منیر نیازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

منیر نیازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Munir Niazi ki shayari ka tanqeedi jaiza

منیر نیازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

منیر نیازی محمد علومی کے ہم عصروں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں ۔ وہ اردو کی جدید شاعری میں اپنے منفر دلب و لہجے اور موضوعات کی پیش کش کے الگ انداز کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کے مسائل و موضوعات کی تمام گوشوں کو شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کے خوبصورت اور رنگین گوشے بھی ملتے ہیں اور اس کے خوفناک اور سنگین تصویر میں بھی ملتی ہیں۔

جدیدیت میں فطرت اور کائنات کے دوسرے مظاہر کو جو اہمیت ملی اس کا عکس منیر نیازی کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ دھوپ، چاندنی، کھیت ، شجر، پرندے، پھول، جنگل، دریا وغیرہ منیر نیازی کی نظموں اور غزلوں میں مختلف زاویوں اور مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔

ان کی نظموں اور غزلوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے جو ان کی فکری اور فنی جہتوں کو روشن کرتے ہیں ” آغاز زمستاں میں، دوبارہ تیز ہوا اور تنہا پھول جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، ماه منیر، چھ رنگین دروازے، اس بے وفا کا شہر ان کے شعری مجموعے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی ان کی شاعری میں مظاہر فطرت کی پیش کش کےمتعلق لکھتے ہیں:

"قدرت کے خارجی مظاہر پر اردو میں بے شمار نظمیں لکھی گئی ہیں اور اشعار کہے گئے ہیں۔ مگر جس شاعر کے یہاں خارجی کائنات انسان کی باطنی کا ئنات کا ایک ناگزیر حصہ بن گئی ہے وہ اس دور میں منیر نیازی ہیں ۔
( منیر کی منور شاعری، از ندیم قاسمی مشمولہ چھ رنمین دروازے منیر نیازی مکتبہ منیر لاہور ، ص 125)

یہ بھی پڑھیں: منیر نیازی کی شاعری میں اساطیر کا رجحان pdf مقالہ

منیر نیازی کی شاعری میں فطرت کو انسانی وجود اور انسانی جذبات کو احساسات کے اظہار کا ایک طاقتور او رموثر وسیلہ بتایا گیا ہے۔ منیر نیازی خود کو فطرت کے اتنا قریب محسوس کرتے ہیں کہ اپنے درد اور کرب کو فطرت کے وسیلے سے ظاہر کرتے ہیں:

جب بھی تارا گرے گا اس پر

اس کا دل تو کانپے گا

نئی نئی خواہشوں کا چیتا

بڑے زور سے ہانپے گا

ابھی چاند نکلا نہیں

وہ ذرا دیر میں ان درختوں کے پیچھے سے ابھرے گا

اور آسمان کے بڑے دشت کو

پار کرنے کی اک اور کوشش کرے گا

(کوشش رائیگاں)

احمد ندیم قاسمی منیر نیازی کی شاعری کی انفرادیت سے متعلق رقم طراز ہیں:

"منیر نیازی کے دل و دماغ میں بیشتر ماضی کی یادیں تحریک پیدا کرتی ہیں مگر یہ یادیں اتنی تا بندہ اور پاکیزہ ہیں کہ ان کی بازیافت میں نہ حال کو کسی گزند کا احتمال اور نہ مستقبل کو کسی نقصان کا خطرہ ہے جو چیز خیالات و احساسات کو روشن کرتی ہو اور اس کے دائمی جذبات پر آفتاب طلوع کرتی ہو۔ اس کی ضرورت حال اور مستقبل دونوں کو ہے۔ منیر نیازی اپنی منور اور مثبت بازیافتوں کا شاعر ہے”

(منیر کی منور شاعری، از ندیم احمد قاسی مشموله چهارسو، ماہ اپریل 2005 ، راولپنڈی (19)

منیر نیازی جدید شاعری کے پیش روؤں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے جدید شاعری کے خدوخال سنوارے اور اسے ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ نئے دور کے انسان کی پیچیدہ زندگی اور نت نئے تجربات کو ان کی شاعری
نے زبان عطا کی ہے۔

ان کی نظموں میں وطن سے ان کی محبت کا اظہار ملتا ہے۔ وہ اپنے وطن کی خوبصورتی کے گیت گاتے ہیں اور اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ وہ ایک خوش حال اور پائیدار پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنے وطن کی زندگی سے وابستہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اسے اسلام کا ایک قلعہ تصور کرتے ہیں اور اس کے تعلق سے مثبت خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی نظم ” اپنے وطن کے لئے” میں وہ وطن سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں:

منیر نیازی کے شعری تصورات کا تنقیدی جائزہ pdf

زندگی اپنی وطن کی زندگی کا نام ہے نام اس کی زندگی میں روشنی کا نام ہے

اپنے اہل فکر سے اس کی خبر ہم کو ملی
اک نئی امید کی صبح سفر ہم کو ملی

یہ زمیں اسلام سے وابستگی کا نام ہے

زندگی اپنے وطن کی زندگی کا نام ہے

منیر نیازی اپنے مافی الضمیر کو مناسب اور مختصر الفاظ میں نظموں میں سمو دیتے ہیں۔ وہ الفاظ کی فضول خرچی نہیں کرتے۔ وہ جو بھی کہتے ہیں ناپ تول کر کہتے ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری میں اختصار کے ساتھ تہہ داری اور گہرائی ہوتی ہے۔

اشفاق احمد بجا طور پر کہتے ہیں:

"منیر کی شاعری کا بڑا کمال اس کی اختصار پسندی ہے ۔ اس کے ہم عصریوں مات کھا گئے کہ ان کی اڑانیں بہت وسیع تھیں اور بعد کی اڑا نیں افق کے چکروں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ مسائل کی طرح عمومی نقطہ عروج پر نہیں پہنچ سکتیں۔ دوسروں نے بیان شروع کیا اور بیان بند کر دیا۔ سننے والے سر دھنتے رہے ۔
منیر نے بات ختم کر دی ۔ سننے والے سوچنے پر مجبور ہو گئے ۔
(سرکہسار از اشفاق احمد، مجموعہ تیز ہوا اور تنہا پھول، مکتبہ منیر لاہور بس (12)

منیر نیازی کی نظموں میں ان کی غزلوں کی طرح ہی ایک پر اسرار فضا ملتی ہے۔ ان کی غزلوں میں دھیمی رحیمی حزینہ فضا ملتی ہے لیکن قوطیت اور یاسیت نہیں ملتی۔ وہ انسانی زندگی کی سچائیوں کو دھیمے دھیمے لہجے میں پیش کرتے

ہیں۔ ان کا اسلوب اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

منزل شب جب طے کرتی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی

کس کے لئے اس جگہ پر رک کردن اپنا بر باد کروں

ہر مکاں اک راز تھا اپنے مکینوں کے سبب
رشتہ میرے اور جن کے درمیاں کوئی نہ تھا

کچھ وقت بعد اس سے جو نفرت ہوئی مجھے
اس سے نئی طرح کی مسرت ہوئی مجھے

مبر اک طاقت ہے میری سختی ایام میں
اس صفت سے آدمی غم میں فغاں کرتا نہیں

وحدت سے کثرت کی طرف کثرت سے وحدت کی طرف

وائم اک بے چینی ہے

آخر کی حسرت کی طرف

مندرجہ بالا اشعارت سے منیر نیازی کی غزل کے اسلوب اور مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ نئی غزل کے نمایاں اور
ممتاز شاعر ہیں ۔ انہوں نے جدید غزل کو لطافت، نرم لہجہ اور ایک نیا طرز اظہار عطا کیا۔ وہ نئی غزل میں اپنی انفرادیت کی بدولت زندہ جاوید ہیں۔

مرتب کردہ: حسنی

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں