اردو ادب میں نرگسیت کا بیان | Narcissism in Urdu Literature: A Critical Analysis
موضوعات کی فہرست
اردو ادب میں نرگسیت (Narcissism) ایک اہم موضوع رہا ہے، جو خود پسندی اور خود مرکزیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس موضوع پر مختلف ادبی اصناف میں کہانیاں، اشعار اور ناول موجود ہیں۔ یہاں ہم اردو ادب میں نرگسیت کی مختلف مثالوں کا جائزہ لیں گے۔
1. اشعار میں نرگسیت
مرزا غالب:
- "ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے، کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور”
غالب کا یہ شعر ان کی اپنی شاعری کی خوبیوں اور منفرد انداز پر زور دیتا ہے، جو نرگسیت کی عکاسی کرتا ہے۔
اقبال:
- "خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”
اقبال کا یہ شعر خودی اور خود مختاری پر زور دیتا ہے، جس میں نرگسیت کی جھلک نظر آتی ہے۔
2. کہانیوں میں نرگسیت
منٹو کی کہانیاں:
- منٹو کی کئی کہانیاں نرگسیت اور خود پسندی کے موضوعات پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر "کھول دو” اور "ٹھنڈا گوشت” میں کرداروں کی خود غرضی اور خود مرکزیت کی عکاسی کی گئی ہے۔
پریم چند:
- پریم چند کی کہانی "نصیب والا” میں مرکزی کردار اپنی خود پسندی اور غرور کی وجہ سے اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کرتا ہے، جس کا نتیجہ اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
3. ناول میں نرگسیت
بانو قدسیہ:
- بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ” میں کچھ کردار نرگسیت کے مظاہر پیش کرتے ہیں۔ مرکزی کردار قیوم کی خودی اور خود پسندی کے مظاہر کہانی میں بار بار نظر آتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب:
- شہاب صاحب کے مشہور ناول "شہاب نامہ” میں بھی کچھ کردار نرگسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر مصنف خود بھی اپنی شخصیت کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔
4. ڈرامے
اشفاق احمد:
- اشفاق احمد کے ڈرامے "تلاش” میں کردار نرگسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مرکزی کردار اپنی خود پسندی اور خود مختاری کے مظاہر پیش کرتا ہے۔
یہ مثالیں دکھاتی ہیں کہ اردو ادب میں نرگسیت کیسے مختلف ادبی اصناف میں موجود ہے اور اس کا اظہار ہوتا ہے۔
اردو ادب میں نرگسیت کا آغاز
اردو ادب میں نرگسیت کا آغاز مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں ہوا ہے۔ نرگسیت، جسے خود پسندی یا خود مرکزیت بھی کہا جاتا ہے، ادبی تحریروں میں ایک اہم موضوع رہا ہے اور یہ نہ صرف شخصی مطالعے کا حصہ ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی پس منظر کا بھی مظہر ہے۔
شاعری میں نرگسیت:
- اردو شاعری میں نرگسیت کا اظہار ابتدائی دور میں بھی ملتا ہے، خاص طور پر کلاسیکی شاعری میں، جہاں عاشق کی خود پسندی اور اپنی محبت کی بے پناہ توصیف دیکھنے کو ملتی ہے۔ میر تقی میر اور غالب کی شاعری میں خود پسندی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
داستان اور قصے:
- ابتدائی اردو داستانوں اور قصوں میں بھی نرگسیت کی مثالیں ملتی ہیں، جہاں بادشاہوں، امیروں، اور شاہزادوں کی خود پسندی اور ان کی عظمت کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔
ناول میں نرگسیت:
- اردو کے ابتدائی ناولوں میں بھی نرگسیت کے موضوعات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ناولوں کے کرداروں کی خود پسندی، اپنی شخصیت کی تعریف اور دوسرے لوگوں کی کمتر گردانی جیسے موضوعات ملتے ہیں۔
ادبی تحریکات میں نرگسیت
ترقی پسند تحریک:
- اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے دوران نرگسیت کے موضوع پر زیادہ زور نہیں دیا گیا، کیونکہ اس تحریک کا مقصد سماجی مسائل اور انصاف کی بات کرنا تھا۔
رومانوی تحریک:
- رومانوی تحریک میں نرگسیت کو زیادہ اہمیت دی گئی اور محبت، خود پسندی، اور خود شناسی جیسے موضوعات پر کام کیا گیا۔
موجودہ دور میں نرگسیت
اردو ادب میں نرگسیت کا موضوع آج بھی اہمیت رکھتا ہے اور مختلف کہانیاں، ناول، اور شاعری میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔
نرگسیت: ایک نفسیاتی اصطلاح
تعریف:
نرگسیت بنیادی طور پر نفسیات کی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہے خود اپنی ہر ادا پر فریفتہ ہونا۔ یہ اس قدر گہرائی میں جا سکتا ہے کہ انسان اپنی ذات میں محو ہو جاتا ہے اور بیرونی دنیا ہیچ لگتی ہے۔ گویا انسان خود اپنا عاشق اور خود محبوب بن جاتا ہے۔
نرگسیت اور خودی:
اقبال کا مشہور شعر:
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”
نرگسیت میں یوں ہے کہ اپنے آپ کو خالق حقیقی کے عشق و محبت میں اس طرح کھو دینا کہ روز قیامت خالق آپ سے خود پوچھے کہ تم کس طرح راضی ہو۔ اس شعر میں اقبال نے سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کی ہے کہ میری اصل مقصد کیا ہے۔
غالب کی نرگسیت ڈاکٹر سلیم اختر
نرگسیت کا نفسیاتی پہلو
بعض ناقدین کے مطابق نرگسیت ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا ہو کر اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نرگسیت ایک نفسیاتی حالت ہے جس میں انسان اپنی ذات کے حصار میں قید ہو جاتا ہے۔
نرگسیت اور شاعرانہ تعلی
اردو ادب میں نرگسیت کی اصطلاح ان ادباء اور شعراء کے لئے استعمال ہوتی ہے جو خود پسندی اور حب ذات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ شاعرانہ تعلی نرگسیت ہی کی ایک صورت ہے، جس میں شاعر اپنے فن پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں مبتلا چند قابل ذکر شعراء درج ذیل ہیں:
- میر: "سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا، مستند ہے میرا فرمایا ہوا”
- غالب: "ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے، کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور”
- اقبال، حسرت موہانی، خوجہ حیدر علی آتش، دبیر، مومن خان مومن وغیرہ۔
خلاصہ
اردو ادب میں نرگسیت کا اظہار ابتدائی دور سے ہی ہوتا آ رہا ہے اور یہ مختلف ادبی اصناف میں مختلف ادوار میں موجود رہا ہے۔ یہ نہ صرف شخصی مطالعے کا حصہ ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کا بھی عکاس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو میں نرگسیت کی تعبیرات
English Title:
"Narcissism in Urdu Literature: A Critical Analysis”
Abstract:
This article explores the concept of narcissism in Urdu literature, tracing its presence in various genres, including poetry, short stories, novels, and dramas. Through examples from renowned authors like Mirza Ghalib, Allama Iqbal, Saadat Hassan Manto, and Banu Qudsia, this study examines how narcissism is portrayed in Urdu literature, reflecting self-love, self-centeredness, and the complexities of human emotions.
Acknowledgment:
We extend our sincere gratitude to the knowledgeable members of the WhatsApp community, whose insightful discussions significantly contributed to our understanding of narcissism in Urdu literature. Their valuable inputs have enhanced the quality of this article.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں