نظم جدید کے اساطیری مباحث | Mythical Discourses of Modern Poetry
تحریر: ساجد علی امیر
اساطیر عربی زبان کا لفظ ہے جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے اردو میں عربی کی طرح ہی رائج ہے۔ متھ دیو مالا،علم الاصنام اور صنمیات وغیرہ اساطیر کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے۔بالعموم اساطیر سے مراد دیوی دیوتاؤں کے وہ قصے لیے جاتے ہیں جو کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کی تخلیق اور مظاہر فطرت میں رونما ہونے والے مختلف واقعات (بارش،آتش فشاں کا پھٹنا، سیلاب، طوفان، زلزلہ،سورج گرہن اور چاند گرہن وغیرہ )کی مختلف تاویلیں پیش کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے تھے۔ اساطیر انسان کی ابتدائی تخلیقی کا وش ہے جس کے ذریعے اس نے کا ئنات اور فطرت کے اسراروں کو اپنی سو چ اور فکر کے مطابق معنی پہنانے کی سعی کی۔اس ضمن میں ’’ہندوصنمیات‘‘ کے مصنف ڈاکٹر مہر عبدالحق لکھتے ہیں:
’’قدیم انسان نے دنیا اور مافیہاکو اپنی تفہیم کی سطح کے مطابق جس انداز میں معانی پہنانے کی کوشش کی ہے اس کے واضح نشانات ہمیں ان اساطیر الاولین میں ملتے ہیں جن میں مختلف قبائل نے اپنے آباواجداد یا ہیروز یافوق البشر ہستیوں کے مفروضہ یانیم حقیقی کارناموں کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔‘‘(۱)
بعض ناقدین اساطیر کو خرافات کہہ کر رد بھی کرتے رہے ہیں لیکن اساطیر کو خرافات اور فضولیات کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ قبل از تاریخ کے انسان نے اساطیر کے ذریعے اپنی ذات اور ماحول کے اظہار کے ساتھ ماورائی قوتوں کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیاہے۔ اساطیر اپنے تخلیقی عہد کے انسان کی فلسفیانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے پس منظر میں فلسفیانہ عنا صر کار فرما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زبان اور ہر عہد کے ادب میں انسان کی نفسیاتی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے اساطیر سے معاونت لی جا تی رہی ہے۔ اساطیر اس عہد کی تاریخ، معاشرت، الٰہیات، سائنس فکشن اور سماجی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں جس عہد میں ان کی تخلیق ہوئی تھی۔مختصراََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اساطیر وہ سب کچھ ہے جو اس کے تخلیقی عہد کا انسان سوچا کرتا تھا۔ سبط حسن اپنی شہرہ آفاق کتاب’’ماضی کے مزار‘‘میں رقم طراز ہیں:
’’متھ قدیم انسا ن کا فلسفہ حیات وکائنات ہے۔۔۔ متھ ہی کی مدد سے وہ تخریبی طاقتوں کو خیالی طور پر تسخیر کرتا تھا اور مہربان طاقتوں کی حمایت حاصل کرتا تھا،متھ قدیم انسان کی پرواز تخیل کی معراج ہے۔‘‘(۲)
اس تک انسان، فطرت،کائنا ت اور ماورائی قوتوں کے درمیان تعلق کو دریافت کرتے اور ماورائی ہستیوں کو تسخیر کرنے کے لیے تین نقطہ نظر سامنے آچکے ہیں پہلا مکتب فکر ’’جادو‘‘ہے۔ جس نے فطرت اور ماورائی ہستیوں کو مطبع بنانے کی اولین کوشش کی تھی۔ اصل میں جادو ورائی قوتوں کی پیداوار ہے جو کائناتی نظام کی اسراری پیشکش کرتا ہے۔ جادوگروں اور ساحروں کا خیال تھا کہ اگر وہ مظاہر فطرت کی نقالی کریں گے تو ان میں پوشیدہ ماورائی قوتوں کو اپنے اعمال وافعال سر انجام دینے کے لیے تحریک ملے گی۔
اس مقصد کے لیے جادوگروں نے مختلف رسومات کو فروغ دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ ماورائی قوتیں ان کی پیروی نہیں کرتیں بلکہ وہ خود کا ر نظام کے تحت اپنے افعال سر انجام دیتی ہیں تو انھوں نے ماورائی قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی مدح و ستائش، قربانی اور مختلف منتروں کو فروغ دیا جس سے ابتدائی مذہب کے نقوش واضح ہونے لگے۔ مذہب انسان،فطرت اور مافوق قوتو ں کے درمیان تعلق کو سمجھنے کا دوسرا مکتبہ فکر ہے۔ مذہب نے جا دو سے فروغ پایا تھا۔ اس لیے بہت سے جادوئی رسم ورواج مذہبی عقائد میں شامل ہوگئے۔’’ شاخ زریں‘‘ (گولڈن بو)کے مصنف جیمنر فریزر کے مطابق :
’’ سحر قدیم مذہب کی بنیاد تھا۔ جب کسی خدا کے ماننے والا اپنے معبود سے مرادمانگتا تو اس کے لیے اپنی کامیابی کی صورت سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ وہ اس خدا کو رام کرے اور یہ صرف ان چند رسموں قربانیوں، دعائوں اور بھجنوں کے ذریعے ممکن تھا جو خود اس کے خدا نے نازل کی تھیں۔‘‘(۳)
یہ با ت واضح رہے کہ یہاں مذہب سے مراد وہ نہیں جو مذہبی علمامراد لیتے ہیں بلکہ مذہب سے مراد وہ رسومات اور جنتر منتر ہیں جن کے ذریعے قبل از تاریخ کا انسان ماورائی قوتوں کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ جادوئی اور مذہبی نقطہ نظر میں یہ مماثلت ہے کہ ماورائی صاحب ارادہ ہیں جن کے ارادے کو مختلف رسوما ت کی ادائیگی ان کی تعریف و توصیف،ریاضت،تپسیا، چلوں اور منتروں کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے۔مذہب اور جادو میں قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے بہت سی جادوئی کہانیوں کو مذہبی عقائد میں جگہ مل گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے مذہب کے دامن میں محفوظ ہوگئیں۔ مذہب نے جادوائی اساطیر کو محفوظ کرنے کے ساتھ کچھ اساطیر خود بھی تخلیق کیے ہیں۔ مذہب کے بعد کا ئنات کے رازو ں کا پردہ چاک کرنے کے لیے سائنسی نقطہ نظر سامنے آیا۔ سائنسی تصورات اور نظریا ت نے مذہب کی ساخت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور مذہب کے بعد سے عقائد کو چیلنج کردیا جن مافوق الفطرت اور خیالی چیزوں کا ذکر اساطیر اور مذہب میں ملتا ہے ان کو سائنس نے عملی شکل دے دی۔ سائنس کی بنیادیں اساطیر پر قائم ہیں۔
اساطیر اور سائنسی تصورات، نظریا ت اور سائنسی ماڈلوں میں کئی حوالوں سے مماثلت پائی جاتی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والی صد یوں میں کائنات کے نظام کے مطالعہ کے لیے جب کوئی نیا مکتب فکر وجود میں آئے گا تو سائنسی تصورات و نظریا ت اساطیری روپ اختیار کرلیں گے۔
’’A Dictionary of Mythology‘‘کے مصنف فرانڈ کے مٹے کا خیال ہے کہ سائنسی ایجادات میں اساطیر ی روپ دھارنے کے امکانا ت موجود ہیں۔(۴) ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’اردو کا افسانوی ادب‘‘میں کلیم الدین احمد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ممکن ہے مستقبل بعید کے انسان کے لیے آج کی بعض ایجادیں مثلاً ریڈیو، ٹیلی فون، تار لا سلکی، ٹیلی ویژن اور ہوائی جہاز اس قسم کی دوسری چیزیں مافوق الفطرت کے کارنامے خیا ل کئے جائیں۔‘‘(۵)
آج بھی بعض سائنسی تصورات کا مطالعہ غور سے کیا جائے تو ان میں بہت سی باتیں اساطیری نوعیت کی معلوم ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے بگ بینگ کی تھیوری کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جو تخلیق کا ئنات کی اسطوری کہانیوں کی تجدید ہے۔ مذکورہ بالا تینوں مکتب فکر (جادو، مذہب اور سائنس )نے اپنے اپنے انداز میں اسطورہ سازی کی ہے۔ اسطورہ سازی ایک ہمہ گیر عمل ہے جو ہر عہد میں غیر شعوری طور پر جاری ساری رہتا ہے لیکن اس کا احساس اس عہد کے انسان کونہیں ہوتا جس میں اساطیر تخلیق ہورہے ہوتے ہیں۔ جوںہی زندگی نئے عہد میں داخل ہوتی ہے تو سابقہ عہد کی اکثر چیزیں اسطوری معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اگر قدامت کے لحاظ سے دیکھاجائے توسمیری تہذیب کے اساطیر کو دیگر تہذیبوں کے اساطیر سے اولیت حاصل ہے۔سمیری اساطیر کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سمیری معاشرہ انتشار اوربد نظمی کا شکا ر تھا اور اس معاشرے میں وحدت کا عنصر مفقود تھا۔ سمیریوں کے زوال کے بعد جب اقتدار اہل بابل کو منتقل ہوا تو انھو ں نے اپنا تہذیبی جواز پید ا کرنے کےلیے شعوری طور پر اساطیر تخلیق کیے۔ جس سے بابلی تہذیب کے اساطیر میں وحد ت کا عنصر نمایاں ہوا۔ اب ان کے دیوتا مختلف مسائل کے حل کے لیے مجلس شوریٰ کا انتظام کرتے تھے اور مجلس جوفیصلہ کرتی تھی اس پر عمل کرنا دیوتاؤں کے لیے ضروری ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بابل جمہوری نظام حکومت سے واقفیت رکھتے تھے۔ مجلسِ شوریٰ کے جن دیوتاؤں کو اہمیت حاصل تھی ان میں اَنو، ان لل،اِن کی، ننورتا، نن ہورسگ، انانا، گل گا مش، ننتااور اتو شامل ہیں۔ قدامت کے اعتبار سے سمیری اور بابلی تہذیب کے بعد مصری تہذیب کا نمبر آتا ہے۔ قدیم مصری ادب مذہبی نوعیت کا ہے۔
مصریوں نے اخلاقی تربیت کے لیے اساطیری کہانیاں تخلیق کی تھیں۔ مصریوں کے اساطیر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مذہبی نوعیت کے حامل ہونے کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر مادی حقیقت سے بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مصری ادب کی اولین کتاب ’’پٹاہوٹپ‘‘ کی تحریر ہے۔ اس کی شمار دنیا کی قدیم ترین کتابو ں میں ہوتا۔ اس میں مذہبی نوعیت کی کہانیاں بیان ہوئی ہیں جو اسلوب کے لحاظ سے حکایت سلیمانؑ سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہیں۔ مصریوں کی دوسری قدیم کتاب ’’مردے کی کتاب‘‘ (دی بک آ ف ڈڈ ) ہے۔ اس کتاب میں دیوی دیوتاؤں کی عبادت کے طریقے، مرنے کے بعد زندگی اور فیصلے کے دن کا اظہار ملتا ہے۔ ’’پٹاہوٹپ کی تحریر‘‘اور ’’مردے کی کتاب‘‘ مصری اساطیر کے بنیادی ماخذ ہیں۔ مصریوں کے عقیدے کے مطابق ان کے بادشاہ (فراعنہ)دیوتاؤں کے اوتار ہیں اور ان کا وجود رعایا کے لیے باعث رحمت ہے۔ مصری اساطیر میں دیوتاؤں اور فراعنہ کے علاوہ بیل، گائے، سانپ اور عقاب کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مصری اساطیر میں کچھ مرکب قسم کے کردار بھی ملتے ہیں۔جن کی نصف جسم آدمی کا ہے اور نصف کسی جانور کا ہے۔ اس کی مثا ل ’’ابوالہول‘‘ہے جو ہیبت کا دیوتا ہے۔ مصریوں کے اہم دیوتا ازریس، انفیس، ساتت، ہوریس، انوبیس ہیں۔
قدیم یونانی بہت زیادہ اوہام پرست تھے۔ ان کے ہاں دیوتاؤں کی کثرت تھی۔ ان کے عقیدے کے مطابق دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو دیوی دیوتائوں سے پاک ہو۔ ان کے نزدیک دیوتاؤں کا اولین مسکن ’’اولمپیا‘‘ کا پہاڑ ہے۔ یونانی اساطیر کے اولین ماخذ ہومرکی رزمیہ نظمیں ایلیڈاور اوڈیسی ہیں۔ ان نظموں میں سمندری عفریتوں پریوں اور جل پریوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یونانی اساطیر اہل یونان کی ذہنی اختراع کا نتیجہ ہیں لیکن یونا نی اساطیری کہانیوں نے مصری اساطیر سے کافی اثرات قبول کیے ہیں۔ یونانی دیوی دیوتا قوت کی علامت ہیں یونانی معاشرے کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس کی بنیاد اساطیر پرنہ ہو۔ یونانی اسا طیر میں دیوی دیوتائوں کو پہلی بار انسانوں کے قریب دکھایا گیاہے:
’’، ’’انسائیکلوپیڈیا ادبیات عالم‘‘کے مولف یاسرجوا د کے مطابق یونانیوں کے نزدیک دیوتا اور انسان میں فرق صرف یہ ہے کہ انسان فانی ہے اور دیوتا لافانی‘،(٦)
زئیس، ڈیمیٹر، ہیڈس، پوسی ڈون، ہیرا، اپالو، اتھینا، ڈایونیس، ایرس، انیبس اہم یونانی دیوتاہیں۔ ان دیوتاؤں کے علاوہ کچھ یونانی سورما بھی اسطوری خصا ئص کے مالک ہیں ان سورماؤ ں میں پریام، اوڈیس الیڈا، مینی لاس، ہر کویس اور ایکلیز قابل ذکر ہیں۔
وادی سندھ کی تہذیب سمیری اور بابلی تہذیب کی ہم عصر تھی۔ اس تہذیب کے اساطیر کا ذکر سمیری اور بابلی ادب میں ملتا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کا ادب تا حال دریافت نہیں ہوا۔ وادی سندھ کی کھدائی کے دوران میں جو مہریں ملی ہیں ان پر دیوی، دیوتاؤں، جانوروں، پرندوں اور درختوں کے نقوش کے علاوہ کچھ تحریریں بھی کنندہ ہیں لیکن ابھی تک رسم الخط سے ناواقفیت کی وجہ سے ان تحریروں کو پڑھا نہیں جا سکا۔ صرف قیا س کی بنیاد پریہ کہا جاسکتا ہے کہ جن چیزوں کے نقش مہروں پر بنے ہوئے ہیں وہ وادی سندھ کے باشندوں کے نزدیک مقد س تھیں۔ مہروں پر دیوی دیوتاؤں کے جو نقش کنند ہ کیے گئے ہیں وہ سمیری، بابلی، مصری، اور ہندی دیومالا کے دیوتائوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ وادی سندھ کی دیومالامیں ایک دیوتا ملتا ہے۔ جس کے متعلق ’’سرجان مارشل‘‘ کا خیا ل ہے کہ وہ دیوتا ہندوؤں کے دیوتا ’’شیو‘‘کے مماثل ہے۔(٧) جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ وادی سندھ کی دیو مالا ہندی دیومالا کی جدِامجدہے۔ ہندی دیومالا ہندوستانی دھرتی کی طرح بہت زیادہ پراسرار ہے جو اس دھرتی کے باشندوں کی فلسفیانہ سوچ اور فکرکی عکاسی کرتی ہے۔ ہندی دیو مالا میں زندگی کے اسرارو رموز کو فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندی دیو مالا کے ماخذ وید اورپران ہیں۔ رامائن اور مہابھارت لوک کتھائوں کے ماخذ ہونے کی وجہ سے پرانوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ہندی دیو مالا میں خدائے واحد کا تصور ملتا ہے۔ ڈاکٹر اجے مالوی اپنی تصنیف ’’ویدک ادب اور اردو‘‘ میں ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ویدوں میں جو مختلف دیوتا ملتے ہیں اصل میں یہ ایک ہی دیوتا (معبود حقیقی یاروشنی )کے مختلف پہلوئو ں کے مظہر ہیں۔ (٨) برہما، وشنو اور شیو ہندی دیو مالا کے بنیادی دیوتاہیں۔ ان دیوتائوں کے علاوہ ہنومان، رادھا، رام، راون، سکند، سوریہ، سوما، شکتی، کام،کرشن اور گنیش قابلِ ذکر ہیں۔
مذکورہ بالا تہذیبوں کے اساطیر میں تخلیق کائنات کی کہانی اور طوفان عظیم کا قصہ مشترکہ طور پرملتا ہے۔ درج بالا تہذیبوں کی اساطیر ی اور دیو مالائی کہانیو ں سے اردو زبان وادب نے عہد بہ عہد مثنوی، داستان، افسانہ اور نظم کی صورت میں استفادہ کیا ہے۔ نظم اور اساطیر کا تعلق بہت قدیم اور فطری نوعیت کا ہے۔ ان کے درمیان کوئی ازلی وابستگی ہے۔ نظم اور اساطیر تخیل کی پیداوار ہونے کے ساتھ اپنی دھرتی،تہذیب اور تاریخ سے جنم لیتے ہیں۔ ان کے پیچھے بہت سے تہذیبی اور ثقافتی عوامل کارفرماہوتے ہیں۔دراصل انسان کے رگ وپے میں ایک فطری آہنگ روزازل سے موجود ہے۔
جس کا اس نے پہلی بار اظہار اساطیر کی صورت میں کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر عہد اور ہر زبان کی نظم اساطیری عناصر سے پاک نہیں ہے۔اردو نظم نے بھی اساطیر سے بہت سے استعارے اور علامتیں لی ہیں۔ جن سے اس کے دائرہ کار میں بہت وسعت آئی ہے۔ اساطیر ی کردار دھرتی کے مجموعی احساسات اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ جب اردو نظم ان کرداروں کو اپنائی ہے تو اس کی تفہیم کے کئی نئے امکانات پیداہوجاتے ہیں اساطیری علامتیں اور موضوعات اردو نظم کی گہرائی اور ہمہ گیریت کا سبب بنتے ہیں۔
اردو نظم نے عہد بہ عہد کئی کروٹیں بدلی ہیں اور ہر بار اس نے نئے رجحانات کو متعارف کرایا ہے۔ اردو نظم اپنے ابتدائی زمانے سے اساطیری، تاریخی اور تہذیبی عوامل کو اپنے وجود میں سموتی آئی ہے۔ لیکن اس نے اپنے ابتدائی زمانے میں جگ بیتی کا روپ دھارے رکھا اور زندگی کے خارجی پہلوئوں کو موضوع بنایا۔ لفظ کے گرد مخصوص تصورات، احساسات کا حصار بنائے رکھا اور لفظ کی داخلی توانائی سے ناواقف بنی رہی۔ اردو نظم کا ابتدائی دور جاگیرداری تھا۔اس دور میں عوام پر خواص کو فوقیت حاصل تھی۔ اس عہد میں دربار کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ ابتدائی اردو نظم جاگیرداری نظام کی پروردہ ہونے کی وجہ سے محدود وسعتوں کی حامل ہے۔ تخلیق کا رخواص کے نظریات کی عینک پہنے دور سے زندگی کا مطالعہ کرتے رہے۔ ان کے نزدیک فرد کی حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ تھی۔ موضوعات کے لحاظ سے اردو نظم کے ابتدائی دور کا اختتام ۱۸۵۷ء کے ہنگامے پر ہوتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد جاگیرداری نظام کی جگہ استعماری نظام نے لے لی۔ قدیم تہذیب کی بساط الٹ گئی اور زندگی کے تقاضے اور مسائل یکسر بدل گئے۔ قدیم علوم وفنون فرسودہ اور متروک ٹھہرے۔ اخلاقی اور مذہبی نظام تہ وبالا ہوگیا۔ ہر طرف انتشار اور بد نظمی پھیل گئی۔ اس صورت میں قدیم نظم زندگی کے اظہار کےلیے ناقص محسوس ہونے لگی۔ اس عہد میں نظم میں کئی جدتیں پیدا کی گئیں۔ ان جدتوں کے پیچھے دو نقطہ نظر کار فرما تھے۔ ایک نقطہ نظر تو وہ تھاجو تحریک علی گڑھ اور انجمن پنجاب کے مشاعروں سے پھوٹا تھا۔ اس نقطہ نظر نے نظم کو معاشرتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے متعین کیا۔ سر سید اور ان کے رفقا کا خیا ل تھا کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے نتیجے میں جنم لینے والی زبوں حالی کا واحد حل پیروی مغرب میں ہے۔ انھوں نے نظم کے ذریعے اپنے اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا۔ الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی کی شاعری اسی نقطہ نظر کا شاخسانہ ہے۔ انھوں نے اردو نظم کونئے موضوعات سے متعارف کروانے کے ساتھ اردو نظم کے مروج ہیئتی او ر فکر ی سانچے میں کئی جدتیں پیدا کیں۔
اردو نظم پر عربی اور فارسی کے اثرات کم کرنے پر بھی توجہ دی گئی۔ اس عہد میں اردو نظم بدیسی دھرتی کے مظاہر کے بجائے ہندوستانی دھرتی کے مظاہر کو بیان کرنے لگی۔ حالی اور آ زاد کے عہد میں ہندوستانی مظاہر فطرت کو اپنے دامن میں محفوظ کرنا شروع کردیا۔ ان سے قبل اردو نظم بدیسی تہذیبوں کی مختلف علامتوں کو بروئے کار لاتی تھی جو بنیادی طور پر اس کے مزاج سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ آزاد اور حالی نے مغربی نظم تتبع میں اردو نظم کو نئے موضوعات سے مالا مال کیا اور اسمعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے غیر مقفٰی نظم کی بنیا د ڈالی جس نے آگے چل کر معریٰ نظم کی صورت اختیار کرلی۔ ان موضوعاتی اور ہیئتی تبدیلیوں کے باعث اس عہد کی نظم کو عموماََ جدید نظم کہا جاتا ہے جو اصولاََ درست نہیں ہے۔ اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ اس عہد کے شعرانے نظم کے مروج سانچو ں سے کئی لحاظ سے انحراف کیا ہے لیکن اس عہد کی نظم نے بھی اپنے سے قبل نظم کی طرح خارجی پہلوؤں کو ہی موضوع بنایا ہے۔ ان دونوں عہدوں کی نظموں میں موضوعاتی بعد ہونے کے باوجود خارجی مماثلتیں موجود ہیں۔ رشید امجد اپنے غیر مطبوعہ مقالے ’’میراجی شخصیت اور فن‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’حالی اور آزاد نے نظم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کے نے کے لیے جن کوششوں کا آغازکیا تھا وہ اس حوالے سے تو اہم تھیں کہ ان کے ذریعے نظم جدید تقاضوں کے قریب پہنچ گئی لیکن اس سے نظم میں کوئی نئی تبدیلی یا انقلاب نہیں آیا لیکن یہ ضرور ہو ا کہ ہا لر ائیڈ، ڈاکٹر لائٹر اور اس طرح کے دوسرے پڑھے لکھے انگریزوں کی وجہ سے انگر یزی ادبیات کے جو خیالات اردو میں فروغ پائے ان کی وجہ سے نظم ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کا میاب ہو گئی۔‘‘(٩)
آزاد نے اردو کے شعراکو پیروی مغرب کی جانب گامزن کیا اور مغربی نظم کے تتبع میں ”نیچرل شاعری ”کی بنیادی ڈالی لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ آزاد سے قبل اردو نظم میں نیچر کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم نیچرل شاعری کی عمدہ مثال ہے تاہم اس کو اپنے تخلیقی عہد میں بوجہ پذیرائی نہ مل سکی۔ جوں ہی نیچرل شاعری کے لیے فضا سازگار ہوئی تو نظیر اکبر آبادی کی نظم کی افادیت واضح ہوتی گئی ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد فروغ پانے والی اردو نظم کے پس منظر میں کارفرما دوسرا نقطہ نظر مغرب سے بیزاری کا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل شعرااہل مغرب سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اپنی قدیم تہذیب سے بے پنا ہ محبت تھی۔ اکبر الہ آبادی کی نظم مغربی تہذیب سے بیزاری کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے پیروی مغرب پر طنزومزاج کے نشتر چلائے اور اردو نظم کو نئے الفاظ سے مالا مال کیا لیکن انھوں نے بھی زندگی کے خارج کو ہی موضوع بنایا۔ ان کی نظمیں بھی فرد کی داخلیت سے یکسر خالی ہیں اردو نظم بیسویں صدی تک جدیدیت کی راہ پر گامزن ہو چکی تھی۔ اب اس کی منزل زیادہ دور نہ تھی۔ علامہ محمد اقبال نے آزاد، حالی اور اکبر الٰہ آبادی کے نقطہ نظر سے استفادہ کیا۔ انھوں نے اسلاف کے کارناموں کو سراہنے کی روایت حالی سے لی اور مغربی تہذیب سے بیزاری کا عنصر اکبر الہ آبادی سے حاصل کیا۔ اقبال نے لفظ، تشبیہ، استعارے اور علامت کے گرد مخصوص معنوں کے حصار کو تو ڑا اور علامت اور استعارے کو نئے معنی اور مفاہیم سے وابستہ کیا۔ اقبال نے اردونظم کو پہلی بار فرد کی داخلی زندگی سے متعارف کروایا۔ ڈاکٹر وزیر آغا اقبا ل کو جدید نظم کے علمبرداروں میں شمار کرتے ہیں(10)
اقبال نہ تو کلاسیکیت کی جکڑ بندیو ں کو قبول کیا اور نہ ہی رومانویت کے انتشار کو اپنے قریب پھٹکنے دیا۔ اقبال کا فرد مادر پدر آزادی کا حامل نہیں بلکہ انھوں نے اس پر کچھ روحانی پابندیوں کو لازمی قرار دیا ہے۔ ان کا فرد آزاد ہونے کے باوجود پابہ گل بھی ہے۔ اقبال نے اپنے ابتدائی دور میں ہندوستانی تہذیب کے عناصر اور مظاہر فطرت کو اپنی نظمو ں میں سمویا ہے۔ اقبال کی ابتدائی دور کی نظموں میں زمینی فضا کا لمس موجود ہے اور وہ ان نظموں میں ارضی وطن کے گن گاتے رہے ہیں لیکن مختلف تصورات کی یلغار نے ان کی نظم کو ملت کی طرف راغب کردیا۔ اور اقبال اپنی نظمو ں میں اسلامی اساطیر علامتوں کو کثرت سے برتنے لگے۔
عقیل احمد صدیقی نے سر سید اور ان کی رفقا کی نیچرل شاعری کی تحریک سے ۱۹۳۵ء تک کے عرصے کو ’’اردو نظم کا تشکیل دور‘‘ کہا ہے۔ ۱۹۳۶ء کے آس پاس اردو نظم کا ایک نیا نقطہ نظر سامنے آیا۔ یہ نقطہ نظر ترقی پسند تحریک کا تھا۔ اس تحریک کے شعرانے اردو نظم کو ایک نئی جہت سے متعارف کروایا۔ انھو ں نے اسلوب اور آہنگ کا نیا طریقہ اپنایا۔ ترقی پسند شعراء نے اقبال کے تخاطبانہ لہجے سے استفادہ کیا اور چیزوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔انھوں نے اپنی نظمو ں میں لفظ کو لغوی مفہوم میں استعما ل کیا ہے اوربات کو ڈھکے چھپے انداز میں کرنے کےبجائے سادہ اور واضح انداز میں کیا ہے۔
قدیم اردو نظم اور جدید اردو نظم کے مباحث اردو نظم کے ابتدائی دور سے چلے آرہے ہیں لیکن حلقہ ارباب ذوق اور تر قی پسند تحریک کے شعراء کے مباحث نے جدید اردو نظم کے افق کوروشن کیا۔ اردو نظم کے ساتھ اس کے ابتدائی دور سے جو مقصد یت چمٹی آرہی تھی اس سے اردو نظم کو بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں نجات ملی حلقہ ارباب ذوق کے شعرا نے اردو نظم کی داخلی جہت کو متعارف کرایا۔ انھوں نے فرد میں اتر کر اجتماعی لاشعورکے سمندر سے مقدس موتیو ں کو نکال کرقاری کے سامنے انڈیل دیا۔
مجید امجد نے آفاقی اور عالمگیر مسائل کو موضوع بنانے کے بجائے مقامی مسائل کو ترجیح دی ہے۔ انھوں نے عصری مسائل کو کسی خاص مقصد یا آدرش کے تحت نہیں اپنایا بلکہ ان مسائل کے اظہار کے ذریعے اپنے انفرادی رد عمل کو نمایا ں کیا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اجتہادی ہے۔ وہ انسان اور کائنات کے درمیان ازلی رشتے کو دریافت کرتے ہیں۔ ان کا ذہن اسطور ساز فکر کا حامل تھا۔ ان کے نزدیک مظاہر فطرت اور دیگر اشیا اپنی شخصیت رکھتی ہیں۔ انھو ں نے سماجی ناہمواریوں کو اساطیر کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ اساطیر کے برتاؤ میں جو جدت پیدا کی ہے وہ کسی اور شاعر کے ہاں نظر نہیں آتی۔
ن۔ م راشد کی ابتدائی نظموں پر فرائیڈ کے نظریہ جنس کے اثرات ہیں لیکن راشد نے جنس کو مستقل موضوع نہیں بنایا۔ انھوں نے فرد کی بازیافت ایرانی اور اسلامی اساطیر کے ذریعے کی ہے۔ راشد کی نظمیں ایک ایسے عالمی انسان کو پیش کرتی ہیں جو روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی لذتوں کے حصول کے لیے کوشا ں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ راشد مغربی شاعری سے متاثر تھے تاہم انھوں نے اپنی نظموں کی بنیاد مشرقی تہذیبی عناصر پر رکھی ہے ان کے ہاں ہندی، ایرانی اور اسلامی اساطیر کے حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔
میرا جی نے بکھرتے ہوئے سماج کی تہذیبی اور ثقافتی قدروں کو منضبط کرنے کی کوشش کی ہے۔ انیسویں صدی کے عالمگیر ہنگاموں نے فر د کی شناخت اور اس کا اعتماد چھین لیا تھا میر اجی نے فرد کے وقار کو بحال کرنے کے لیے ہند ی تہذیب اور اساطیر کا سہارا لیا ہے۔ میر ا جی کے ہاں اساطیر کی جنسی علامتیں کثرت سے ملتی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک جنس تخلیقی عمل کی طر ح مقدس فعل ہے۔ میرا جی نے قدیم اساطیر سے استفادہ کرنے کے ساتھ کچھ اساطیر خود بھی تخلیق کیے ہیں لیکن ان کے اسا طیر قبل از تاریخ تخلیق کیے گئے اساطیر کی طرح پیچیدہ نہیں ہیں۔
تصدق حسین خالد کا شمار جدید نظم کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے دو عالمگیر جنگوں کے اثرات کے نتیجے میں بگڑتی ہوئی معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی صورت حال کے ساتھ فرد کی ذہنی کشمکش ا س کی مٹتی ہوئی پہچان اور انسانی قدروں کی شکست و ریخت کو تہذیبی، ثقافتی اور اساطیر ی حوالو ں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کی نظموں میں خوف اورتنہائی کی وہ گھمبیر صورت ملتی ہے جسے جدید معاشرے میں عالمگیر جنگوں نے پروان چڑھایا تھا ان کی نظمیں اپنے تخلیقی عہد کے سیاسی اور سماجی تصورات کی عکاس ہیں۔ انھوں نے اپنے خیالات کے اظہار کےلیے اجتماعی لاشعو رکی علامتوں، ہندی، مصری، ایرانی اور اسلامی اسطوری حوالو ں سے استفادہ کیا ہے۔
ایم ڈی تاثیر نے بیسوں صدی کے تیزی سے بدلتے ہوئے تناظر کو بڑی ہنر مندی سے استعاروں اور علامتوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کے اکثر رموزوعلائم کے سوتے اساطیر سے پھوٹتے ہیں۔ ان کا تخلیقی عمل اجتماعی لاشعور کے احساسی نقو ش سے تشکیل پاتا ہے۔ ان کی نظموں پر ژونگ کے تصورات کے اثرات بہت واضح ہیں۔ فیض احمد فیض ایک ایسے نظام کی تشکیل کے خواہش مند تھے جس میں کسی قسم کا استحصال نہ ہو۔ انھوں نے دولت کی غیر مساویا نہ تقسیم، معاشرتی بے چینی بے روزگار ی جیسے موضوعات کو استعاراتی اور اساطیری حوالو ں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ان کی علامتو ں اور استعاروں میں اسا طیری دنیا آباد ہے تاہم انھوں نے اساطیر کو اپنی نظموں میں کہانی کے طور پر نہیں بلکہ تلمیح کے انداز میں برتا ہے۔
یوسف ظفر زرتشت اور برگساں کے نظریات سے حد درجہ متاثر تھے۔ وہ مظاہر فطرت کو روح کا حا مل تصورکرتے تھے۔ ان کے نزدیک مظاہر فطرت،حرکت، حرارت اور روشنی کے ماخذ ہیں جو روزازل سے موجود ہیں۔ انھوں نے اردو نظم کوایسے موضوعات اور رجحانات سے متعارف کرایا ہے جو زندگی کے ابتدائی زمانے کے رجحانات اور میلانات سے خاص مناسبت رکھتے تھے۔
قیومِ نظر مظاہر فطرت کے مختلف پہلوؤ ں کی فلسفیانہ توضیح پیش کرتے ہیں۔ وہ خارجی موضوعات پر داخلی اور قلبی واردات کو فوقیت دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اپنی ذات کو فطرت میں ضم کرکے داخل اور خارج کا حسین امتزاج تشکیل دیتے ہیں۔ ان کے ہا ں تہذیبی اور اساطیری عناصر بھی ملتے ہیں۔
اختر الایمان کی نظموں کا بنیاد ی مرکز اور محور سماجی اور معاشرتی موضوعات ہیں۔ انھوں نے تہذیبی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ اور شکست دریخت کو عمدگی سے بیان کیا ہے۔ وہ ماضی کے تجربات اور مشاہدات کو اپنی ذات کا حصہ تصور کرتے ہیں اور ان تجربات اور مشاہدات کے ذریعے اپنی ذات کو مرتب کرتے ہیں۔ انھوں نے فرد کی مٹتی ہوئی شناخت کو تقویت پہچانے کے لیے ماضی میں غواصی کی ہے۔ اُن کی نظمو ں کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ تو اظہار کے کسی تقلیدی راستے پر چلتی ہیں اور نہ ذاتی اظہار کا ابہام بنتی ہیں۔ مختار صدیقی کا تخلیقی سفر فرد کے آشوب سے شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ تہذیبی آشوب کی جانب بڑھتا ہے جس وجہ سے ان کے ہاں متنوع موضوعات ملتے ہیں۔ مختار صدیقی فلسفہ اور موسیقی میں گہر ی دلچسپی لیتے تھے انھوں نے موسیقی کی کیفیات اور اس کے راگوں کو جمالیاتی غنائی او رتہذیبی اور ثقافتی ورثے کو دریافت کیا ہے انھوں نے حال کو گرفت میں لینے کے لیے اساطیر کو استعمال کیا ہے جس سے فرد کا آ شوب تہذیب کے گرد پھیلا ہو ا معلوم ہوتا ہے۔ کیفی اعظمی کے ہا ں سفاک اور بے رحم زندگی کا سراغ ملتا ہے۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں مزدور اور متوسط طبقے کی محرومیاں، عورت کی مظلومیت، انسان کی تضحیک، سماجی نا انصافی، سیاسی بد عنوانی اور جذباتی نا آسودگی وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں سر مایہ دارانہ نظام سے بغاوت اور گہر ے سماجی شعور کا اظہار اساطیری علامتوں کے ذریعے کیا ہے۔
سلام مچھلی شہر ی نے اپنی نظمو ں میں اپنے عہد کے فرد کی سیاسی، سماجی اور ذہنی کشمکش کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے فرد کی نفسیاتی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے اسا طیر سے مدد لی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے میر اجی کی طرح ارضی مظاہر، تہذیبی اور ثقافتی عناصر کو اپنی نظموں میں سمویا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر معلوم سے نامعلوم کی جانب بڑھتا ہے۔ انھوں فرد کے داخلی اور ذاتی تجربے اور قدیم اجتماعی تجربے میں مماثلت دریافت کی ہے۔ ان کی ہاں فکر و وجدان کا ایک نیا جہان ملتا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا اپنی نظموں میں علامت سازی نہیں کرتے بلکہ علامتی اور اساطیر فضا تخلیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کے بقول :
’’وزیر آغا کی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ اور اساطیر کو بلاواسطہ طور پر استعمال میں نہیں لاتے بلکہ اس کچے مواد تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس سے اساطیر اور تلمیحات مرتب ہوئی رہتی ہیں۔‘‘(١١)
عزیزحامد مدنی جدید عہد کے انسان کی ذہنی الجھنوں اور وسوسوں کے اظہا ر کےلیے اساطیری علامات کا سہارا لیتے ہیں۔ انھوں نے رموزوعلائم کے ذریعے اپنی نظموں میں مفاہیم کی پچیدگیاں پیدا نہیں کیں۔ بلکہ آسان اور سادہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان کی شعری زبان ما قبل شعری روایت سے جڑی رہتی ہے۔ ضیا جالندھری فرد کی داخلیت کو موضوع بناتے ہیں۔ لیکن وہ کسی طرح بھی فرد کے خارجی ماحول کو اس کی داخلیت کے پس منظر میں نمایا ں کرتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کی نظمیں اپنے تخلیقی عہد کے آشوب کی عکاسی کرتے ہوئے بہت سے قدرتی مناظر اور اساطیر کو اپنے وجود میں سمیٹ لیتی ہیں۔ عرش صدیقی کی نظموں کی پہچان ان کا افسانوی اور داستانوی اسلوب ہے۔ انھوں نے اردو نظم میں افسانوی تکنیک انٹی کلائمیکس کو متعارف کروایا ہے۔ ان سے قبل اردو نظم میں اس تکنیک کا رواج نہیں تھا۔ عرش صدیقی بظاہر تولا شعور کا انکار کرتے ہیں لیکن لاشعوری جبلتیں پس پردہ ان کا پیچھانہیں چھوڑتیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’جادوگر‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
منیر نیازی کی پہچان دیو مالائی لحن ہے۔ انھوں نے جدید عہد کے انسانوں کے رویوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی ذہنی الجھنوں کو اجتماعی لاشعور کی مثالوں، اساطیر اور روایات کے ذریعے بیان کیا ہے۔ راقم نے اپنے غیر مطبوعہ مقالے ’’اکیسویں صدی میں اردو نظم کا اساطیری مطالعہ‘‘ میں رقم کیا ہے:
’’منیر نیازی اپنے عہد کے فرد کی نفسی ذہنی کیفیت اور اس کے ذہن میں جنم لینے والے خلفشار، الجھنو ں اور وسوسوں کو دیومالائی علامتوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ انھوں نے دیو مالائی علامتو ں کو اپنے تخلیقی تجربے کے ذریعے نئے معنی پہنانے کی کوشش کی اور افسانی شعور کی کئی پر تیں کھولی ہی۔”(١٢)
عمیق حنفی کی نظمیں جدید عہد میں فرد کی بنتی بگڑتی شخصیت کے ادراک کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کی نظمیں استعاراتی اور علامتی اسلوب کی حامل ہیں۔ شاذ تمکنت کی نظمیں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان اظہار کی ایک نئی جہت تخلیق کرتی ہیں۔ شاذ تمکنت نے اپنی ذات کے تضاد اور انتشار کو اجتماعی لاشعوراور اساطیر ی علامتوں کے ذریعے واضح کیا ہے۔
کمار پاشی کے ہا ں فرد کے ذاتی مسائل کےبجائے اجتماعی مسائل کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں حیرت واستعجاب، وسوسوں، اندیشوں، خوابوں اور متھ کونئے مفاہیم دینے کی سعی کی ہے۔ اور قدیم اساطیر سے استفادہ کرنے کے سا تھ نئے اساطیر تخلیق بھی کیے گئے۔ وحید اختر کی نظموں میں عصری زندگی کے مسائل کا گہراشعور ملتاہے جوان کی فلسفیانہ اور ناقدانہ سوچ کا عکاس ہے۔ ان کے ہاں خوابوں اور قدرت کے ٹوٹ جانے کا شدید احساس ہے۔ وہ فرد کے باطن میں اتر کر انسانی سرشت کود ریافت کرتے ہیں انھوں نے زندگی کی بدلتی ہوئی حالتوں کا مطالعہ گہر ی نظر سے کیا ہے اور وہ قدیم اور جدید فکر کو ہم آہنگ کرنے میں کافی کامیاب رہے ہیں۔
بیسوں صدی کی آخری تین دہا ئیاں ٹیکنالوجی کی ترقی اور عالمی قوتو ں کی منصوبہ بندی کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دہائیوںمیں عالمی قوتو ں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے خود کو ٹیکنالوجی کے میدان میں مضبوط کیاہے۔ اکیسو یں صدی کے منظر نامے کو تشکیل دینے میں مادی اور سائنسی تصورات نے نمایاں کرداراداکیا ہے۔ ایک طرف سائنسی ایجادات نے انسان کو خوشحال بنایا ہے اور دوسرے طرف اس کے ذہن میں اس کی ذات کے مدہوم ہونے کا خدشہ پیدا کیا ہے۔ انسان زندگی کے ارتقائی سفر کے دوران کسی عہد میں بھی اتناخائف نہیں رہا جتنا کہ اب ہے۔ مادی اور سائنسی ترقی نے سب سے زیادہ نقصان مذہب اور انسانی قدروں کوپہنچایا ہے۔ وہی انسان جو کبھی اشرف المخلوقات کے عہدے پر متمکن تھا اب اس کی حیثیت مشین کے پرزے سے زیادہ نہیں رہی۔ اکیسویں صدی کی صارفی اور میکانکی زندگی نے انسان سے اس کے خواب، امید اور یقین کو چھین لیاہے جس کی وجہ سے اسے اپنی ذات بے سمتی، انتشار کے دائروں میں گھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ زندگی کی برق رفتاریوں نے انسا ن کو اپنے ماضی، تہذیب، ثقافت، مذہب اور روحانی قدروں سے عاری کردیا ہے جس سے اس کی نفسیات اور رویوں میں ناقابل یقین تغیر آیا جسے بیان کرنے کے لیے نظم گوشعرا نے اساطیر اور داستانوی کردارو ں سے مدد لی ہے۔ اساطیر ی دیو مالائی اور داستانوی کردار نسل انسانی کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہیں جو ہر انسان کے ذاتی لاشعوراور احتماعی لاشعورمیں محفوظ ہیں اور گاہ گا ہے اس کے شعو ر پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے شعرانے زندگی کے بدلتے ہوئے تناظر معاشرتی ٹوٹ پھوٹ، بے یقینی کی صورت حال، انسانی نفسیات اور رویوں کو دیو مالائی اور دستانوی کردارو ں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کی نظم زندگی کا مطالعہ متعد دزاویوں سے کرتی ہے اور مرکزی موضوع کو وسعت اور گہرائی دینے کے ساتھ اسے متنوع مفاہیم سے ہم کنار بھی کرتی ہے۔ دراصل شمس الرحمٰن فاروقی نے داخلیت کی دھیمی، پر سوز، لچکدار اور موسیقی آمیز آواز کو پروان چڑھایا ہے جس کی ترسیل کی ابتدائی کوشش میراجی نے کی تھی۔ اُن کا مغربی ادب پر مطالعہ بہت وسیع ہے۔ لیکن ان کا مزاج مشرقی اور ان کی سوچ مابعد الطبعیاتی ہے۔ مشر قی خیال و فکر نے ان کے وجدان کو آسمانی رفعتوں سے ہم کنار کیاہے۔ چو نکہ ان کا داستانوی اور اساطیر ی کردار وں کا در آنا فطری بات ہے۔
شہر یار غیر معمولی قوت احساس اور فکر کے مالک تھے۔ انھوں نے کائنات کاتجزیاتی مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں انسان اور کائنات کے درمیان بنتے اور ٹوٹتے روابط کو اساطیر ی علامتوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کے ہاں تہہ دار اسلوب ملتا ہے لیکن ان کو فن پر مہارت تھی جس وجہ سے ان کے کلام میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہیں ہوا۔
شاہد شیدائی کی نظمیں ادارک اور احساس کی اس سطح کی غماز ہیں جہاں پر انسان کو اپنی ذات، زندگی اور کائنات کے اسراروں سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے ہندی اساطیر علامتوں کے زوال کے ذریعے تہذیبی زوال کو جاگر کیا ہے۔ بسا اوقات وہ عالمگیر اور آفاقی علامتو ں کو مقامی سطح پر جوڑ کر مقامی مسائل کے بیان میں آفاقیت پیداکرتے ہیں۔ ان کے ہاں قرآنی اسا طیری علامتیں اور تلمیحات بھی ملتی ہیں۔ کشور ناہید نے نسوانی طبقے کے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے اپنی نظموں میں اساطیر ی علامتو ں کو برتا ہے۔ ان کی نظمیں تانثییت کی عالمی تحریک سے بے حد متاثر ہیں لیکن انھوں نے تانیثی مقاصد کے ابلاغ کی خاطر شعری جمالیا ت کو نظر انداز نہیں کیا۔ انھوں نے محض نسوانی طبقے کی محرومیوں کو نہیں بیان کیا بلکہ مردو ں کے مساوی حقوق کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ افضال احمد خوابوں کے چھن جا نے کو تہذیب اور تاریخ کے چھن جانے کے مماثل سمجھتے ہیں۔ ان کی نظمیں مادی اور صارفی تصورات کے زیر اثر پنپنے والی سوچ اور فرد کے چھن جانے والے خوابو ں کے المیے کو پیش کرتی ہیں۔ افضال احمد عصری مسائل کو تہذیبی اورتاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں جس وجہ سے ان کی نظموں میں تہ دار معنی پیدا ہوجا تے ہیں۔ فہمیدہ ریاض فکری طور پر مارکسیت اور تانیثیت کی تحریکوں سے متاثر تھیں۔ انھوں نے اپنے سماج کے مسائل کو عالمی مسائل کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ ان کے ہا ں عورت مظلومیت کا استعارہ بن کر ابھرتی ہے جو استحصال زدہ طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی نظموں میں عورت کا آرکی ٹییکل تشخص ملتا ہے۔ انھوں نے انسان زندگی کے رشتو ں اور قدروں کا تقابل کا روباری رشتوں اور قدروں سے کر کے نئی زندگی کے نئے رشتے دریافت کیے ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے پرکھوں کی روایات، اساطیر اور مظاہر فطرت کو اپنی نظمو ں میں محفوظ کیا ہے۔ نصیر احمد ناصر کی نظمیں صارفی جبر سے فرد کے ذہن میں پیدا ہو نے والے خدشوں،الجھنوں اور وسوسوں کو پیش کرتی ہیں انھوں نے اساطیر ی عناصر کے ذریعے سیاسی اور سماجی مسائل، تاریخی جبر اور سائنسی انکشافات کا اظہارکیاہے۔ نصیر احمد ناصر نے نازک عصری مسائل کے ساتھ فرد کے لا شعوری اور داخلی مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔شاہین مفتی کی نظموں پر وجودی فکر کے اثرات غالب ہیں۔ ان کی نظموں میں منفی، اور انتہائی پسند رویے اور رجحانات نہیں ملتے بلکہ انھوں نے مثبت اور معتدل رویوں کو پروان چڑھا یا ہے۔ انھوں نے مشرقی عورت کی محبوریوں، محرومیوں اور اس پر سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور سماجی نظا موں کے ذریعے لگائی جانے والی مختلف پابندیو ں کو اسا طیر ی علامتوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ علی محمد فرشی نے فلسفیانہ سوچ اورتخلیقی عمل کے ذریعے اپنی نظموں میں اساطیر تخلیق کیے ہیں۔ ان کاکمال یہ ہے کہ وہ معمولی اور مقامی کرداروں کو ماورائیت کے پیکر میں پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم علینہ دیکھی جا سکتی ہے۔ علی محمد فرشی کا شعری تجربہ حسی، فکری اساطیر ی، مذہبی اورتاریخی عناصر کے امتزاج سے تشکیل پاتاہے۔ اقتدار جاوید کا ئناتی و سعتوں کو چھونے کےلیے جو دائرے تشکیل دیتے ہیں۔ ان دائروں کے اکثر نقطے اساطیر ی حوالوں پر مشتمل ہیں۔ جوان کی نظم کے کینو س کو وسیع کرتے ہیں۔ بعض اوقات اقتدار جاوید مقا می علامتوں کی جڑت اساطیراور دیو مالا سے اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہ آفاقیت کی حامل بن جاتی ہیں۔ دیو مالائی علامتوں کے ذریعے حال کوماضی سے منسلک کرنے کا فن اقتدار جاوید کو خوب آتا ہے۔ وہ اپنے اس فن کے ذریعے اپنی ذات کی پہچان قائم کرتے ہیں۔
رفیق سندیلوی کی نظمیں داستانوں کی طرح مافوق الفطرت ماحول کی حامل ہیں۔ رفیق سندیلوی اپنی نظموں میں داستان گو کی طرح حیرت، تجسس اور طلسماتی کیفیات کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ان کی نظموں میں ہیروازم کا رجحان ملتا ہے۔ جو ان کے کسی ہم عصر شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ ذیشان ساحل کو فطرت دشمن عنا صر اور رویوں سے سخت نفرت تھی۔ انھوں نے اپنی نظموں میں مظاہر فطرت کے مرقع پیش کرنے کے ساتھ اکیسویں صدی میں سماج کی بگڑتی ہوئی صورت کو اسا طیر کے ذریعے موضورع بنایا ہے۔
معین نظامی کے نزدیک انسان کی شناخت اپنی دھرتی، تہذیب ثقافت، اساطیر اور تاریخ سے ہے۔ اس لیے وہ اکیسویں صدی کے معاشرتی مسائل کو تہذیبی اور تاریخ تناظر میں دیکھتے ہیں۔ وہ معاشرتی جبر کو تاریخ کا تسلسل تصور کرتے ہیں اور اسے اساطیر علامتو ں کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ ارشد معراج کے پسندیدہ موضو ع اساطیر، تاریخ اور موسیقی ہیں۔ ان کی نظمیں جدید عہد کے فرد کا المیہ بیان کرتی ہیں۔ انھوں نے شعور اور لاشعورکے امتزاج سے نظمیں تخلیق کی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی نظموں میں اساطیر ی فضا قائم ہوگئی ہے۔
روِش ندیم کی نظموں کے اکثر کردار مختلف طبقوں اور قوتوں کے نمائندہ ہیں۔ انھوں نے یہ کردار اساطیر اور مذہبی تمثیلوں کے ذریعے تخلیق کیے ہیں۔ ان کی نظمیں عصری عہد کے تلخ حقائق کو موضوع بناتی ہیں عامر عبداللہ کی نظموں کا مرکز اور محور وقت ہے جو ایک تجریدی ہیولے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ان کے ہاں وقت ایک حیاتیاتی کل کی مانند ہے جس سے ان کی نظموں کے اکثر موضوعات پھوٹتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں مادی ترقی اور سائنسی ایجادات نے انسان کو ان گنت سایوں میں تحلیل کیا ہے۔ جس کا اظہار عامر عبداللہ کے ہاں ملتا ہے۔
علی اکبر ناطق مابعد اطبیعاتی عناصر میں بے حد دلچسپی لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں مابعد الطبیعات عناصر کو بڑی عمدگی سے زمانہ حال کے ساتھ پیوست کیا ہے۔ نارسائیت اکیسویں صدی کے فرد کا اہم مسئلہ ہے جسے دانیال طریرنے اپنی نظموں میں بڑی ہنرمندی سے بیان کیا ہے۔ وہ فرد کے وجود کا یقین النفس اور آفاق کا کلیت کے پس منظر میں کرتے ہیں۔ دانیال طریر موجودہ دور کی پچیدہ اور مشکل سچائیوں کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ اس جستجو کے دوران میں انھیں جو دشواریاں پیش آتی ہیں۔ وہ فکر ی اور وجودی سطح کو پچیدہ بنا دیتی ہیں۔ وہ عصری عہد کے مسائل کی گھمبیرتائوں کی معروٖضی صورت حال کو دیگر نظم گو شعرا کی طرح نظر انداز نہیں کرتے۔ ان کی اکثر نظمیں معنویت اور بے معنویت موجوداور ناموجود کی آویزش کو اساطیر ی علامتوںکے ذریعے بیان کرتی ہیں۔
موضوع کے لحاظ سے دیکھا جائے تو محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے عہد میں جدید نظم کا آغاز ہوتا ہے لیکن اس عہد کی نظم کی ہیئت میں کوئی قابل قدر تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اکثر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید نظم وہ نظم ہے جس نے مروجہ موضوع اور ہیئت دونوں سے انحراف کیا ہو۔ ایسی نظم سب سے پہلے ن۔م۔راشد ـ، میرا جی اور تصدق حسین خالد کے ہاں ملتی ہے۔ اسی وجہ سے راقم نے اس مطالعہ میں ن۔م راشد، میرا جی اور تصدق حسین خالد کے عہد میں فروغ پانے والی نظم کو ترجیح دی ہے۔اس نظم کی طرف راشد،میرا جی اور تصدق حسین خالد کے ہم عصر شعرانے اس قدر توجہ نہیں دی جس طرح اکیسویں صدی کے شعرا نے دی ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو راشد اور میرا جی کو اکیسویں صدی میں جانشین ملے ہیں جنھوں نے ان کے اجتہادی رجحان کو فروغ دیا ہے۔ اکیسویں صدی کے شعرا نے آگ اور خون کے منظر نامے،مادی ترقی اور صارفیت کے زیر اثر بگڑتی ہوئی انسانی قدروں،منافقانہ رویوں، ہم ذات کی جدائی کے دکھ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے بدولت مدہوم ہوتی ہستی کو اساطیری علامتوں اور مذہبی تمثیلوں کے ذریعے بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔
حوالہ جات
1۔ عبدالحق، مہر، ڈاکٹر،مقدمہ، ہندو صنمیات، ملتان : بیکن ہاؤس، ۱۹۹۳ء،ص۱
2۔ سبط حسن، ماضی کے مزار کراچی : دانیال، ۱۹۸۷ء،ص ۳۰۳
3۔ جیمزفریزر، شاخ زریں،مترجم: ڈاکٹر سید اعجاز،لاہور : مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱۳
4۔ Comte Fernand ” A Dictionary of Mythology words worths Edition Londoni, 1994, P16-17
5۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، اردو کا افسانوی ادب ملتان : بیکن بکس، ۱۹۸۸ء ،ص٦٤
6۔ یاسرجواد،سید،انسائیکلوپیڈیا ادیبات عالم، اسلام آباد : اکادمی ادبیات پاکستان، ۲۰۱۳ء، ص ۴۸۸
7۔ سر جان مارشل، محوالہ:ساجد علی، اکیسویں صدی میں اردو نظم کا اساطیری مطالعہ، مملوکہ لاہور یونیورسٹی لائبریری، ۲۰۲۰ء، ص ۷۲
8۔ شکیل الرحمٰن، ڈاکٹر، محولہ اجے مالوی ڈاکٹر، وید ک ادب اور اردو انڈیا: سروج شنکرپبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء ، ص ۳۴
9۔ رشید امجد، میراجی شخصیت اور فن، مملوکہ پنجاب یونی ورسٹی لائبریری، ۱۹۹۰ء ص۲۱۳، ۲۱۴
10۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو شاعری کا مزاج ، نئی دہلی، ۱۹۹۱ء ، ص ۳۴۹
11۔ انور سدید، ڈاکٹر، ڈاکٹر وزیر آغاایک مطالعہ، کراچی : مکتبہ اسلوب، ۱۹۸۳ء ، ص۶۲
12۔ ساجد علی، اکیسویں صدی میں اردو نظم کا اساطیر ی مطالعہ،ص ۱۹۳