ن م راشد کی نظم نگاری کی خصوصیات
موضوعات کی فہرست
ن م راشد کا تعارف
نذر محمد راشد(۱۹۱۰- ۱۹۷۵) نے نظم کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف اس کی ہیئت کو بدل کر رکھ دیا بلکہ نظم کے موضوعات کو بھی جدت سے روشناس کروایا۔ راشد کی نظموں میں جہاں ہمیں نفسیاتی، جذباتی اور جنسی رجحان دیکھنے کو ملتا ہے وہیں ان کے ہاں بغاوت کا عنصر بہت نمایاں ہے، اب یہ بغاوت رسمِ عاشقی سے ہو یا مذہب سے وہ بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
نظم نگاری ایک طویل مسافت طے کرنے بعد راشد تک پہنچی تھی۔ گو کہ جعفر زٹلی اور شاہ حاتم کے ہاں ہمیں موضوعاتی شاعری دیکھنے کو ملتی ہے مگر نظم کا باقاعدہ آغاز نظیر اکبر آبادی سے ہی ہوتا ہے۔
انجمن پنجاب کے موضوعاتی مشاعرے، مولانا محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، اسمعیل میرٹھی، عبدالحلیم شرر، شبلی نعمانی اور علامہ اقبال تک پہنچتے نظم کی ساخت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ پابند نظمیں اب چاہے وہ ترکیب بند میں ہوں یا ترجیع بند میں، روایتی رجحان دیکھنے کو ملتا رہا۔ مگر راشد اور میرا جی کی آمد نے اردو نظم کو نئی ہیئت سے متعارف کروایا اور پابند نظم نے آزاد اور معری` نظموں کی صورت اختیار کر لی۔
راشد کی نظم نگاری کی خصوصیات
1۔ جدت تراشی
روایت شکنی ان کے خمیر کا حصہ ہے اور وہ جدت کے نت نئے پہلووں سے نظم کو متعارف کرواتے ہیں۔ اب وہ جدت موضوعات کی نسبت ہو یا ہئیت کی نسبت سے۔
ان کی کتابوں کے عنوانات بھی ایک طرح کی جدت لیے ہوئے ہیں، ” ماورا (۱۹۴۱ء) "، ” ایران میں اجنبی(۱۹۵۵ء)”، ” لا=انسان(۱۹۶۹ء)” اور ” گماں کا ممکن(۱۹۷۴ء)”
معنویت کا انبار لیے ہوئے ان کی نظموں کے موضوعات قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
__ بوئے آدم زاد آئی ہے کہاں سے ناگہاں ؟
دیو اس جنگل کے سناٹے میں ہیں
ہو گئے زنجیر پا خود ان کے قدموں کے نشاں
( ص نمبر 301، نظم۔بوئے آدم زاد، سے اقتباس )
ڈاکٹر آفتاب احمد اپنے مضمون ” ن۔م راشد شاعر اور شخص” میں لکھتے ہیں کہ:
” راشد شاعر نہیں، لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں۔ وہ نظمیں نہیں کہتے، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسمے تیار کرتے ہیں۔”
مگر وہ حسّ ِ ازل
جو حیواں کو بھی میسر ہے
سب تماشائیوں سے کہتی ہے :
” اس سے آگے اجل ہے
بس مرگِ لم یزل ہے؛ "
اسی لیے وہ کنارِ جادہ پر ایستادہ ہیں، دیکھتے ہیں؛
( ص نمبر 149، نظم۔ سومنات، سے اقتباس )
2۔ ترقی پسندی
راشد ترقی پسند تحریک (۱۹۳۶ء) کے اہم رکن تھے۔ راشد، اختر شیرانی کے شاگرد تھے جو رومانوی تحریک کے نام لیوا تھے۔ استاد کی نسبت سے ہی اقبال کے خلاف ان کا ردّ ِ عمل بھی وجود میں آیا جو اقبال کی بلند پروازی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔
ترقی پسند موضوعات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر راشد کی نظم میں بھی امڈ آیا ہے۔
_ یہ دلی ہے
اپنے غریب الوطن بھائیوں کے لیے
ہار غزلوں کے لائی ہے ان کی بہن
اور گیتوں کے گجرے بنا کر؛
” چھما چھم چھما چھم دلہنیا چلی رے۔ "
( ص نمبر 138، نظم۔ آواز، سے اقتباس )
ایک بیکار خدا کی مانند
اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں
ایک عفریت __ اداس
تین سو سال کی ذلت کا نشاں
ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی
( ص نمبر 97، نظم۔ دریچے کے قریب، سے اقتباس )
3۔علامت نگاری
راشد کا عہد ان سے علامتی زبان کا تقاضا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن علامت نگاری کے برعکس ان کے ہاں ابہام یا مبہم پن موجود ہے جو عام قاری کو الجھا کر رکھ دیتا ہے۔
شبِ زفاف ابو لہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،
ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں
سانپوں کے ہار لائی، نہ اس کو مشّاطگی سے مطلب نہ مانگِ غازہ، نہ رنگ وروغن، گلے میں سانپوں
کے ہار اس کے ۔۔۔
(ص نمبر 268، نظم۔ ابو لہب کی شادی، سے اقتباس )
سمندر کہ تہہ میں
سمندر کی سنگین تہہ میں
ہے صندوق _ صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا میں ڈبیا
میں کتنے معانی صبحیں __
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند
اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی؛
(ص نمبر 450، نظم۔ سمندر کی تہہ میں، سے اقتباس )
4۔ خود کلامی
خود کلامی، ان کے شب وروز کے اکیلے پن کی چغلی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شاید راشد اس جہان رنگ وبو میں ان گنت نفوسوں کے رہتے ہوئے بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اسی سبب وہ اکثر خود کلامی میں مبتلاء پائے جاتے ہیں۔
مگر اے مری تِیرہ راتوں کی ساتھی
یہ شہنائیاں سن رہی ہو ؟
یہ شاید کسی نے مسرت کی پہلی کرن دیکھ پائی؛
نہیں، اس دریچے کے باہر تو جھانکو
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
اسی ساحرِ بے نشاں کا
جو مشرق کا آقا تھا مغرب کا آقا نہیں تھا!
( ص نمبر 131، نظم۔پہلی کرن، سے اقتباس )
” یہ میں ہوں”
” اور یہ میں ہوں؛ ” _
یہ دو میں ایک سیمِ نیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق وغرب کی مانند،
لیکن مل نہیں سکتے؛
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار ان کے درمیاں حائل ؛
( ص نمبر 163، نظم۔ ظلمِ رنگ، سے اقتباس )
5۔انفرادیت
انفرادیت ان کی نظم نگاری کا ایک اہم پہلو ہے۔ وہ جس عہد میں نظمیں لکھ رہے ہیں، ان کے ہم عصروں میں اختر شیرانی، فیض احمد فیض، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، تصدق حسین خالد، ساحر لدھیانوی اور مجید امجد ایسے متعدد شعراء نظم کی کرید میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان راشد اپنی الگ ہی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔
میر ہو، مرزا
جی ہو، مِیرا جی` ہو
کچھ نہیں دیکھتے ہیں
محورِ عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
اپنے ہی بیم ورجا، اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنی ہی قامت کے سوا
اپنی تنہائی، جاّنکاہ کی دہشت کے سوا؛
( ص نمبر 342، نظم۔ میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو، سے اقتباس )
عزیز احمد لکھتے ہیں کہ:
” ن۔م راشد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے آزاد نظم کو اردو میں مقبول کیا "
میں دیوارِ جہنم کے تلے
ہر دوپہر، مفرور طالبعلم کے مانند
آ کر بیٹھتا ہوں اور دزدیدہ تماشا اس کی پر اسرار وشوق انگیز جلوت کا
کسی رخنے سے کرتا ہوں ۔۔۔
( ص نمبر 571، نظم۔ بے چارگی، سے اقتباس)
6۔ طنز نگاری
راشد سماجی شعور رکھنے والے شاعر ہیں اور معاشرے کی ناہمواریوں کا نہ صرف پردہ چاک کرتے ہیں بلکہ ان پر نشتریت بھی کرتے ہیں۔ راشد کا لہجہ دھیما بھی ہے اور کاٹ دار بھی ۔۔۔
لگاتے ہیں مل کر
” وطن؛ اے وطن؛” کی صدائیں؛
مگر کون جانے یہ کس کا وطن ہے؟
( ص نمبر 209، نظم۔ کیمیا گر، سے اقتباس )
مرگِ اسرافیل ہے
اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
اب مغّنی کس طرح گائے گا اور گائے گا کیا
سُننے والوں کے دلوں کے تار چپ؛
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و درو دیوار چپ؛
اب خطیب شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان وگنبد ومینار چپ؛
( ص نمبر 284، نظم۔ اسرافیل کی موت، سے اقتباس )
مجموعی جائزہ
راشد کی زبان فارسی زدہ ہے اور ان کے ہاں مبہم پن پڑے پیمانے پر موجود ہے۔ انہوں نے فارسی شاعری کے اردو میں تراجم بھی کیے، ان کی شاعری کی پرکھ کے لیے ان کے ہم عصر فارسی شاعروں کا مطالعہ فائدہ مند ہو گا۔ راشد نظم نگاری میں اپنے انفرادی رویے کے چلتے شروع میں طنز وتضحیک کا نشانہ بھی بنے لیکن آخرِ کار وہ اپنی انفرادیت کو نہ صرف منوا کر رہے بلکہ آزاد نظم کے بانیوں میں شمار ہونے لگے۔
اگر آزاد ومعری نظم اس تابناکی کے ساتھ موجود ہے تو اس کا سہرہ انہی چند گنے چنے شعراء کے سر جاتا ہے جنہوں نے اسے نوآموزگی میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
راشد تقاضا کرتا ہے کہ اس کا قاری اس کے شعوری مقام پر آ کر اسے سمجھے۔ راشد کے پہلے مجموعوں میں یاس، اداسی، ناامیدی یعنی قنوطیت چھائی ہوئی ہے مگر آگے چل کر منظر کچھ نہ کچھ صاف ہو جاتا ہے۔ وہ روحانی محبت کا قائل نہیں بلکہ روایتی عاشقی سے بغاوت کرتے ہوئے محبوب کے جسم تک رسائی چاہتا ہے۔
وہ خوابوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اگر راشد کی شاعری کاجائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم پڑے گا وہ دراصل مشرق سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے ہی بغاوت کر رہا ہے۔
آخر میں ایک جملہ کہنا چاہوں گا کہ:
راشد دراصل مستقبل کا آدمی تھا جو کسی وجہ سے اپنے معینہ وقت سے پہلے ہی آن وارد ہوا، اس لیے روایتوں سے اس کا انحراف لازم تھا ۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
ن۔م راشد، کلیات راشد، کتابی دنیا، نئی دہلی، ۲۰۱۱ء
سانول رمضان
بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان