موضوع۔مجید امجد کی نظم آٹوگراف کا تنقیدی جاٸزہ ۔
کتاب کا نام۔بنیادی اردو۔
کورس کوڈ۔9001
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam.
نظم آٹو گراف کا تنقیدی جائزہ
مجید امجد کی نظم ایک ایسے شخص کی کیفیات کا مرقع پیش کر رہی ہے، جو شہرت اور تحسین کی دولت سے محروم ہے، مگر اُس کا ذہن رسا اسے اس شہرت اور تکریم کا حق دار سمجھتا ہے۔ یوں وہ نفسیاتی کشمکش کا شکار ہے۔ کچھ ناقدین نے اس نظم کا اطلاق مجید امجد کی ذاتی زندگی پر کرنے کی کوشش کی ہے،
یہ بھی پڑھیں: مجید امجد کی شاعری کی خصوصیات
جس میں وہ مجید امجد کے لیے بطور شاعر اس طرح کے رشک کی تحسین نہیں کرتے۔ حالاں کہ شاعر نے کہیں اپنا حال بیان نہیں کیا۔ اس نظم کا مرکزی کردار ان لڑکیوں کی توجہ کا طالب ہے جو خواہش کے لیے مہمیز کا کام کر رہی ہیں۔
نظم میں پیش کردہ کردار خواہ سماجی سطح پرکسی کی نمائندگی کر رہا ہو یا خود شاعر کے لیے صیغہ واحد کو بیان کر رہا ہو، دونوں صورتوں میں شاعر کے ذاتی تشخص کا نمائندہ نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں مجید امجد کی نظم آٹو گراف پر ہونے والی تنقید کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ آٹو گراف میں آدمی (ایک عام آدمی ) جو باؤلر کو لڑکیوں کے جھمگھٹوں میں بیاض آرزو بہ کلف دیکھتا ہے تو خود بھی اسی مقام رفعت کی خواہش کرتا ہے:
کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں !
یہ بھی پڑھیں: مجید امجد کی نظم نگاری کا تنقیدی مطالعہ
اس نظم میں صیغہ واحد میں ( جو اس واقعے کا منظر نگار بھی ہے ) ایک عام آدمی ہے، جو کسی خوش خبر ساعت کی آمد کا منتظر ہی رہتا ہے کہ اس کو بھی کوئی شہرت دوام ملے اور وہ بھی رفعت مقام کا اہل قرار دیا جائے مگر صد افسوس ، وہ دور سے ایسے عظیم شخصیت کی تمکنت کی تحسین دیکھتا ہی جاتا ہے
زندگی بھر اس کے خوابوں کی تحلیل نہیں ہو پاتی۔ کچھ ناقدین نے اسے مجید امجد کی ذاتی محرومی سمجھ لیا اور کہا جانے لگا کہ ایک شاعر کا ایک باؤلر سے کیا مقابلہ ۔ پھر شاعر کی اس طرح کی خواہش اُس کے منصب کے خلاف ہے، شاعر کو اس طرح کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ میں کے ضمیر کا استعارہ ہے۔ اُن محروم طبقات کا نمائندہ بھی ہے جو زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں اور معاشرے کے حاشیے پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ باؤلر بھی علامتی ہی تصور کیا جانا چاہیے جو اپنے آرٹ کی بدولت عزت و شہرت کا وصول کنندہ بنا ہوا ہے۔
اور بہت سے کردار جو اسی قسم کا آرٹ رکھتے ہیں مگر ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
پہلی سطروں میں شاعر لڑکیوں کی معصومیت الہڑپن اور حسن کو معروضی انداز سے پیش کرتا ہے۔ دوسرے بند میں اُس کی نظر ہجوم کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ کرکٹ کے نوجوان کھلاڑیوں کے ایک دیدار کے لیے کھڑی لڑکیاں، ایک ہجوم کی شکل میں موجود ہیں۔ اچانک دروازے کھلتے ہیں اور لوگوں کا انبوہ اہل پڑتا ہے۔
ہر طرف گرنے پڑنے کی آواز میں سنائی دینے لگتی ہیں۔ اسی شور میں ایک کونے میں کچھ لڑکیاں بھی اپنی اپنی ڈائریاں ہاتھوں میں پکڑی کھڑی ہیں، جن میں ان کی آرزو میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان لڑکیوں کی آنکھوں میں ان نوجوان کھلاڑیوں کے لیے رشک ہے۔ کھلاڑی ان کے لیے رکھتے ہیں ، ان کے کتابچوں پر دستخط کرتے ہیں۔ یہاں شاعر دستخط کھینچتے ہی لڑکیوں کے چہروں پر شریرسی مسکراہٹ دکھاتا ہے۔
کتا بچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروف کی تراش کی لکیرسی
تو تھم گئیں ، لبوں پہ مسکر انہیں شریرسی
شاعر نے کھلاڑی کو عظیم شخصیت کہا ہے۔ اس کے نزدیک وہ عظیم ہی ہے، جس کے دستخطوں کے لیے حسین لڑکیاں اپنی بیاضیں لے کر کھڑی ہیں۔ جونہی کھلاڑی دستخط کرتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ کلائیوں کی نبض رک سی گئی ہے، یعنی لڑکیوں کی خوشی دیدنی ہے۔
شاعر نے باؤلر کو حسین کھلکھلا ہٹوں کے درمیان گھرا ہوا دکھانا چاہا ہے جس طرح وکٹ گری ہوئی ہو اور اس کے ارد گرد کھلاڑی کھڑے ہوں ۔ وکٹ گرنے کے اور بھی کئی معنی لیے جاسکتے ہیں مگر یہاں مہوشوں کے درمیان اُس کی موجودگی دکھانا مقصود ہے جو بالکل ایک گری وکٹ کی طرح ہے۔
آخری بند میں شاعر اپنی طرف پلتٹا ہے، جو اس نظم کا سب سے جاندار حصہ ہے، جس کے لیے پوری نظم کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ اس حصے میں شاعر اپنے قاری سے براہ راست مخاطب ہوتا ہے۔ دو کہتا ہے کہ ایک میں ہوں جو اجنبی ہے، بے نشاں ہے جسے کوئی جانتا نہیں۔ جس کے پاؤں مٹی میں ہیں ، نہ اسے عروج ملا اور نہ ہی اسے شہرت ملی ۔ اس دل پر کوئی نقش نہیں کوئی نام نہیں۔ محرومی نے اچانک شاعر کو اداس کر دیا۔
شاعر اپنے دل کی بے رونقی کے تصور کا موازنہ ان کھلاڑیوں سے کرتا ہے، جو مہ وشوں میں گھرا ہے۔ شاعر بتانا چاہ رہا ہے کہ ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بھی اسی طرح عزت و توقیر ملے ۔
یقینا کھلاڑی کی اس قدر ومنزلت نے شاعر کو رشک کی کیفیت میں مبتلا کیا ہے ۔ یہ ہر اس آدمی کی دلی خواہش کی عکاسی ہے جو زندگی میں کامیابیوں کے باوجود شہرت اور عزت و توقیر سے محروم رہتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں