مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ناول آنگن کا سماجی مطالعہ: تقسیمِ ہند کی کہانی ایک آنگن میں

ناول آنگن کا سماجی مطالعہ: تقسیمِ ہند کی کہانی ایک آنگن میں

عنوان:


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 30 جولائی 2025

محقق کا تعارف: یہ بلاگ پوسٹ کاشف زبیر، سید مہر علی شاہ، اور وقاص احمد کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے، جو انہوں نے بی ایس اردو کی تکمیل کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، ہری پور میں پروفیسر ذوالفقار علی کی زیرِ نگرانی مکمل کیا۔


تعارف

اردو ادب کی تاریخ ایسے شاہکار ناولوں سے بھری پڑی ہے جو اپنے دور کے معاشرتی اور سیاسی منظرنامے کی زندہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان میں خدیجہ مستور کا شہرہ آفاق ناول "آنگن” ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔

یہ ناول صرف ایک گھرانے کی کہانی نہیں، بلکہ تقسیمِ ہند سے پہلے اور بعد کے اس معاشرتی، سیاسی، اور نفسیاتی انتشار کا جامع مرقع ہے جس نے برِصغیر کے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا۔ اس بلاگ میں، ہم ناول آنگن کا سماجی مطالعہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ کس طرح خدیجہ مستور نے ایک آنگن کی چار دیواری میں پورے ہندوستان کی کہانی بیان کی ہے۔

ناول آنگن کا سماجی مطالعہ: ایک تحقیقی جائزہ

ناول آنگن کا سماجی مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک سماج کا تجزیہ ہے۔ اس میں موجود تمام عناصر، جیسے کردار، واقعات، اور ماحول، کسی ایک سماج کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں تقسیمِ ہند سے قبل، تقسیم کے دوران، اور تقسیم کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور حالات کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے ایک آنگن میں رہنے والے لوگوں کی کہانی کے ذریعے اس وقت کے ہندوستان کے معاشی، سماجی، سیاسی، اور مذہبی حالات کی بہترین عکاسی کی ہے۔

آنگن میں سیاسی کشمکش

جب کسی ملک کی تقسیم ہوتی ہے تو معاشرہ نظریاتی طور پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ ناول آنگن میں اس سیاسی کشمکش کو بہت واضح طور پر دکھایا گیا ہے، جہاں ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہیں۔ ناول کا مرکزی گھرانہ کانگریس اور مسلم لیگ کی نظریات کی جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔

  • بڑے چاچا کا کردار: وہ کٹر کانگریسی ہیں اور انہیں اپنے مسلمان ہونے پر بھی شبہ رہتا ہے۔ ان کے نزدیک کانگریس کے علاوہ ہر جماعت ملک کی غدار ہے۔ ان کی سیاسی شدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی صرف اس لیے ایک معمولی لڑکے سے کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کانگریسی تھا۔
  • جمیل اور چھمی کا کردار: اس کے برعکس، بڑے چاچا کے بیٹے جمیل اور بھتیجی چھمی مسلم لیگ کے پرجوش حامی ہیں۔ وہ مسلم لیگ زندہ باد اور کانگریس مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور اپنے نظریات پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔

خدیجہ مستور نے ایک ہی آنگن میں ان متضاد سیاسی نظریات کی موجودگی کو دکھا کر یہ واضح کیا ہے کہ تقسیم کا بحران صرف سرحدوں پر نہیں، بلکہ گھروں کے اندر بھی داخل ہو چکا تھا، جس سے رشتے اور خاندان بکھر رہے تھے۔

معاشی و طبقاتی بحران

انگریزوں کے آنے اور پھر تقسیمِ ہند کے ہنگاموں نے ہندوستان کے معاشی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا۔ ناول آنگن میں ایک کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانے کے معاشی زوال کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو دراصل اس دور کے ہزاروں خاندانوں کی داستان ہے۔

بڑے چاچا، جو کبھی ایک وسیع جاگیر کے مالک تھے، اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ان کا کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ان کی دکانوں سے ہونے والی معمولی آمدنی بھی سیاسی چندوں اور ورکروں پر خرچ ہو جاتی ہے۔

گھر کی معاشی حالت اتنی خراب ہو جاتی ہے کہ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ چھمی کا کردار اس معاشی بدحالی کی بہترین عکاسی کرتا ہے، جو اپنی مردہ ماں کے پرانے کپڑے پہن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ ناول آنگن کا سماجی مطالعہ واضح کرتا ہے کہ سیاسی فیصلوں نے عام آدمی کی زندگی کو معاشی طور پر کس طرح متاثر کیا۔

تہذیبی و ثقافتی اقدار کی عکاسی

خدیجہ مستور نے اس ناول میں اس دور کی تہذیب و ثقافت کو بھی بڑی گہرائی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے شادی بیاہ کی رسومات، مذہبی اقدار، اور معاشرتی روایات کو کہانی کا حصہ بنایا ہے، جس سے اس دور کی زندگی کی مکمل تصویر سامنے آتی ہے۔

  • شادی کی رسومات: عالیہ کی آپا کی شادی کی تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے مصنفہ نے مایوں، مہندی، اور گیتوں کی محفلوں کی تفصیل بیان کی ہے، جس سے اس وقت کے مسلم گھرانوں کی روایات کا اندازہ ہوتا ہے۔
  • ملازموں سے سلوک: ناول میں کریمن بوا کا کردار اس طبقاتی تفریق کو ظاہر کرتا ہے جہاں ملازموں کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا اور معمولی غلطیوں پر ان سے سخت سلوک کیا جاتا تھا۔
  • مذہبی اقدار: ناول میں مذہبی اقدار کی جھلک بھی ملتی ہے۔ جب عالیہ کی دادی کا انتقال ہوتا ہے تو کریمن بوا کا قرآن شریف پڑھ کر ایصالِ ثواب کے لیے دعا کرنا اس دور کے مذہبی رجحانات کو ظاہر کرتا ہے۔

تقسیمِ ہند کا تاریخی پس منظر

ناول آنگن صرف ایک سماجی دستاویز ہی نہیں، بلکہ ایک تاریخی ناول بھی ہے۔ خدیجہ مستور نے بڑی خوبصورتی سے اس تاریخی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گہرا اتفاق اور بھائی چارہ تھا۔ بڑے چاچا کے کردار کے ذریعے وہ کہلواتی ہیں:

”زمانے زمانے کی بات ہے، وہ بھی زمانہ تھا جب ہندو اپنے گاؤں کے مسلمانوں پر آنچ آتے دیکھتے تو سر دھڑ کی بازی لگا دیتے اور مسلمان ہندو کی عزت بچانے کے لیے اپنی جان نچھاور کر دیتے۔ بھائی چارہ تھا کہ لگتا ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔“

ناول یہ بھی بتاتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے کس طرح "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت دونوں قوموں کے درمیان مذہبی، لسانی، اور طبقاتی اختلافات کو ہوا دی، جس کا نتیجہ بالآخر تقسیم کی صورت میں نکلا۔

خلاصہ

مختصراً، ناول آنگن کا سماجی مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ یہ ناول محض ایک افسانوی داستان نہیں بلکہ تقسیمِ ہند کے وقت کے ہندوستان کا ایک جامع اور مستند سماجی، سیاسی، اور تاریخی تجزیہ ہے۔ خدیجہ مستور نے ایک آنگن کے ذریعے پورے برصغیر کے دکھوں، امیدوں، اور ناکامیوں کو اپنی تحریر میں سمو دیا ہے، جو اسے اردو ادب کا ایک لازوال شاہکار بناتا ہے۔


ماخذ اور حوالہ جات


ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔


آپ نے خدیجہ مستور کا ناول ‘آنگن’ پڑھا ہے؟ تقسیمِ ہند کے سماجی اثرات کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟ نیچے تبصروں میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں