بند میں رد عمل ظاہر کر کے اس منظوم افسانچے یا کہانی کی تکمیل ہوتی ہے۔ محسن بھوپالی نے ۱۹۶۲ء میں نظم نے لکھنے شروع کیے تھے۔ پہلے اس صنف کا نام منظوم افسانچہ رکھا گیا تھا۔

بعد میں نظمانہ رکھا گیا۔
نظمانہ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں محسن بھوپالی کا نظمانوں پر مشتمل مجموعہ کلام شائع ہوا۔ بھائی چارہ کےعنوان سے نظمانے کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے:

تمام انساں ہیں ۔۔۔ ٹھہریئے گا
یہ کیسی دستک ہے!۔۔۔ دیکھ آؤں
میں کل سے بھوکا ہوں
واللہ ۔۔۔۔۔ بس ایک روٹی
عجیب ہو تم ۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے
کچھ نہیں ہے۔۔۔ چلو یہاں سے
بھلا سا موضوع گفتگو تھا
۔۔۔ ہاں یاد آیا ۔۔۔ میں کہہ رہا تھا
تمام انساں ہیں ایک اکائی
تمام انساں ہیں بھائی بھائی (محسن بھوپالی )

پروف ریڈر بنت عارف

حواشی

کتاب۔ ادبی اصطلاحات
موضوع۔ نظم
صفحہ۔ 39 تا 41
کورس کوڈ۔ 9015
مرتب کردہ۔اقصٰی فرحین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں