کتاب کا نام۔۔۔۔ غالب اور مير كا خصوصى مطالعہ
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5612
موضوع : مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے کی تشریح
صفحہ نمبر : 217 تا 220
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
غزل (۷)
بنیادی تصور : – اظہار نیاز مندی
(1) مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
مطلب :۔ اس محبت کی یاد تازہ کی ہے جب محبوب کو گھر بلایا تھا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی تھی۔ ان پیالوں کو جن میں سرخ رنگ کی شراب بھر کر رکھی تھی ، چراغاں سے تشبیہ دی ہے اور یہی اس شعر میں خوبی ہے۔ مطلب واضح ہے۔
بنیادی تصور : – یار باده پیائی با حبیب
(۲) کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیٔے ہوئے
مطلب:۔ عرصہ ہو محبوب کے تیر مژگاں سے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اب پھر انھیں جمع کر رہا ہوں تا کہ پھر اپنے جگر کو ان کے تیر مژگان کا نشانہ بنا سکوں۔ خوب شعر کہا ہے۔
بنیادی تصور : آرزوئے خلش تیر مژگاں ۔
(۳) پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
مطلب : ۔ چونکہ مدتوں سے گر یہاں چاک نہیں کیا ہے اس لیے اس طرز احتیاط سے میرا دم الجھنے لگا ہے۔ یعنی پھر گر یہاں چاک کرنا چاہتا ہوں ۔
بنیادی تصور : – آرزوئے چاک گریباں ۔
(۴) پھر گرم تالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے ,سیر چراغاں کیے ہوئے
مطلب :۔ چونکہ میر چراغاں کیے ہوئے مدت گزر چکی ہے اس لیے پھر نالہ ہائے شہر بار سر کر رہا ہوں تا کہ سیر چرا غالب سے لطف اندوز ہو سکوں ۔
بنیادی تصور : شرر افشانی نا
(۵) پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صد ہزار نمکدان کیے ہوئے۔
مطلب : یہ مضمون تو پامال ہے مگر انداز بیان نے لطف دوبالا کر دیا ہے کہتے ہیں کہ عشق پھر میرے دل پرچے کے لگا رہا ہے۔ پھر میرے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ یعنی میرے دل میں آتش شوق پھر بھڑک اٹھی ہے۔
بنیادی تصور : شدت آتش شوق –
(٦) پھر بھر رہا ہوں خامہ مژگان بخون دل
ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے
مطلب: میں پھر اپنی پلکوں کو اپنے دل کے خون میں ڈبو رہا ہوں تاکہ ان سے اپنے دامن میں گل کاریاں کر کے اسے رشک چمن بنادوں۔
بنیادی تصور : – آرزوئے خوننا بہ فشانی ۔
(۷) باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوئے
مطلب :۔ دل نے محبوب کے تصور کا اور آنکھوں نے اس کے دیدار کا پھر سامان کیا ہے ۔ اس لیے ان دونوں میں رقابت کا بازار گرم ہو گیا ہے۔
بنیادی تصور : آرزوئے خیال و دید جاناں ۔
(۸) دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویران کیے ہوئے
پندار بمعنی خودداری، غرور، غیرت ، پاس عزت – پندار کا صنم کدہ یعنی جذ بہ خودداری ۔ کوئے ملامت سے کوچہ محبوب مراد ہے کیونکہ وہاں جا کر ذلت حاصل ہوتی ہے۔
مطلب : ۔ چونکہ محبوب کے کوچے میں جا کر بہت ذلیل ہوا تھا اس لیے وہاں جانے کا عہد کر لیا تھا۔ مگر اب میں نے اپنی خودداری کو ملیا میٹ کر دیا اس لیے پھر وہاں جانا چاہتا ہوں ۔
بنیادی تصور : آرزوئے طواف کو چہ جاناں۔
(٩) پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جان کیے ہوئے
مطلب :۔ میں پھر اپنی عقل و دل و جان کی پونچھی کسی خریدار ( معشوق) کے ہاتھ بیچنے پر آمادہ ہوں ۔ یعنی پر کسی پھر عاشق ہونا چاہتا ہوں ۔
بنیادی تصور : آرزوئے معاشقہ ۔
(۱۰)دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
گل و لالہ کنایہ ہے محبوبوں سے ۔ صد گلستاں نگاہ یعنی ایسی نگاہ جس میں بہت سے گلستان پوشیدہ ہوں ۔
مطلب : – میرا خیال اپنی نگاہ میں صد بارنگینیاں جمع کر کے حسینوں کے دیدار کی تلاش میں ہے یعنی میں بڑے اشتیاق کے ساتھ حسینوں کے دیدار کا آرزومند ہوں ۔
بنیادی تصور :- اشتیاق دیدار حسینان عالم
(۱۱) پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا
جاں نذر دلفریبی عنوان کیے ہوئے
مطلب :۔ میں پھر معشوق کے خط کو بڑے اشتیاق سے کھولنا چاہتا ہوں ۔ دوسرے مصرع میں اپنے اشتیاق کی تصریح کی ہے کہ عنوان خط کی دل کشی پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں ۔
بنیادی تصور :- آرزوئے مراسلت با محبوب
(١٢) مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاه رخ پہ پریشان کیے ہوئے
مطلب :۔ میں پھر کسی ایسے معشوق کو دیکھنا چاہتا ہوں جو کو ٹھے پہ اپنی زلفیں کھولے ہوئے بیٹھا ہو۔
بنیادی تصور : آرزوئے دیدار جاناں۔
(۱۳) چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے
مطلب : میں پھر اس بات کا آرزومند ہوں کہ کوئی معشوق میرے سامنے اپنی آنکھوں میں سرمہ لگائے ۔ اس انداز سے بیٹا ہو کہ اس کی پلکیں میرے جگر کے پار ہو جائیں۔
بنیادی تصور : آرزوئے چشم سر میں۔
(١۴) اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
مطلب : میں پھر کسی ایسے معشوق کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا چہرہ شراب سے سرخ ہو رہا ہو۔
بنیادی تصور : آرزوئے دیدار محجوب بادہ کش
نوٹ: اس پوسٹ کے مواد کو گروپ کے ایک ممبر نے تحریری شکل میں منتقل کیا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلطی یا کمی پائی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری لکھنے والے پر ہوگی، پروفیسر آف اردو اس کا ذمہ دار نہیں۔