ناصر کاظمی کی غزل گوئی میں وطن دوستی ایک جائزہ

ناصر کاظمی کی غزل گوئی میں وطن دوستی

ناصر ایک وطن پرست شاعر ہیں۔ وہ اپنے وطن عزیز سے والہانہ عشق کرتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے درختوں، چڑیوں، بازاروں گلیوں سب سے پیار کرتے ہیں۔ ناصر کا اپنے وطن سے عشق محض رسمی یا زبانی جمع خرچی نہیں ہے ۔ وہ نوجوانی کے زمانے میں ملک کی فوج میں بھی داخل ہونا چاہتے تھے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔

شیخ صلاح الدین لکھتے ہیں:
"1939-45 کی جنگ کے دوران اس نے اور اس کے ایک نہایت ہی عزیز دوست ظفر قزلباش نے جب دونوں طالب علم تھے. R.I.A.F کا امتحان دیا
دونوں کامیاب ہوئے مگر ناصر کو طبعی معائنے میں رد کر دیا گیا ۔ (15)

یہ واقعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ناصر کا اپنے وطن کے میں عشق نہایت پر خلوص تھا ۔ وہ ایک فوجی بن کر اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے کلام میں اکثر ایسے اشعار ملتے ہیں جو ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت ہیں۔

ان کی وطن پرستی میں ان سے ایسے اشعار کہلا سکتی ہے۔

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تیری گلی گلی کی خیر اے میرے دل ربا وطن

پیارے دیس کی پیاری مٹی
سونے پر ہے بھاری مٹی

لیکن ایک نئے ملک میں اجنبیت اور احساس نا قدری نے کہیں نہ کہیں وقت کی راکھ میں چھپی غریب الوطنی کی کوفت کی چنگاری کو بھڑ کا دیا تھا۔

بے سرو سامانی اور مفلسی کی وجہ سے انھیں اکثر اپنے پرانے ملک کی یاد بھی ستاتی رہتی تھی۔

1965 کی جنگ میں ناصر کاظمی نے ایک شاعر ہونے کے ناتے اپنا کردار بخوبی نبھایا تھا۔ دوران جنگ انھوں نے اپنے ملک کی فوج اور عوام کی حوصلہ افزائی کے لئے ترانے لکھے۔ یہ ترانے ان کی نظموں کے مجموعے نشاط خواب میں شامل ہیں۔

انھوں نے کل 17 ترانے لکھے ہیں یعنی 1965 کی 17 روزہ جنگ کے دوران ناصر کاظمی نے اپنے وطن کے لیے روز ایک ترانہ لکھا۔ باصر سلطان کاظمی لکھتے ہیں:

"جنگ کے بعد اعزازات اور انعامات پانے والے تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کی ایک طویل فہرست کا اعلان ہوا لیکن ناصر کاظمی کا اس میں کہیں نام نہ تھا۔ ( بحیثیت شاعر ناصر کی خدمات کا اعتراف سرکاری سطح پر کبھی نہیں کیا گیا، نہ تو ان کی زندگی میں اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد آج تک۔ ) (17)

حق تو یہ تھا کہ ناصر کاظمی کو ان کی وطنی اور جملہ شاعری کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے اعزازات و انعامات سے نوازا جانا چاہئے تھا لیکن ہم اسے پاکستان حکومت کی کوتاہ نظری ، سرد مہری اور چشم پوشی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ایک تنظیم شاعر کی ناقدری کی ۔ ناصر کی شعری خدمات کسی طرح بھی ان کے ہم عصر منیر نیازی اور احمد فراز سے کم نہیں ہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہئے تھا کہ ناصر کوستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازتی۔ حکومت اگر آج بھی ہوش کے ناخن لے تو اس ناقدری کی کسی حد تک بھر پائی ممکن ہے۔ ناصر کو بعد از مرگ اوارڈ دیا جا سکتا ہے اور ان کے نام سے بھی اوارڈ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اپنی اس ناقدری اور محرومی کا ناصر کو بخوبی احساس تھا۔ درج ذیل اشعار ا سکا بین ثبوت ہیں۔

ہمیں بھی کریں یاد اہل چمن
چمن میں اگر کوئی غنچہ کھلے

ہم ہی گلشن کے امیں ییں ناصر
ہم سا کوئی نہیں بے گانئہ گل


ماخذ: ناصر کاظمی حیات اور ادبی خدمات مقالہ نگار ڈاکٹر شریف احمد قریشی

conver the tittle of this post in to english and writes abstract for that
ناصر کاظمی اور وطن دوستی
ناصر ایک وطن پرست شاعر ہیں۔ وہ اپنے وطن عزیز سے والہانہ عشق کرتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے درختوں، چڑیوں، بازاروں گلیوں سب سے پیار کرتے ہیں۔ ناصر کا اپنے وطن سے عشق محض رسمی یا زبانی جمع خرچی نہیں ہے ۔ وہ نوجوانی کے زمانے میں ملک کی فوج میں بھی داخل ہونا چاہتے تھے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔

شیخ صلاح الدین لکھتے ہیں:
"1939-45 کی جنگ کے دوران اس نے اور اس کے ایک نہایت ہی عزیز دوست ظفر قزلباش نے جب دونوں طالب علم تھے. R.I.A.F کا امتحان دیا
دونوں کامیاب ہوئے مگر ناصر کو طبعی معائنے میں رد کر دیا گیا ۔ (15)

یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی ایک تاثراتی مطالعہ

یہ واقعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ناصر کا اپنے وطن کے میں عشق نہایت پر خلوص تھا ۔ وہ ایک فوجی بن کر اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے کلام میں اکثر ایسے اشعار ملتے ہیں جو ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت ہیں۔

ان کی وطن پرستی میں ان سے ایسے اشعار کہلا سکتی ہے۔

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تیری گلی گلی کی خیر اے میرے دل ربا وطن

پیارے دیس کی پیاری مٹی
سونے پر ہے بھاری مٹی

لیکن ایک نئے ملک میں اجنبیت اور احساس نا قدری نے کہیں نہ کہیں وقت کی راکھ میں چھپی غریب الوطنی کی کوفت کی چنگاری کو بھڑ کا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | مقالہ pdf

بے سرو سامانی اور مفلسی کی وجہ سے انھیں اکثر اپنے پرانے ملک کی یاد بھی ستاتی رہتی تھی۔

1965 کی جنگ میں ناصر کاظمی نے ایک شاعر ہونے کے ناتے اپنا کردار بخوبی نبھایا تھا۔ دوران جنگ انھوں نے اپنے ملک کی فوج اور عوام کی حوصلہ افزائی کے لئے ترانے لکھے۔ یہ ترانے ان کی نظموں کے مجموعے نشاط خواب میں شامل ہیں۔

انھوں نے کل 17 ترانے لکھے ہیں یعنی 1965 کی 17 روزہ جنگ کے دوران ناصر کاظمی نے اپنے وطن کے لیے روز ایک ترانہ لکھا۔ باصر سلطان کاظمی لکھتے ہیں:

"جنگ کے بعد اعزازات اور انعامات پانے والے تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کی ایک طویل فہرست کا اعلان ہوا لیکن ناصر کاظمی کا اس میں کہیں نام نہ تھا۔ ( بحیثیت شاعر ناصر کی خدمات کا اعتراف سرکاری سطح پر کبھی نہیں کیا گیا، نہ تو ان کی زندگی میں اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد آج تک۔ ) (17)

حق تو یہ تھا کہ ناصر کاظمی کو ان کی وطنی اور جملہ شاعری کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے اعزازات و انعامات سے نوازا جانا چاہئے تھا لیکن ہم اسے پاکستان حکومت کی کوتاہ نظری ، سرد مہری اور چشم پوشی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ایک تنظیم شاعر کی ناقدری کی ۔ ناصر کی شعری خدمات کسی طرح بھی ان کے ہم عصر منیر نیازی اور احمد فراز سے کم نہیں ہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہئے تھا کہ ناصر کوستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازتی۔ حکومت اگر آج بھی ہوش کے ناخن لے تو اس ناقدری کی کسی حد تک بھر پائی ممکن ہے۔ ناصر کو بعد از مرگ اوارڈ دیا جا سکتا ہے اور ان کے نام سے بھی اوارڈ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اپنی اس ناقدری اور محرومی کا ناصر کو بخوبی احساس تھا۔ درج ذیل اشعار ا سکا بین ثبوت ہیں۔

ہمیں بھی کریں یاد اہل چمن
چمن میں اگر کوئی غنچہ کھلے

ہم ہی گلشن کے امیں ییں ناصر
ہم سا کوئی نہیں بے گانئہ گل

ماخذ: ناصر کاظمی حیات اور ادبی خدمات مقالہ نگار ڈاکٹر شریف احمد قریشی

Title Translation: Nasir Kazmi and Patriotism

Abstract: Nasir Kazmi, a patriotic poet, expresses profound love for his homeland through his poetry, celebrating its natural beauty and cultural essence. His desire to serve in the military during his youth reflects his sincere dedication to his country. Despite facing rejection from the military due to health issues, Kazmi’s patriotism shines through his verses, particularly during the 1965 war when he wrote numerous anthems to uplift the spirits of his fellow citizens. His contributions, however, remain largely unrecognized by the government, highlighting a poignant neglect of his literary legacy.

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں