راجہ گدھ از بانو قدسیہ کا تجزیہ
غلام مرتضیٰ
28 نومبر 1928ء پاکستان سے تعلق رکھنے والی مشہور و معروف ناول نگار ، افسانہ نگار اور ڈراما نویس محترمہ بانو قدسیہ کی ولادت کا دن ہے ۔
ناول” راجہ گدھ” جو کہ ان کی مقبولیت کا سبب بنا 1981ء میں سنگ میل پبلی کیشنز سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ کافی دنوں سے میں” راجہ گدھ” ناول پڑھ رہا تھا لیکن اتفاقاً مصنفہ کی ولادت کے دن تکمیل کو پہنچا۔
ناول "راجہ گدھ” بانو قدسیہ کاشہرہ آفاق ناول ہے۔ یہ ناول معاشرتی طبقوں کے ٹکراؤ کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے ناول کا نام ہی قاری کے ذہن کو متجسس بناتا ہے۔
مصنفہ نے گدھ کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔ مطالعے سے قبل قاری کے ذہن میں یہ خاکہ ابھرتا ہے کہ یہ ناول کسی گدھ کی زیست کے بارے میں ہوگا۔
بنیادی طور پر یہ ناول انسان کی سرشت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح انسان دیوانہ ہوتا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں۔
آیا یہ اس کی فطرت میں ازل سے موجود ہے یا اس نے خود ایسے حالات پیدا کیے جس کی بناء پر یہ دیوانہ ہوا۔ وہ کیا وجوہ تھیں ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ حلال و حرام کے تصور کو نہایت عمدگی سے منسلک کیا گیا ہے۔
حلال و حرام کے تصور کو دلچسپ بنانے کے لیے پرندوں کی تصوراتی دنیا کو تخلیق کیا گیا ہے جس میں پرندوں کی کانفرنس بلائی جاتی ہے جس کی صدارت سیمرغ کے سپرد کی جاتی ہے۔
چیل کی مدعیت میں گدھ جاتی کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا ہے چیل کا دعویٰ ہے کہ گدھ جاتی دیوانگی کا شکار ہو گئی ہے اس کے دیوانے پن سے جنگل کی مخلوق خاص طور پر پرندوں کو اپنی تباہی کا ڈر ہے۔
اس کے ضمن میں چیل یہ مثال پیش کرتی ہے کہ جب انسان دیوانہ ہوا تو اس نے ایٹم بم بناۓ اور انھی سے اپنے ہی بھائیوں کو مارنے پر آمادہ ہوا ہے۔
گدھ جاتی بھی ایک دن ہماری بربادی کا سامان کرے گی لہٰذا ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اسے اور اس کی برادری کو جنگل بدر کر دیا جائے تاکہ اس کے شر سے بچا جا سکے۔
گدھ جاتی سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا واقعی وہ دیوانگی *کی شکار ہے تو وہ بتاتی ہے کہ مجھے نہیں معلوم مجھے کیا ہوا ہے۔میں رات کو دیوانہ وار دوڑتا ہوں چیل جاتی پھر گویا ہوئ کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مردار کو کھانا شروع کردیا ہے۔اس نے یہ سب انسان سے سیکھا ہے۔
سرخاب نے کہا لیکن اگر یہ اس کی سرشت میں شامل ہے تو پھر اس میں کچھ دخل نہیں دے سکتے یہ اس کے اور خالق حقیقی کے درمیان معاملہ ہے۔ لیکن اگر اس نے خود ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے یہ حرام کھانے کا مرتکب ہوئے تو اس پر مواخذہ ہو سکتا ہے ۔
مصنفہ نے نہایت خوبصورت تمثال کاری کو استعمال کیا ہے کہ اگر انسان حرام کھاۓ تو اس کا اثر اس پر ضرور ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دیوانہ بھی ہو سکتا ہے اسی طرح حلال کھانا بھی اسی تناسب سے اپنا اثر چھوڑتا ہے۔
اس کے علاوہ دیوانے پن کی ایک وجہ عشق لا حاصل کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ جب کسی کو اس کا مطلوب محبوب نہیں ملتا تو وہ دیوانہ ہو جاتا ہے۔
وہ ہر لمحہ محبوب کی یاد میں گزار دیتا ہے بالآخر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جیسے سیمی آفتاب کی یاد میں اپنی زندگی کا بقیہ حصہ گزار دیتی ہے اور موت کو گلے لگا لیتی ہے۔
ایک اور وجہ جس کی باعث انسان دیوانہ ہوتا ہے وہ موت کی تلاش اور انتظار ہے۔
ایک موت تو یہ ہے کہ انسان کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور عالم لاہوت میں پہنچ جاتی ہے۔اس کی روح کا رشتہ اس کے جسد سے ایسے ٹوٹتا ہے جیسے دھاگہ ٹوٹنے سے تسبیح کے موتی بکھر جاتے ہیں ۔ انسان کے ناکارہ جسم کو دفن کر دیا جاتا ہے.
لیکن موت کی متعدد صورتیں ہیں مثال کے طور پر جب انسان کی کوئ آرزو پوری نہیں ہوتی تو وہ اس وقت بھی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے
جب انسان کی آرزوؤں کی موت ہوتی ہے تو انسان اسی دن سے اندر سے مر جاتا ہے اس طرح انسان ہر لحظہ،دن رات،صبح و شام مرتا رہتا ہے
کچھ کبھار کوئ جاندار چیز اسے موت کی آغوش سے اٹھاتی ہے تو وہ دوبارہ سے زندگی کے معمولات میں رچ بس جاتا ہے لیکن پھر کچھ وقفے کے بعد وہ پہلے والی حالت میں آ جاتا ہے۔
اس کی زندگی ایک ہی دائرے میں گھومتی ہوئی دکھائی دیتا ہےسیمی اور آفتاب ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن قیوم کے دل کے کسی کونے میں بھی سیمی کے لیے محبت ایک خودرو پودے کی طرح جنم لیتی ہے
آفتاب کی شادی کے بعد سیمی کو دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں وہ قیوم سے ملتی رہتی ہے اس کے ساتھ آفتاب کی باتیں کرکے اس کو یاد کرتی رہتی ہے۔
قیوم کو خوش فہمی ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ سیمی آفتاب کو بھول کر اس کی طرف مائل ہو جائے گی لیکن یہ صرف اس کی خام خیالی ہی رہتی ہے۔
اسے سیمی کی قربت تو کافی حد تک میسر آجاتی ہے لیکن اس کی محبت کے سمندر کی ایک بوند بھی اسے نہیں ملتی۔ وہ سیمی کی روح تک کبھی نہیں پہنچ پاتا۔ سیمی کی موت کے بعد اس کی زندگی میں عابدہ،امتل اور روشن آتی ہیں۔ روشن سے اس کی شادی ہو جاتی ہے
لیکن روشن کو پہلے ہی سے کسی سے محبت ہوتی ہے اور وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوتی ہے۔ شادی کی پہلی رات قیوم کو لگتا ہے کہ روشن اس کی یادوں کا بوجھ اٹھاۓ گی لیکن اسے کیا پتا تھا کہ وہ تو خود کسی کی یادوں کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے۔
دراصل قیوم ناول میں راجہ گدھ کا استعارہ بن کر ہمارے سامنے ابھرتا ہے۔ جیسے گدھ حرام کھاتا ہے اسی طرح کچھ انسان بھی ایسے ہوتے ہیں جو حرام پر پلتے ہیں۔
وہ حرام رزق بھی ہوسکتا ہے اور حرام کی محبت بھی۔ حرام کی محبت سے مراد کسی دوسرے انسان کی محبت پر نظریں جمائے رکھنا اس سے حسد کرنا وغیرہا۔ قیوم بھی اسی طرح کے انسانوں میں سے ایک ہے۔
آفتاب جب بیرون ملک سے واپس آتا ہے وہ اپنے بچے کے ابنارمل ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہوتا ہے اس کے ذہن میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں وہ قیوم سے استفسار کرتا ہے تم ہماری کلاسمیں سب سے ذہین تھے۔
بتاؤ یہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے؟ وہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ سیمی کی بد دعا کا کوئ نتیجہ ہو۔ قیوم اسے تشفی دیتا ہے کہ تمھارے بیٹے کا دیوانہ پن دوسری قسم کا ہے جس سے روح میں توانائی آ جاتی ہے۔وہ ایک ہی جست میں کئ کئ منزلیں پار کرتی ہے.
