مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

بے زبان اذیت کی داستان: ناول آنگن میں عورت کا کردار اور اس کی نفسیاتی کشمکش

بے زبان اذیت کی داستان: ناول آنگن میں عورت کا کردار اور اس کی نفسیاتی کشمکش


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 30 جولائی 2025

محقق کا تعارف: یہ بلاگ پوسٹ کاشف زبیر، سید مہر علی شاہ، اور وقاص احمد کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے، جو انہوں نے بی ایس اردو کی تکمیل کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، ہری پور میں پروفیسر ذوالفقار علی کی زیرِ نگرانی مکمل کیا۔


تعارف

تاریخ کے بڑے واقعات، جنگیں اور سیاسی انقلابات ہمیشہ مردوں کے نام سے لکھے جاتے ہیں، لیکن ان کا سب سے بھاری بوجھ اکثر وہ عورتیں اٹھاتی ہیں جن کی کہانیاں تاریخ کے صفحات میں گم ہو جاتی ہیں۔ خدیجہ مستور کا لازوال ناول "آنگن” اس بے زبان اذیت کو زبان دینے کی ایک لازوال کوشش ہے۔ یہ ناول صرف تقسیمِ ہند کے سیاسی بحران کا قصہ نہیں، بلکہ اس آنگن میں رہنے والی عورتوں کی نفسیاتی، جذباتی، اور سماجی کشمکش کی ایک گہری اور دردناک داستان ہے، جہاں ان کی خواہشات، محبتیں، اور بغاوتیں مردوں کے سیاسی نظریات اور سماجی روایات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اس بلاگ میں، ہم ناول آنگن میں عورت کا کردار کا ایک جامع نفسیاتی اور سماجی تجزیہ کریں گے تاکہ اس خاموش طبقے کی قربانیوں کو سمجھا جا سکے۔

آنگن کی عورتیں: پدرشاہی نظام اور سیاسی انتشار کی بھینٹ

ناول آنگن کا مرکزی پلاٹ مرد کرداروں (بڑے چاچا، جمیل، صفدر) کے سیاسی نظریات کے گرد گھومتا ہے، لیکن ناول کی اصل روح اس کی خواتین کرداروں میں بستی ہے۔ یہ عورتیں سیاسی فیصلوں کی محض خاموش تماشائی نہیں ہیں، بلکہ ان کے نتائج کو براہِ راست بھگتنے والی ہیں۔ خدیجہ مستور نے کمال مہارت سے دکھایا ہے کہ کس طرح ایک پدرشاہی معاشرے میں سیاسی انتشار عورت کے لیے دوہری اذیت کا باعث بنتا ہے۔ ایک طرف اسے خاندانی اور سماجی دباؤ کا سامنا ہے، تو دوسری طرف ملک کی غیر یقینی صورتحال اس کی زندگی کو مزید غیر محفوظ بنا دیتی ہے۔

تہمینہ باجی: محبت اور سماجی جبر کے درمیان ایک المناک انتخاب

تہمینہ باجی کا کردار ناول آنگن میں عورت کا کردار کی سب سے المناک اور دل دہلا دینے والی تصویر ہے۔ وہ صفدر سے خاموش محبت کرتی ہے، لیکن اس کی ماں اس کی خواہشات کو خاندانی انا اور سماجی حیثیت کے نام پر کچل دیتی ہے۔

تہمینہ کے کردار کا نفسیاتی المیہ اس کی خاموشی میں پوشیدہ ہے۔ وہ اپنی محبت کا اظہار کرنے سے قاصر ہے اور جب اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف اس کے کزن جمیل سے طے کر دی جاتی ہے تو وہ احتجاج کا سب سے بھیانک راستہ چنتی ہے—خودکشی۔ اس کی موت محض ایک ناکام محبت کی کہانی نہیں، بلکہ اس پدرشاہی نظام کے خلاف ایک بھرپور نفسیاتی احتجاج ہے جو عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق نہیں دیتا۔ مصنفہ نے اس کی موت کے بعد کے منظر کو یوں بیان کیا ہے:

”جب سب لوگ چائے پینے کے لئے اٹھے تو اماں نے ماما کو بھیجا کہ آپا کو جگا کر چائے پلائی، ماما کے چیخنے کی آواز سن کر ابا اور آپا کمرے کی طرف بھاگے۔ ماما سینے پر دونوں ہاتھ مار مار کر کہہ رہی تھیں کہ تہمینہ بیٹا نہیں۔ ہیں۔ آج اس سچ مچ اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔ اس کے مہندی رچے ہاتھ بڑی بے بسی سے پھیلے ہوئے تھے اور ہونٹ ایسے ہو رہے تھے جیسے کسی نے مسی لگا دی ہو۔“

یہ منظر تہمینہ کی بے بسی اور اس کے خوابوں کے ٹوٹنے کی ایک دلخراش تصویر ہے۔ اس کا کردار ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت کے لیے محبت کرنا اور اپنی خواہش کا اظہار کرنا کتنا بڑا جرم تھا۔

کسم دیدی: سماجی بغاوت اور تنہائی کا زہر

اگر تہمینہ سماجی جبر کے سامنے خاموشی سے ہتھیار ڈال دیتی ہے، تو کسم دیدی کا کردار اس کے برعکس ہے۔ وہ معاشرے کے اصولوں سے بغاوت کرتی ہے۔ ایک بیوہ ہونے کے باوجود وہ اپنی پسند کے نوجوان کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لیتی ہے۔ لیکن جب اس کا شوہر اسے چھوڑ دیتا ہے اور وہ واپس گھر آتی ہے تو معاشرہ اسے معاف نہیں کرتا۔

کسم دیدی کی کہانی ناول آنگن میں عورت کا کردار کی ایک اور جہت کو سامنے لاتی ہے—سماجی تضحیک کا نفسیاتی اثر۔ لوگ اسے ایک "بدنام” عورت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ سماجی دباؤ اسے نفسیاتی طور پر اس قدر توڑ دیتا ہے کہ وہ خود کو ایک اندھیری کوٹھڑی میں بند کر لیتی ہے۔ یہ کوٹھڑی محض ایک کمرہ نہیں، بلکہ اس کی ذہنی قید، خوف، اور تنہائی کا استعارہ ہے۔ مصنفہ اس کی حالت کو یوں بیان کرتی ہیں:

”وہ کمرے میں گئی مگر کسم دیدی نہ تھی۔ کوٹھڑی میں گئیں، وہ کھڈے پر گری مری پڑی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ خود ہی آگے بڑھ کر ان سے لپٹ گئی۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر انہیں اٹھانا چاہا۔ ’یہاں اندھیری کوٹھڑی میں کیوں گھسی ہیں، باہر چل کر بیٹھیں‘۔ ’نا، وہاں بیٹھوں تو سب لوگ مجھے دیکھنے آتے ہیں… میں بدنام ہو گئی ہوں، اب میں کہیں نہیں جا سکتی‘۔ اس کی آنکھوں کی ویرانی رو رہی تھی۔“

آخر کار، وہ اس نفسیاتی اذیت سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتی ہے۔ اس کا کردار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا معاشرے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی عورت کو اس کی ایک غلطی پر اس طرح نفسیاتی طور پر قتل کر دے؟

عالیہ: خاموش مبصر اور نئی عورت کی علامت

عالیہ، جو ناول کی مرکزی راوی ہے، ان تمام واقعات کی خاموش گواہ ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے عورتوں کو سیاسی نظریات، سماجی روایات اور مردانہ انا کی بھینٹ چڑھتے دیکھتی ہے۔ وہ خود بھی جذباتی طور پر تنہا ہے، لیکن وہ تہمینہ یا کسم دیدی کی طرح ہمت نہیں ہارتی۔ اس کا کردار ایک نئی، پڑھی لکھی اور باشعور عورت کی علامت ہے جو حالات کا تجزیہ کرتی ہے اور خاموشی سے ہی سہی، لیکن اپنی ایک الگ شناخت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ مردوں کی سیاسی جنگ میں حصہ نہیں لیتی، بلکہ اس کے اثرات کو گہرائی سے محسوس کرتی اور بیان کرتی ہے، جس سے ناول کو ایک نسائی زاویہ ملتا ہے۔

مائیں اور چاچیاں: روایات کی پاسدار اور محافظ

ناول میں بڑی عمر کی خواتین، جیسے عالیہ کی ماں اور بڑی چچی، روایات اور پرانے نظام کی محافظ کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ وہ خود بھی اسی پدرشاہی نظام کا حصہ ہیں اور اکثر دوسری عورتوں، خاص طور پر اپنی بیٹیوں اور بہوؤں پر اسی نظام کو مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عالیہ کی ماں کا تہمینہ کے رشتے کو مسترد کرنا اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ کردار اس پیچیدہ حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ عورت صرف مظلوم ہی نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات وہ خود بھی اس ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کا سبب بنتی ہے۔

خلاصہ

ناول آنگن میں عورت کا کردار محض مظلومیت کی داستان نہیں، بلکہ یہ محبت، بغاوت، قربانی، اور بقا کی ایک کثیر الجہتی تصویر ہے۔ خدیجہ مستور نے بڑی فنکاری سے دکھایا ہے کہ تقسیمِ ہند کا المیہ صرف زمین کی تقسیم کا نہیں، بلکہ روحوں، رشتوں اور خاص طور پر عورت کی شناخت کی تقسیم کا بھی تھا۔ تہمینہ کی خاموش قربانی، کسم دیدی کی المناک بغاوت، اور عالیہ کا باشعور مشاہدہ، سب مل کر اس ناول کو اردو ادب میں نسائی حساسیت کی ایک لازوال دستاویز بنا دیتے ہیں۔ یہ ناول آج بھی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر بڑی سیاسی اور سماجی تبدیلی کی سب سے بھاری قیمت عورت ہی ادا کرتی ہے۔


ماخذ اور حوالہ جات


ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔


آپ کے خیال میں، ناول ‘آنگن’ میں دکھائے گئے خواتین کے مسائل کیا آج کے معاشرے میں بھی موجود ہیں؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں شیئر کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں