نذر سجاد حیدر کی ناول نگاری
تحریر: پروفیسر برکت علی
موضوعات کی فہرست
نذر سجاد حیدر کا تعارف
اُردو ناول نگاری کی تاریخ میں جن خواتین ناول نگاروں کا نام ہمیشہ لیا جائے گا اُن میں نذر سجاد حیدر (۱۸۹۶ – ۱۹۶۷ء) کا نام بھی شامل ہے ۔
نذر سجاد حیدر نے جس دور میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا وہ ہندوستان میں سماجی اور سیاسی تبدیلیوں اور کشمکشوں کا دور تھا ۔
یہ بھی پڑھیں : نذر سجاد حیدر کے ناولوں کا تیکنیک
ایک طرف حصول آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی ، دوسری طرف ہندوستان میں معاشرتی سطح پر دور رس تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ۔
فرسودہ روایات سے انحراف کیا جا رہا تھا۔ پرانی قدریں دم توڑ رہی تھیں۔ خصوصاً مسلم معاشرہ تعلیم نسواں سے بےبہرہ ہونے کے ساتھ پردے کا زبردست حامی تھا۔
نذر سجاد حیدر نسواں اور آزادی نسواں کی تحریک کی ایک سرگرم اور مصروف ترین رکن رہی ہیں ۔ اس زمانے کے مختلف رسائل میں شائع ہونے والے ان کے مضامین ان کی اس جد و جہد مد کے آئینہ دار ہیں ۔
مضامین کے علاوہ ان کے افسانے اور ناول بھی اس جدو جہد اور مقصد کو سامنے لاتے ہیں۔
نذر سجاد حیدر کی ناول نگاری
انھوں نے متعدد افسانوں اور مضامین کے علاوہ کئی ناول لکھے ہیں ۔ اختر لنسا بیگم،
جانباز، مظلوماں، ثریا، نجمہ اور حرماں نصیب ، وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں: نذر سجاد حیدر کے ناولوں کا فنی کائزہ
ناول اختر انسا بیگم کا تنقیدی جائزہ
اختر النسا بیگم (۱۹۱۰ء) نذر سجاد حیدر کا پہلا ناول ہے۔ یہ ایک اصلاحی ناول ہے، قرة العین حیدر اس ناول کے بارے میں لکھتی ہیں :
"امی نے چودہ سال کی عمر میں ایک نہایت ترقی پسند اور اصلاحی ناول لکھا۔ جس کی ہروئن اختر النسا بیگم نے مردوں کے معاشرے کے مظالم کا نہایت عقلمندی سے مقابلہ کیا۔
اور آخر میں فتح مند ہوئی عموماً مرد امی کے ان ناولوں میں نہایت دغا باز ریا کار اور بے ہودہ دکھائے جاتے تھے۔
عورت بے حد فرشتہ صفت ہوتی تھی۔ امی کے یہ سارے ناول ان کے طبقے کے اس پس منظر کی بہت ہی عمدہ عکاسی کرتے تھے جس نے پچھلی صدی کے آخر اور اس صدی کے شروع میں سلطنت عثمانیہ کے اوپری طبقے کی طرح یورپین تہذیب اختیار کرنی شروع کر دی تھی ۔ ” (۱۲)
یہ ناول اختر النسا در اصل تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر لکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہمارا معاشرہ جس طرح کے تو ہمات اور فضول قسم کے رسم و رواج کا شکار ہے۔
وہ کس قدر غیر اخلاقی اور نقصان دہ ہیں ۔ ان سب چیزوں کی روک تھام تعلیم کے ذریعے ہی بہترین طریقے پر کی جاتی ہے ۔
ناول میں دو گھرانوں کو پیش کیا گیا ہے ۔ ایک گھرانہ جاہلیت میں مبتلا ہے اور دوسرا گھرانہ شائستگی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اختر انسا بیگم اس ناول کی ہیروین ہے اور ناول میں شروع سے ہی اس کی زندگی کے واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔
اختر النسا بیگم کے والد صاحب مسٹر رفیع وکیل ہیں۔ اس کی ماں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہے لیکن ماں کی بے وقت موت سے اختر النسا بیگم ماں کی محبت سے محروم ہو جاتی ہے ۔یہ
وہ کانپور تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہے اور اس کے والد دوسری شادی لکھنو کی ایک طوائف کی جاھل بیٹی سے کرتے ہیں ۔
اختر النسا بیگم زندگی بھر سوتیلی ماں کے برے سلوک کو برداشت کرتی ہے ۔ وہ ایک انتہائی جاہل اور گنوار شخص سے بیاہی جاتی ہے ۔
سرال میں وہ ظلم و ستم کا نشانہ بنی رہتی ہے ۔ ساس اس کو طرح طرح سے ستاتی ہے اور بالآخر بہو اور بیٹے دونوں کو گھر سے نکال دیتی ہے۔
لیکن اختر انساء مصیبت کی اس گھڑی میں تدبر سے کام لیتی ہے۔ وہ شوہر کی قلیل آمدنی پر زندگی بسر کرتی ہے۔
لیکن اس کا شوہر وبائی بیماری کا شکار ہو کر مر جاتا ہے ۔ اس طرح ایک بے سہارا بیوہ بن جاتی ہے ۔
وہ واپس سرال جاتی ہے ۔ ساس سسر اس کو اپنے بھائی بھاوج کے حوالے کر کے خود حج بیت اللہ پر چلے جاتے ہیں۔
یہ لوگ اس کے ساتھ نہایت ناشائسته برتاو کرتے ہیں۔ اور اس کو گھر سے نکال باہر کرتے ہیں۔
اب اختر النسا بالکل بے یار و مددگار ہے۔ اس کا کوئی آسرا نہیں ہوتا لیکن اختر النسا حالات کے سامنے شکست نہیں
مانتی ہے۔
وہ بے بسی اور بے کسی کی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتی ہے۔ وہ خود میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے اور اپنی مرضی سے زندگی جینے کی جدو جہد کرتی ہے ۔
اس آزمائش کے وقت میں جب کوئی اس کے کام نہیں آتا ہے تو وہ اپنی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا سہارا بنا لیتی ہے ۔
وہ ترقی حاصل کر کے اسکول انسپکٹرس بن جاتی ہے اور اپنی بقیہ زندگی قومی سماجی خدمت کے لیے وقف کر دیتی ہے۔
ناول جانباز کا تنقیدی جائزہ
جانباز (۲۹۲۵ ء ) نذر سجاد حیدر کا دوسرا ناول ہے۔ یہ ناول اپنے وقت کا مشہور ناول ہے۔ حب الوطنی اس ناول کا بنیادی موضوع ہے۔
ناول کا مرکزی کردار زبیدہ کا ہے۔ زبیدہ صحیح معنوں میں ایک وطن پرست لڑکی ہے ۔
وہ وطن کی محبت کے لازوال جذبے سے سرشار ہے ۔ وہ ایک نوجوان قمر سے منسوب ہو چکی ہے جو مغربی تہذیب و معاشرت اور طرز زندگی کا حامی ہے۔
زبیدہ اور قمر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔ زبیدہ چونکہ حب وطن کے جذبے سے سرشار ہے اس لیے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
وہ ہر لحاظ سے ہندوستانی ہے ۔ قمر کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بدیشی فیشن میں نہیں ڈھال سکتی ہے جو تم کو ناگوار گذرتا خیبر ہے ۔
اس دوران قمر کی ملاقات اپنی ہم خیال اور مغرب زدہ لڑکی نجمہ سے ہوتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور قمر زبیدہ کو چھوڑ کر نجمہ سے شادی رچاتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: نذر سجاد حیدر کے ناولوں کا اسلوبیاتی مطالعہ | pdf
نجمہ جو کہ ایک آزاد خیال لڑکی ہے گھریلو کام کاج سے کوئی سروکار نہیں رکھتی ہے۔
قمر اس کی بے راہ روی ہوتی ہے اور وہ اپنے اعمال پر شرمندہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ پھر ز بیدہ کے قریب ہو جاتا ہے لیکن نجمہ کو ان کا ملاپ ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے اور وہ فریب سے قمر کو قید کرواتی ہے۔
لیکن بالآخر نجمہ اپنے برے انجام کو پھر پہنچتی ہے اور زبیدہ اور قمر ایک ہو جاتے ہے ہیں۔
زبیدہ اور نجمہ اس ناول کے دلچسپ نسوانی کردار ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
زبیدہ اپنے وطن کی محبت میں سرشار ہے اور مشرقی تہذیب اور روایات کی امین ہے۔
وہ قمر کی رفاقت کے باوجود مغربی تہذیب میں خود کو رنگ نہ سکی ۔ یہ صورت حال اس کی زندگی میں مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔
اس کا منگیتر اس سے قطع تعلق کرتا ہے لیکن اپنے شوہر کی بے نیازی اور بے وفائی کے باوجود وہ قمر کی محبت کو دل سے محو کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔
وہ اب بھی ایک شوہر پرست عورت کی طرح اس کو چاہتی ہے ۔ وہ وطن کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیتی ہے اور شادی نہ کرنے کا عہد کر لیتی ہے۔
لیکن آخر کار اسے صبر کا پھل ملتا ہے اور قمر منھل کر اس کا ہو جاتا ہے۔
ناول آہ مظلوماں کا تنقیدی جائزہ
آہ مظلوماں (۱۹۱۴ء) ایک اصلاحی ناول ہے جس میں دوسری شادی کے برے اور تباہ کن نتائج کو موضوع بنایا گیا ہے۔
دوہرے پلاٹ کے اس ناول میں نذر سجاد حیدر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کس طرح دوسری شادی ایک خوشحال گھرانے کو تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
یہاں دوسری شادی کو ایک خطر ناک سماجی برائی کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ بتانا چاہتی ہیں کہ دوسری شادی کی یہ بدعت نچلے متوسط اور اعلا طبقے کے گھرانوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔
جس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی برابر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اس ناول کے کرداروں میں کوئی جدت یا ندرت نہیں پائی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نذر سجاد حیدر کے ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ | pdf
اس طرح کے کردار نذیر احمد کے بعد عبد الحلیم شرر کے ہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔
ناول ثریا کا تنقیدی جائزہ
ثریا ( ۱۹۴۰ء) نذر سجاد حیدر کا ایک مختصر معاشرتی ناول ہے۔ جس میں بغیر مرضی کی شادی کے مہلک اثرات اور نتائج کو ظاہر کیا گیا ہے۔
اس ناول میں جس مسئلے کو چھیڑا گیا ہے وہ نہ صرف اس زمانے کا اہم مسئلہ تھا بلکہ یہ مسئلہ آج کے دور کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
کیونکہ آج بھی اکثر والدین اپنے بچوں کی شادی صرف اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں اور بچے اس شادی کا زہر زندگی بھر پیتے رہتے ہیں ۔
اکثر لوگوں کی زندگی تلخیوں کا شکار ہوتی ہے اور کئی لوگوں کی زندگیوں کا انجام عبرتناک ہو جاتا ہے ۔
اس ناول کا اہم اور مرکزی کردار ثریا کا ہے ۔ ثریا ایک حسین و جمیل لڑکی ہے۔ والدین کی موت کے بعد وہ دادی کی سر پرستی میں آجاتی ہے۔
اس کی دوستی بنگالی گھرانے کی لڑکی مؤنی سے ہوتی ہے ۔ مومنی کے بھائی سندر لال کے دوست نواب قدر سے ثریا کی ملاقات ہوتی ہے یہ ملاقات محبت میں بدل جاتی ہے۔
اور دونوں خاموشی سے شادی کر لیتے ہیں ۔ جب نواب قدر کے گھر والوں کو اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ نواب قدر کو طلاق کرنے کی دھمکی دیکر اس کی دوسری شادی کر دیتے ہیں۔
ثریا کی زندگی ویران ہو جاتی ہے۔ وہ نواب قدر کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ وہ لکھنو کو چھوڑ دیتی ہے اور انتہائی کسم پرسی کی حالت میں ایک بیٹے کو جنم دیتی ہے۔
اسی اثنا میں اس کی ملاقات نواب قدر سے ہو جاتی ہے ۔ وہ اب اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا اہل ہے ۔ وہ والدین کی مرضی سے بیاہی ہوئی بیوی کو ان کے پاس ہی چھوڑ دیتا ہے۔
اور خود ثریا کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ کرتا ہے۔
ناول نجمه کا تنقیدی جائزہ
نجمه (۱۹۳۹ء) نذر سجاد حیدر کا ایک اہم اصلاحی ناول ہے ۔ مغربی تعلیم کے مروج ہونے کے ساتھ ہی بعض روایت پسندوں نے اس طرز تعلیم کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔
یہ کہا جانے لگا کہ مغربی طرز تعلیم مشرقی روایات کے اصولوں کے منافی ہے ۔ اس کی وجہ سے سماج میں بے حیائی اور بے جا آزادی کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔
اس طرح مغربی طرز تعلیم کے صرف منفی اثرات پر زور دیا جانے لگا۔ اس کے مثبت اثرات کیا ہیں۔ اس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی تھی ۔
نذر سجاد نے نجمہ کے ذریعے لوگوں کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
نذر سجاد حیدر کی نظر مشرقی زندگی کے ساتھ ساتھ مغربی زندگی کی صحت مند اقدار پر بھی ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس ناول کے ذریعے مغربی اور مشرقی تہذیب واقدار کے تصادم اور امتزاج کی خوب صورت حالات و واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔
اپنے اس مقصد کے اظہار کے لیے ناول نگار نے نجمہ کے کردار کو تخلیق کیا ہے۔ نجمہ ایک آزاد خیال گھرانے کی لڑکی ہے۔
اس کے والدین پردے کو ایک فضول شے سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے اور اسے ہر طرح کی آزادی دے رکھی ہے ۔
اس لیے نجمہ زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق گزار نے کے لیے آزاد ہے ۔ نجمہ کو اپنے جیسے ہی ایک آزاد اور روشن خیال لڑکے کامران سے بے انتہا محبت ہو جاتی ہے۔
دونوں آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ نجمہ کامران کے ساتھ پکنک پر جاتی ہے ، ہوٹلوں میں گھومتی ہے ۔ سینما جاتی ہے اور شاپنگ کرتی ہے ۔
نجمہ کا حلقہ احباب بہت وسیع اور ماڈرن ہے۔ عقل و فہم کے باوجود وہ کامران جیسے غلط انسان کا انتخاب کرتی ہے۔
کیونکہ کامران کے تعلقات کئی عورتوں سے ہوتے ہیں۔ ایک اور لڑکا جمیل بھی نجمہ سے محبت کرتا ہے لیکن جمیل کے گھر والے جو لڑکی کی بےجا آزادی کو پسند نہیں کرتے ہیں نجمہ کو نا پسند کرتے ہیں ۔
جمیل پھر بھی نجمہ کو بہت چاہتا ہے اور ہمیشہ نجمہ کی کامرانی اور شادمانی کی دعائیں مانگتا رہتا ہے ۔
نجمہ کے چھن جانے کا اسے کوئی غم نہیں ۔ اسے صرف اس بات کا دُکھ ہے کہ وہ ایک غلط قسم کے شخص کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے جس کا اصلی کردار نجمہ نے نہیں پہچانا ہے۔
لیکن جب نجمہ کو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کامران کے تعلقات ایک دوسری عورت ڈورس سے بھی ہیں تو اس کی نظروں میں کامران کا کردار مشکوک ہو جاتا ہے ۔
وہ بے چین ہو کر اپنی سہیلی مسز سلومن صوفیا سے کہتی ہے:
"کیا بتاوں پیاری صوفیا ! میں تو حیران ہوں ، میرا دل پھٹا جا رہا ہے یہ آخر کامران کو کیا ہو گیا ۔ یہ تو بہت اچھا نظر آتا تھا۔
سب کی رائے سے میں نے اس کی رفاقت قبول کر لی تھی چند ہی دن میں یہ کیا ہو گیا۔
اس اینگلو انڈین لڑکی پر وہ جان دینے لگا۔ شروع کی ملاقاتوں کا حال تو میں آپ کو بتا چکی ہوں ۔
وہ یہ کہہ کر مجھے دھوکا دینا ر ہا کہ وہ میرے ایک دوست کی منگیتر ہے لیکن آج مجھ پر سب حال کھل گیا اور میں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اس کو میری زرا پرواہ نہیں ہے اور ڈورس کی طرف مائل ہے۔” (۱۳)
نجمه زندگی بھر تنہائی کا زہر پیتی ہے اور آخر کار موت کے گلے لگ جاتی ہے ۔ وہ عمر بھر ایک غلط آدمی کے انتخاب کی غلطی کا خمیازہ بھگتی ہے۔
ناول کا دوسرا کردار جمیلہ کا ہے۔ جمیلہ کا کردار نجمہ سے زیادہ پرکشش اور جاندار ہے ۔
وہ جمیلہ کے رشتے کی بہن ہے اور بچپن سے ہی اس سے منسوب کی گئی تھی لیکن والدین جمیلہ کو آزاد خیال بنا چاہتے تھے اس لیے اس کی شادی کرتے ہیں اور وہ بھی خوشی سے رفیق کی بیوی بن جانا قبول کرتی ہے۔
وہ حالات سے سمجھوتہ کرتی ہے۔ جو کھو چکی ہے اس کو بھولتی ہے ۔ زندگی کو زندہ جینا چاہتی ہے۔
سنہرے بالوں والی چین کی یہ گڑیا بہت خوب صورت ہے ۔ شوخی اور شرارت کے لیے خاندان بھر میں مشہور ہے ۔
اس کی فطرت میں شوخی اور چنچل پین کوٹ کوٹ کو بھری ہوئی ہے۔ جب اس کے خالوزاد بھائی جمیل کی دلھن شکیلہ کو بھی عورتیں رونمائی میں کچھ نہ کچھ دیتی ہیں تو سب جمیلہ سے پوچھتے ہیں کہ وہ رونمائی میں کیا دینے والی ہے تو وہ پٹ سے جواب دیتی ہے:
"میرے پاس اس وقت ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے کہ بھائی جان کو رونمائی میں پیش کروں اور نہ جھکو یہ پسند ہے کہ دکھاوا کیا جائے میں مجمع میں نہیں اندر جا کر جو کچھ دے سکی پیش کروں گی ۔” (۱۴)
جمیل جمیلہ کو بے حد چاہتا ہے۔ چونکہ اس کی اپنی کوئی بہن نہیں ہے اس لیے جمیل ، جمیلہ سے بھائی جیسا پیار کرتا ہے۔
جب وہ اس سے کہتا ہے کہ کیا وہ اپنے شوہر رفیق کو چھوڑ کر ان کے ساتھ کچھ دن رہ سکتی ہے تو وہ جواب دیتی ہے:
"بھائی جان! میرا اپنا دل چاہتا ہے کہ تا زندگی آپ سے جدا نہ ہوں مگر آپ نے تو رفیق صاحب کے حوالہ کر دیا اور جس کی وجہ سے مجھ کو چھوڑا وہ بھی نہ ملی۔” (۱۵)
جمیلہ کے دل میں کسی قسم کا کوئی میل نہیں ہے۔ اس میں نہ تو حسد ہے اور نہ بغض ۔
اس کی معصومیت سے بھر پور شخصیت جمیل کے دوست کو بہت متاثر کرتی ہے ۔ وہ اس کو کنواری سمجھ کر اس میں دلچسپی لیتا ہے۔
لیکن جمیلہ اس کو بھائی مان کر چاہتی ہے کہ وہ بھی گھر بسائے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا منہ بولا بھائی قمر مس احمد سے شادی کرے کیونکہ وہ ایک خوب صورت اور شرمیلی لڑکی ہے ۔
وہ نہایت سمجھ دار اور سوچنے والی عورت ہے۔ ناول کا یہ کردار انتہائی کامیاب کردار ہے۔
ناول حرماں نصیب کا تنقیدی جائزہ
حرماں نصیب میں نذر سجاد حیدر بہن بھائی کے پاکیزہ اور مخلص رشتہ کو پیش کرتی ہے۔
اس ناول کی ہیروئن فیروزہ ہے جو اپنے بھائی فیروز سے بے پناہ محبت کرتی ہے لیکن بھائی کی اچانک موت اس کی زندگی کو ویران بنا دیتی ہے ۔
وہ دنیا سے کنارہ کش ہو کر اپنے محبوب ظفر سے بھی تعلقات قطع کرتی ہے۔ ظفر کے سمجھانے پر بھی اس سے شادی نہیں کرتی ہے اور تنہا اپنی زندگی گزارتی ہے ۔
ڈاکٹر بن جاتی ہے اور غریبوں کی خدمت کر کے بھائی کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتی ہے۔ اس طرح وہ اپنی پوری زندگی بھائی کی محبت پر قربان کر دیتی ہے۔
ماخذ: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ ص:۸۵
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں