مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ممتاز شیریں اردو فکشن تنقید کی معمار اور ان کا منفرد تنقیدی خیالات

ممتاز شیریں کا تعارف اور تنقیدی سفر

ممتاز شیریں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے دوران ہجرت کر کے کراچی آگئیں ۔ یہ وہ دور تھا جب حلقہ ارباب ذوق پوری آب و تاب سے مختلف چوٹی کے ادبیوں اور نقادوں کی موجودگی میں تنقید میں مختلف تجربات کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک بھی زوروں پر تھی مگر ممتاز شیریں نے محمد حسن عسکری کی تنقیدی وژن کو بہتر سمجھا اور فنی حوالوں سے ادب پاروں کی تفہیم کرنا شروع کی۔

نظری و عملی تنقید کے دوران انھوں نے اعلیٰ درجے کے نمونے چھوڑے ہیں۔ انھوں نے افسانے کی تنقید پر خاص اہمیت دی ۔ افسانے میں انھوں نے افسانہ نگار منٹو کا انتخاب کیا اور منٹو کا مربوط اور منظم تنقیدی جائزہ لیا۔

جب ممتاز شیریں یہ کام کر رہی تھیں تو اس وقت فکشن کی تنقید کی طرف بہت کم لوگوں کی توجہ تھی ۔ ممتاز شیریں نے مختلف جدید فکری تحریکوں کا اثر قبول کیا اور اس طرح مشرقی تنقیدی نظام اور مغربی تنقیدی نظام کے ملاپ سے تنقیدی رویوں کا خوب صورت امتزاج کیا۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے

ان کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
"ممتاز شیریں اردو ادب کی ان مایہ ناز خواتین میں سے ہیں، جنھیں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت حاصل تھی اور دونوں زبانوں میں لکھتی تھیں تخلیق و تنقید دونوں میں انھوں نے ایک انمٹ نقش چھوڑا ہے ۔

افسانہ نگار، مدیر، اور مترجم ہر حیثیت میں ان کی ادبی تحریروں نے اردو کے باشعور قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے بہت کم مدت میں اردو ادب کو وہ کچھ دیا جو بعض بڑے ادیب بھی عمر بھر نہ دے سکے ۔ "(۶۷)

ممتاز شیریں کی افسانوی تنقید کے ابتدائی نقوش

ممتاز شیریں سے پہلے صرف سید وقار عظیم نے اردو افسانے کی تنقید کی طرف توجہ کی ۔ ان کے ہم عصروں میں بھی کسی نقاد کے ہاں نثر اور خصوصا افسانے کی طرف توجہ نہیں کی۔ "۱۹۴۳ء کے افسانے“ ان کا پہلا تنقیدی مقالہ تھا۔ اس کو نیا دور میں شائع کیا گیا۔ اس میں مختلف افسانوں کا جائزہ لے کر ان کا ادبی مقام اور ادبی قدر و قیمت جانچنے کی ایک بھر پور سعی ملتی ہے۔

یہ ایک نئی روایت تھی کیونکہ اس سے پہلے اس قسم کی مثال نہیں ملتی ۔ اس مقالے کو خوب سراہا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے فنی و جمالیاتی پہلوؤں کی طرف توجہ دیتے ہوئے ایک اور مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا ” تکنیک کا تنوع ” اس میں افسانے کے علاوہ ناول پر بھی تنقیدی نظر ڈالی گئی تھی۔ ان کے مجموعے ” معیار” میں بھی مختلف تنقیدی مضامین ملتے ہیں۔ جس سے ان کی تنقیدی بصیرت اور رجحان کا پتہ چلتا ہے ۔ ” معیار” کے دوسرے مضامین مندرجہ ذیل ہیں: "رجحانات کا دائرہ ", "طویل اور مختصر افسانہ”, "مغربی افسانے کا اثر اردو افسانے پر”, "فسادات پر ہمارے افسانے” ،” منٹو کا تغیر اور ارتقا”, "منٹو کی فنی تشکیل”, "پاکستانی ادب کے چار سال”, "ہاجرہ مسرور کی تیسری منزل” ۔ مندرجہ بالا وہ مضامین ہیں جن میں زیادہ تر افسانے پر بات کی گئی ہے ۔ انھوں نے نثر اور خاص طور پر افسانے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء دیں اس وقت جب ترقی پسند ادیب مارکسی تنقید کے علم بردار تھے ، وہاں ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی رجحان بھی سامنے آیا۔ اس رجحان میں دوسروں کے علاوہ محمد حسن عسکری کا نام نمایاں طور پر لیا جاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے ممتاز شیریں حسن عسکری کی تقلید میں اس رجحان کی طرف راغب ہوئیں اور مستقل طور پر لکھتی رہیں اس خیال کی تائید ان کے شوہر صمد شاہین بھی کرتے ہیں۔
"عسکری صاحب کے تبحر علمی ، ژوف نگاری، ادبی گہرائی اور شعور کی بہت قائل تھیں۔” (۶۸)

مغربی اور مشرقی تنقید کا امتزاج

ممتاز شیریں کا مطالعہ مغربی ادب کے حوالے سے کافی وسیع تھا۔ ان کی تنقید میں مغربی حوالوں کا جابجا استعمال ہے۔ اسی طرح مشرق کے تنقیدی نظام پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مغربی حوالوں کی مدد سے وہ مرعوب کرنے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ مغربی نقادوں اور مغربی تنقید کا مطالعہ کرنے کے بعد تکنیک کا شعور حاصل کر کے اپنی تنقید میں پیش کرتی ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے حوالے بہت مناسب اور سوچے سمجھے نظر آتے ہیں جن میں محض حوالہ نہیں ہوتا بلکہ اخذ شدہ شعور کا استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی تنقید میں دونوں مغربی و مشرقی رنگ جھلکتے ہیں۔

"ممتاز شیریں نے مغربی ادیبوں اور مغربی ادب کے حوالے سے کسی کو مرعوب کرنے کی سعی نہیں کی ہے ادب میں بعض آفاقی مماثلتوں اور مشابہتوں کا جائزہ لیا ہے ۔ اور ہندو پاکستان کے ان ادییوں کا تجزیہ کیا ہے، جو مغربی ادب سے استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔ ” (۶۹)

مشرقی و مغربی افسانہ نگاروں کا تقابلی جائزہ

ممتاز شیریں کا کمال یہ ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی افسانہ نگاروں کے درمیان مماثلتیں تلاش کرتی ہیں۔ جیسا کہ منٹو اور موپساں کی مماثلتیں تلاش کیں ہیں اس طرح انہیں غلام عباس ، حسن عسکری اور راجندر سنگھ بیدی کے ہاں چیخوف نظر آتا ہے اور یہ سب کچھ بغیر گہرے مطالعہ کے ممکن نہیں ہے۔ مغربی ادب کی مدد سے وہ مشرقی ادب کا تجزیہ کرتی نظر آتی ہیں۔

اس طرح مختلف ادیبوں اور افسانہ نگاروں کو مغربی تنقیدی پیمانوں پر جانچنے کی سعی کرتی ہیں ۔ انھوں نے مشرقی اور مغربی ادبیوں کے ہاں فنی اشتراک اور فنی تضاد کی دریافت کر کے ایک نیا تنقیدی مکتب وجود میں لائی ہیں ۔ اور ان موازنوں میں دلیلوں اور حوالوں سے کام لیا گیا ہے۔

"منٹو اور بیدی کا فرق چیخوف اور موپساں کی طرح رویہ کا فرق ہے۔ منٹو کا رویہ اگر سنکی نہیں (تو اپنے دور کے دوسرے افسانوں میں جب منٹو کو انسان کی انسانیت پر مکمل اعتماد تھا تو وہ سنکی بالکل نہیں رہا ) ایک حد تک سادی ضرور ہے۔

زندگی اور انسانوں کو اور انسان کے وحشیانہ ہیجانی جذبات کو عریاں کرنے میں اور اپنی تحریروں میں دھچکا پہنچانے میں منٹو کا رویہ موپساں کی طرح تقریبا سادی ہے ۔ اس کے بر خلاف بیدی کا نہایت ہی ہمدردانہ اور مشفقانہ جیسے چیخوف کا "(۷۰)

ممتاز شیریں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ کسی ایک موضوع پر لکھی جانے والی مختلف کہانیوں کا تجزیہ کرتی ہیں اور اس طرح مغربی افسانہ نگاروں کے ہاں بھی کسی ایک موضوع کا تجزیہ کرتی ہیں جس نے ان کو مشرقی و مغربی افسانہ نگاروں کے ہاں تضاد یا مماثلت نظر آتی ہے جس کو وہ پیش کر دیتی ہیں۔

"موپساں کو پڑھنے کے بعد بھی مجموعی طور پر انسان کی یہ تصویر مرتب ہوتی ہے کہ انسان میں بدی ہے ۔ بد صورتی ہے، غلاظت اور حیوانیت ہے لیکن انسانیت پھر بھی خوبصورت ہے ۔ منٹو کے یہاں خصوصیت سے منٹو کے دوسرے دور کے افسانوں میں انسان کی یہی تصویر مرتب ہوتی ہے۔ منٹو کے موضوعات بھی موپساں کی طرح انسان کی وحشیانہ ہیجانی جذبات سےتعلق رکھتے ہیں "۔ (۷۱)

ممتاز شیریں کی تنقیدی وسعت اور اثرات

ان کے تنقیدی موضوعات صرف افسانے تک محدود نہیں اگر چہ زیادہ فکشن پر تنقید کی مگر اس کے علاوہ بھی تنقیدی فن پارے ملتے ہیں۔ افسانے کی تنقیدی مطالعے میں انھوں نے زیادہ توجہ اسلوب ، کردار، پلاٹ اور تکنیک پر دی۔

تکنیک کے حوالے سے دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی اور نقاد اتنا زیادہ مواد فراہم کر سکا ہو جتنا ممتاز شیریں نے کیا اس سلسلے میں ان کے مقالے، تبصرے، خطوط ، اور جائزے وغیرہ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ فکشن پر ان کی آراء مدلل ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کی تنقیدی آراء میں ارتقاء نظر آتا ہے ۔ جیسا کہ خود لکھتی ہیں:
"افسانے کا از لی مآخذ روایتیں اور حکایتیں ہیں اور سب سے پہلی حکایتیں عبرانی ، یونانی اور عربی میں پائی جاتی ہیں ۔ قرون وسطی میں حکایتیں، سفر کی داستانیں اور رومان عام تھے لیکن مختصر افسانے کو بذات خود ایک ”فن“ کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی ۔ واشنگٹن ارونگ جو امریکہ کے سب سے پہلے افسانہ نگاروں میں سے ہیں ۔ اپنے افسانوں کو افسانہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایسی لفظی تصویر میں جو واقعات اور مقامات کی نمائندہ ہوں اور جو کہ خاکہ کہی جاسکتی مہیں لیکن خاکہ ہو یا حکایت آج یہ سب مختصر افسانے کی صنف میں آتے ہیں ۔ "(۷۲)

ممتاز شیریں مختلف ادیبوں کو ان کے فنی حوالوں اور کاوشوں سے نمایاں مقام دیتی ہے۔ انھوں نے جہاں منٹو اور قرۃ العین حیدر کا مغربی افسانہ نگاروں سے تقابلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہاں انھوں نے کرشن چندر، احمد علی اور عصمت چغتائی وغیرہ کو بھی کسی نہ کسی حوالے سے مغربی رجحان کے حوالے سے فنی اور ادبی مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔

متوازن تنقیدی انداز اور ہم عصر ادب پر رائے

ان کی تنقید کا انداز متوازن ہے۔ جس میں وہ کسی مغربی افسانہ نگار کو مشرقی افسانہ نگار پر فوقیت نہیں دیتیں اور نہ ہی کسی مشرقی فن کار کو برتر ثابت کرتی ہیں ۔ اس طرح تقابلی جائزہ لے کر مختلف افسانہ نگاروں کا ادبی مقام متعین کیا ہے اس دور میں مغربی ادب کا مطالعہ کیے بغیر مشرقی تنقید اور ادب کی بات کرنا مہمل سمجھا جاتا تھا اس لیے انھوں نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا اور ساتھ ساتھ مشرقی ادب کی طرف بھی بھر پور توجہ مرکوز کی ۔

ان دنوں اکثر نقاد اپنے ادب کو اہمیت نہیں دے رہے تھے اور آفاقیت کے خوش کن تصور میں آ کر ساری دنیا کے ادب کی طرف توجہ مرکوز کیسے ہوئے تھے۔ مگر ممتاز شیریں کو نہ صرف مغربی ادب پر عبور تھا بلکہ اردو تنقید و ادب کی خاص پہچان رکھتی تھیں ۔ اس لیے انھوں نے اپنے ہم عصروں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہم عصر ادب کے بارے ان کی رائے ہے کہ:
"ہم عصروں پر یا انفرادی طور پر ہم عصر ادیب پر لکھتے ہوئے کبھی مجھے جھجک محسوس نہیں ہوئی۔ہم عصر ادبیوں پر بلا جھجک لکھنا مشکل کام ہے میں نے ان پر لکھتے ہوئے حتی الامکان معروضیت اور لاتعلقی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی کے نام سے زیادہ اس کی تحریر سے غرض رکھی ہے ۔”(۷۳)

ممتاز شیریں نے بڑی خوبصورتی سے اپنے عہد میں شائع ہونے والے افسانوں کا جائزہ لیا ہے ۔ انھوں نے الگ الگ افسانوں کے جائزے بھی پیش کیے اور پورے ایک سال کے افسانوں کا جائزہ لے کر ایک رجحان کی نشاندہی بھی کی ۔ ان جائزوں میں رسمی جائزے ہی نہیں ہیں بلکہ پہلی بار ممتاز شیریں نے مضامین میں معتبر اور متوازن تنقید کی ہے۔

ان میں خوبیوں اور خامیاں بھی بیان کی گئی ہیں ۔ اسی طرح انھوں نے ایک نیا طریقہ کار نفسیاتی جائزہ لے کر مکمل آراء قائم کی ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ فنی خوبیوں اور زبان و بیان کے استعمال کو بھی زیر بحث لاتی ہیں ۔ اسی طرح پاکستانی ادب کے حوالے سے بھی ان کی آراء مستند ہیں:
"ممتاز شیریں کو انتظار حسین سے تحریک پاکستان ادب کے ہم نوا ہونے کے سبب ہمدردی تھی اور اس تناظر میں انھوں نے ان کے متعلق کافی لکھا بھی ہے۔ لیکن یہاں بھی دو اپنی تنقید کے اعتدال اور توازن کو برقرار رکھتی ہیں اور ان کے رویے میں کسی طرف جھکاؤ کا احساس نہیں ہوتا ۔” (۷۴)

فنی آزادی اور تنقیدی اصول

ممتاز شیریں عملی تنقید کے ذریعے ہر فن کار کا ادبی مقام متعین کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ وہ نہ تو بے جا کسی فن کار کی تعریف پر اترتی ہیں اور نہ ہی محض اس وجہ سے نظر انداز کرتی ہیں کہ وہ گریڈنگ میں نچلے نمبروں پر ہے۔ جس کے ہاں بھی ادبی و فنی سرمایہ نظر آتا ہے۔

اور وہ اس قابل سمجھتی ہیں تو اس کو ادبی تنقید کا موضوع بناتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلام عباس ، حیات اللہ انصاری، اختر حسین رائے پوری ، دیوندر سیتار تھی ، جمیل مظہری، آغا بابر اور علی عباس حسینی کے افسانوں پر بھی تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ ان کو افسانے کی تنقید میں اسلوب سے خاصی دلچسپی ہے۔ اسلوب میں بیا نیہ اور راوی سے خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ جملے کی ترتیب پر بھی خاص توجہ دیتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں جملے کی ترتیب درست نہ ہو تو پلاٹ سے کشش اور تاثر ختم ہو جاتا ہے ۔ وہ افسانے کو اہمیت اس لیے دیتی ہیں کیونکہ وہ جیتی جاگتی زندگی کا حقیقی اور فنی بیانیہ ہے ۔ ممتاز شیریں کے ہاں تنقید میں سیاسی وفاداری بالکل نظر نہیں آتی نہ ہی وہ طبقاتی تقسیم کی قائل ہیں۔ انھوں نے تخلیق کی اہمیت کے پیش نظر اپنی تنقیدی آراء دی ہیں وہ ایک ہی لہجے میں فن کاروں کی تصانیف کو پرکھتی ہیں۔ اس کے باوجود محمد حسن عسکری کی حمایت کی وجہ سے ان پر رجعت پسندی کے الزامات لگائے گئے ۔ ان کے بارے سلیم شہزاد نے لکھا:

"پاکستانی ادب کے چار سال پر ممتاز شیریں نے جتنا طویل اور جس پائے کا مقالہ سپر د قلم کیا ہے اس کا ساتواں حصہ بھی پاکستانی ادب کے چالیس سالہ انتخاب کے سینکڑوں صفحات کی جلدوں کے مرتبین اپنے انتخاب کے لیے نہیں لکھ سکتے ہیں۔” (۷۵)

تنقیدی مضامین اور نظریاتی وسعت

ان کے تنقیدی مضامین میں ” یا خدا” اور "کشمیر اداس ہے "دیباچوں کے طور پر لکھے گئے ہیں۔ ان میں انھوں نے مختلف مضامین کا تقابل کیا ہے اور تقابلی انداز اپنایا ہے ۔ اس طرح انھوں نے ” یا خدا ” اور” ان داتا” کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے اس طرح کشمیر اداس ہے“ کا تقابل ” پودے سے کیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں” یا خدا” در اصل "ان داتا” کی توسیع ہے ۔

معیار میں شامل ایک مضمون رجحانات کا دائرہ ہے یہ ایک الگ اور مختلف قسم کا مضمون ہے جن میں مغربی رجحانات کا مشرقی ادب پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ فکشن میں سر رئیلزم تمثیل ، شعور کی رو ، رمزیت وغیرہ کا سراغ لگایا گیا ہے ۔

سوشل رئیلزم کا نمایاں رجحان اردو کے جن لکھنے والوں کے ہاں ملتا ہے ان میں خواجہ احمد عباس، احمد علی، انتظار حسین ، شامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کے ہاں سوشل رئیلزم کے رجحان کی دریافت ممتاز شیر میں نے کی ہے۔ اسی طرح اپنے مضامین میں منفی ناول کا تعارف کرواتا ہے۔

ابو بکر عباد کی رائے

ابو بکر عباد لکھتے ہیں:
"منفی ناول کی ایک مثال ممتاز شیریں کا وہ مقالہ ہے جس میں ان کا تجزیہ اور تجربہ پسند ذہن پوری طرح واضح ہوا ہے ممتاز شیریں کے تمام تجزیوں میں یہ سب سے زیادہ مفصل اور مکمل ہے۔ ناول کے ایک ایک منظر، اس کی ایک ایک نئے اور کرداروں کی تمام حرکات و سکنات کا خوبی ،خوبصورتی اور دلچسپی سے کیا ہوا تجزیہ اس مقالے کی نمایاں خصوصیت بن گیا ہے ۔” (۷۶)

پاکستان سے وابستگی اور نظریاتی موقف

ممتاز شیریں نے ہجرت کے تجربے کو ایک روحانی تجربہ سمجھ کر قبول کیا ۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئی ۔ ان کو پاکستان کے مسائل اور تعمیر و ترقی کی بہت فکر تھی۔ ممتاز شیریں نے اس وقت صحت مند فکر کی تلقین کی اور پاکستانی ادب پر سیر حاصل گفتگو بھی کی۔

"پاکستان سے اس وابستگی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے محمد حسن عسکری کی تقلید میں پاکستانی اور اسلامی ادب کی تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا۔ بعض نقاد ان تحریکوں کو ایک نعر و یا شوشہ تصور کرتے ہیں جن کا مقصد محض ترقی پسندوں کو زچ کرنا یا ان کو اپنی دانست میں بے نقاب کرنا تھا ۔” (۷۷)
مگر ایسی بات نہ تھی بلکہ ممتاز شیریں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد اس کے استحکام اور تعمیر کی طرف توجہ دی جائے کیونکہ اس نئے ملک کے نئے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں اس لیے لکھنے والوں کو ان مسائل کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ قوم کی امیدوں کا ساتھ دے کر ایک نئے ملی شعور کو اجاگر کیا جائے۔
یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ دراصل ادیب کو کسی ایک مخصوص نظریے کی پابند نہیں دیکھنا چاہتی تھیں بلکہ وہ ادیب کی ذہنی آزادی کے حق میں تھیں۔ ان کے خیال میں ایک اچھا ادب صرف اور صرف ذہنی آزادی کے ہوتے ہوئے تخلیق ہو سکتا ہے۔ جیسا ک لکھتی ہیں:
"ادیب کا کام دھڑے بندی اور اختراع پردازی نہیں ۔ سستے نعرے لگانا اور گالی گلوچ پر اتر آنا نہیں ، ادیب کا کام لکھنا ہے۔ یہی اس کی سب سے بڑی ریاضت ہے لیکن ذہنی آزادی کے بغیر یہ کام سرانجام نہیں پاسکتا ۔” (۷۸)

حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسندوں سے اختلاف

ممتاز شیریں دراصل حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی نقطہ نظر سے متفق تھیں اس لیے ترقی پسندوں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مقصدی ادب در اصل ادب نہیں ہوتا بلکہ محض پرو پیگنڈہ ہوتا ہے ۔ ان کے خیال میں خاص مقصد کو لے کر اور صرف اس کا پر چار در اصل فن پارے کو ادب سے خارج کر دیتا ہے مقصدیت کو اولیت اور فنی باریکیوں کو نظر انداز کرنا دراصل غیر ادبی کام ہے۔

ترقی پسندوں سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان کے خلاف لکھتے ہوئے ان کے لہجہ تلخ ہوتا چلا گیا مگر پھر بھی وہ اپنی غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
"ترقی پسند تحریک کے مقاصد نیک ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کے زیر اثر اردو میں آج جو ادب تخلیق ہو رہا ہے وہ کہاں تک ان مقاصد کی تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور کہاں تک یہ سب کچھ جو ادب کہا جاتا ہے ، ادب ہے ؟ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کے زیر اثر ہندوستان میں اچھا ادب ( خصوصاً افسانوی ادب، جہاں تک ناولوں کا تعلق ہے ہمارا ادب بہت پیچھے ہے ) پیدا ہوا ہے جو کسی بھی ملک کے ترقی پسند ادب کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ترقی پسند ادب ایک بڑی حد تک مقصدی ادب ہے۔

اور مقصد کے پر چار کے لیے پرو پیگنڈہ بھی ادب میں شامل ہوتا جا رہا ہے ۔” (۷۹)
یہی وہ فرق ہے کہ جو کہ ترقی پسندوں اور فنی و جمالیاتی نقطہ نظر رکھنے والوں کے درمیان پایا جاتا تھا حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم سے فن کی باریکیوں اور فنی حسن کو مد نظر رکھ کر تخلیقات کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ جبکہ ترقی پسندوں کے ہاں مقصدیت پر زور دیا جاتا تھا یعنی کیا کہا جائے ؟ اور کس طرح کہا جائے کا فرق موجود تھا۔

ممتاز شیریں دراصل ترقی پسندوں کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتیں کہ کسی بھی رائج اور مقصدی موضوع پر کہانی لکھ کر اعلیٰ ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور بات جس کا ذکر وہ کرتی ہیں یہ ہے کہ ہمارے افسانہ نگاروں کے ہاں لہجے میں تلخی اور اسلوب میں جذباتی رنگ غالب آ جاتا ہے۔ جبکہ ان کا خیال ہے کہ مغربی افسانہ نگاروں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔

ممتاز شیریں کو اردو تنقید میں نمایاں مقام حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نہایت احسن طریقے سے اردو میں فکشن کی تنقید کے معیارات مقرر کیے۔ ان معیارات کو نظری تنقید کا درجہ حاصل ہے۔ ان نظری معیارات کے مطابق انھوں نے خود ہی عملی تنقید کے نمونے بھی پیش کیے۔ ان معیارات پر ان کی اپنی تنقید کو پرکھا جا سکتا ہے۔ ان کی ادبی و تنقیدی کاوشیں اس قابل ہیں جو ان کو اردو کے تنقیدی ذخیرے میں اہم مقام دلاتی ہیں۔ ان کے ہاں ایک نئی بات یہ سامنے آئی کہ انھوں نے خود اپنے افسانوں کا بھی اپنے مقرر کیے ہوئے معیارات کے مطابق تنقیدی جائزہ لیا۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں