معاشرہ ترقی میں یا تنزلی میں ؟ | Muashra: Taraqqi Mein ya Tanzuli Mein
مصنفہ تہنیت نزیر
وطن عزیز کو جہاں دیگر مسائل درپیش ہیں وہاں پر ایک اہم مسئلہ اج کے معاشرے کا ہے جس کا نوجوان ملک و قوم کا ہیرو تو ہے مگر کف افسوس !!
اج کا نوجوان خاص کر مرد ابنارمل ہے جس کی وجہ سے ایک خوشحال معاشرہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے میں اج معاشرے کے نہایت حساس اور گمبیر مسئلے پر بات کرنا چاہتی ہوں معاشرتی رکھ رکھاؤ کا توازن گرتا ہی جا رہا ہے ایک خوشحال معاشرے ایک ترقی یافتہ ملک کی ضمانت ہوتا ہے اب جو لوگ ابنارمل کا مفہوم سمجھتے ہوں گے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مردوں کو ابنارمل کیوں کہا گیا ائیے میں دلائل سے ذرا وضاحت سے بات کرتی جاؤں ابھی کچھ برس پہلے میرا پالا میرے نہایت ہی قابل قدر ٹیچر سے ہوا جنہوں نے کلاس میں کسی کی بغاوت کا ذکررازدرانہ طریقے سے کیا
کہ بچوں اپ کے ایگزامینیشن سینٹر میں جو میم ائی تھی وہ بھاگ گئ اپنے خاندان کی عزت کو خاک میں ملا گئی اور اس طرح کی بہت ساری باتیں کلاس میں اس مطلوبہ لڑکی کے بارے میں کی گئی جو میری سماعت سے ٹکرا رہی تھی اور میں خاموشی سے کان دھڑے سن رہی تھی خبر کو سنتے ہی کلاس میں سرگوشیاں ہونے لگی مگر میں حقیقت کو سمجھ چکی تھی
اور خاموشی سے ان سرگوشیوں کو بھی اپنی سماعت سے گزرنے کی اجازت دے رہی تھی اور مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی بلکہ خوشی ہوئی کہ جہاں کا مرد ابنارمل ہے وہاں کی ایک عورت نے تھوڑی سی ہمت کر دکھائی مگر اس عارضی خوشی کے ساتھ دکھ زیادہ اس بات کا ہوا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مرد اپنی اصل حقوق و فرائض سے اشنا ہی رکھنے والا ہوں
اس بھاگنے والی لڑکی نے بغاوت کی تھی وہ باغی کہلائی لیکن میں نہیں مانتی کہ اس نے کوئی برا کیا تھا اس نے تو اواز اٹھائی تھی اس فیصلے کی جو اللہ اور اس کے رسول نے اس کے بارے میں کیا تھا اگر معاشرے کے فیصلے پر اس کو یقین ہوتا تو وہ کبھی بھی بغاوت نہ کرتی اگرمان بھی لیا جائے کہ اس نے والدین کی عزت نا موس کی ہے اور معاشرتی سکون کے لیے ایک کلنگ ہے تو پھر سوچا جائے کہ ایسے کونسے عوامل تھے
کونسی ایسی وجہ ہو گی کہ وہ اس منزل کی راہی بن گی تو پھر شرم سے ھمارا سر جھکتا ہوا محسوس ہو گا کہ ھم خود ھی تھے جو اس کو سر بازار ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کرنے والے؟ مگر ایسی آگاہی کے لے بصیرت کا ہونا ضرور ہےہر بات ہر انسان کو سمجھ بھی نہیں اتی
عقل کی ریاضت بھی کچھ کھوج لگانے پر ہی ہمیں عطا کی جاتی ہے
بشرطیکہ ہم سچے ہوں مجھے اج تک یہ بات سمجھ نہیں ائی کہ والدین اپنی اولاد کی زندگی کا فیصلہ خود صادر کرتے ہیں اور پھر اسے نصیب کا لکھا کیوں بتاتے ہیں میری نسل اپنی زندگی کے فیصلے میں قید ہے حالانکہ شادی کا فیصلہ اس کا اپنا ہونا چاہیے بلکہ زندگی کے ہر میدان میں وہ خود مسائل کے حل تلاش کر سکے یہ شریعت کا حکم ہے
جب ہم خدا کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو وہاں پھر دین سے بھی بغاوت ہو جاتی ہے ہمارے ہاں لڑکی لڑکے کی شادی کا فیصلہ گھر کا سب سے بوڑھا انسان ایک اپنی پوری زندگی کا مرکزی فرض سمجھ کر کرتا ہے اس عمر میں تو اس کی اپنی عقل کو زنگ لگ جاتا ہے تو پھر وہ کسی کے عہد شباب کا فیصلہ کیوں کر بہتر کر سکے گا یہاں میرا مقصد اپنے اسلاف کی ابروئی کرنا نہیں بلکہ ان کی سوچ کو بدلنے کی ایک کوشش ہے
ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بےجا تقلید سے انسان یا تو باغی ہو جاتا ہے یا پھر ایک ایسے گڑے میں جا گرتا ہے جہاں سے وہ پھر چاہ کر بھی نہیں نکل سکتا میرے سامنے ایسی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں جو ہمارے بزرگوں کی بے جا تقلید اورغلط معاشرتی فیصلوں کے مرہون منت ہیں اور بقول بزرگوں کے یہ ان کے اپنے اپنے نصیب تھے
وہ باغی کہلائی کیونکہ اس نے صدیوں سے رائج خاندانی رسم و رواج اور روایتوں سے انحراف کیا اس نے اپنے حقوق کا اعتراف کیا بغاوت تو وہاں ہوتی ہے جہاں پر اصولوں کی پاسداری نہ ہو حقوق کھائے جائیں مگر اقبال کا شاہین تو ڈپریشن میں رہتا ہے ہم لوگ ماضی اور مستقبل میں رہتے ہیں حال تو ہمیں نظر ہی نہیں اتا دور حاضر کے معاشرے کی بگڑتی حالت کو دیکھ کر دورے جاہلیت کا منظر یاد ا جاتا ہے مگر تب صرف ظلم کی چکی میں عورت پیسی جاتی تھی مرد تو ظالم تھا
اور دوڑے حاضر میں مرد سب سے زیادہ مظلوم ہے قاری خود سوچیں کیا اج ہمارے معاشرے میں نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے ازاد ہیں تو اپکو اس حماقت کا علم ہوگا جووالدین اپنے بچوں کے ساتھ کرتے چلے ا رہے ہیں اور پھر توقع رکھی جاتی ہے ان سے محبت کی عزت کی
مجھے روسو کا یہ قول بہت اچھا لگتا ہے کہ (انسان فطرتا ازاد پیدا ہوتا ہے لیکن ہر جگہ وہ پابہ زنجیر ہے) ابتدا میں مرد کو ابنارمل اس لحاظ سے کہا گیا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ہی گھر کے فیصلے نہیں لے سکتا یہ بات تو بعید ہی ہے وہ تو اپنی زندگی کا فیصلہ بھی نہیں لے سکتا اگر کسی سے فیصلہ لینے کا گناہ سرزد ہو جائے تو اسے اس قدر ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے
کہ وہ معاشرے سے کٹ کر رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے پھر ایسے میں کس طرح ایک ترقی یافتہ معاشرہ جو ملک و قوم کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے وجود میں ا سکے گا اس کی شادی کا فیصلہ اس کے ماں باپ کریں شادی کے بعد اس کی بیوی کا فیصلہ اس کے ماں باپ اس کی اپنی نسل کا فیصلہ اس کے ہاتھوں ممکن نہیں دوسرا مسئلہ جوائنٹ فیملی سسٹم کا ہے جس کا حوالہ
نہ ہی قران میں ہے اور نہ ہی حدیث میں اللہ کا واضح ارشاد ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی درجات میں البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے
لیکن ہم نے مذہبی دستوروں کو صرف ایک مطالعہ کے طور پر حفظ کیا ہے ہمارا عمل نہیں بس دکھاوا ہے لیکن اج کا مرد ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی بنائی ہوئی غلط روایات کی دلدل میں پھنستا ہی جا رہا ہے جس معاشرے میں مرد اپنی زندگی اپنی شادی اپنی بیوی حتی کہ اپنی اگلی نسل کا فیصلہ نہ کر سکے تو کوئی شک نہیں
کہ وہ معاشرہ تباہی کے منازل طے کر رہا ہے یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تباہی بڑی عمر کی کچی عقل کے لوگ کرتے ہیں رشتوں میں زیادہ تباہی عدم ذہنی مطابقت سے پیدا ہو رہی ہے ہمیں حقیقت کو سمجھنا ہوگا ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ
ہماری انے والی نسل ان وجوہات کی بنا پر ابنارمل بنتی جا رہی ہے اور وہ وقت بعید نہیں جب ان کی ذاتی سرگرمیاں بھی ختم ہو جائیں گی جوائنٹ فیملی سسٹم کے تباہ کن نتائج پیدا ہو رہے ہیں بہت بھیانک اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے کردار جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہی پیدا ہو رہے ہیں بیچاری بیچاری کا لیبل جو ہم نے عورت کے ماتھے پر چسپاں کر دیا ہے وہ انے والی ہماری نسلوں کو (slow poisoning) دے رہی ہے
اتنی خاموشی اور معصومیت سے وہ زہر بچوں کے قندیل دماغ میں ڈال رہی ہے کہ عمر کا رسہ پار کرتے ہی وہ باغی بنتے جا رہے ہیں دین اسلام میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ عورت پر اس کے ساس سسر کی خدمت کا فرض ہے اسلام ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تلقین کرتا ہے
جس میں ہر چھوٹے بڑے کو برابر میں حقوق میسر ائیں کسی پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں البتہ بڑوں کی عزت و تقریم کا حکم دیا گیا ہے جوائنٹ فیملی سسٹم برا نہیں مگر اس کی ترویج کرنے والے لوگوں کے افعال برے ہیں ہمارے معاشرے میں زیادہ خسارہ بڑی عمر کی کچی عقل کے لوگ ہی کرتے ہیں جس کے باعث موجودہ صورتحال گمبھیر بنتی جا رہی ہے اگر اج اس مسئلے کو نظر انداز کر دیا جائے تو اگلی نسل پیدائشی ابنارمل بن جائے گی ائیں ہم سب اس بات کا عزم کریں گے کہ اپنی نسل کو مضبوط بنائیں
ہم ان کی زندگیوں کا فیصلہ بڑی عمر کی کچی عقل کے لوگوں کے ہاتھوں نہیں دیں گے اور نہ ہی خود کریں گے بلکہ اس قابل بنائیں گے کہ وہ اپنی زندگیوں کا لاہیہ عمل خود طے کریں ہم انہیں ابنارمل ہونےنہیں دیں گے ہمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عورت کے ساتھ ساتھ ایک مرد بھی برابر حساسیت اور جذباتیت رکھتا ہے صنف نازک کی طرح اس کے سینے میں بھی نرم گوشہ موجود ہے یہ بات الگ ہے کہ دونوں کے محسوس کرنے کا انداز الگ الگ ہے
اب حساسیت کا ہونا اس بات کی نشانی نہیں ہے کہ بندہ بات بات پر رونا اور مگر مچھ کے انسو بہانا شروع کر دے بلکہ حساس پن تو یہ ہے کہ سامنے والے کے خیالات اور احساسات کا علم ہو وہ اس کے جذبات کی قدر کرنے والا ہو اور اس جذبات کا رد عمل کے طور پر پیدا ہونے والے عوامل کو جاننے والا ہو
اور بڑی باریک بینی سے سمجھنے والا ہو مگر ہمارے ہاں اکثریت کو ایموشنز(Emotions) کا نہیں پتا؟؟
جس کی وجہ سے نوجوانوں میں چڑچڑا پن بے سودگی اور بے سکونی کے اثرات پیدا ہو رہے ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم نے معاشرتی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور ایک اہم مسئلہ ہمارے ہاں معاشرے میں بچوں کی تربیت میں غفلت اور لا پرواہی سے کام لیا جاتا ہے
بچہ تھوڑا سا تنگ کرے تو اس کو خاموش کروانے کے لیے موبائل پکڑا دیا جاتا ہے ایل سی ڈی لگا دی جاتی ہے اس طرح کے سو جتن کیے جاتے ہیں اور ماں جو بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے خود چند محلے کی عورتوں کے ساتھ چغلی جیسی بد ہواسیوں میں مشغول ہوتی ہے ایسے میں جو تعلق ماں اور بچے کے درمیان قائم ہونا تھا وہ تو جڑ سے ٹوٹ گیا دوسری طرف جوائنٹ فیملی سسٹم میں ماں کو اپنے بچے کو سنبھالنے کا وقت بھی ٹھیک سے نہیں مل پاتا پھر سوچا جائے
تو جس بچےنے کل کو اپنے ایک خاندان ایک معاشرے اور ایک ریاست کا عظیم شہری بننا ہے وہ کیسے خود کو مکمل کرے گا وہ تو ابنارمل بن جائے گا اگر یہ زندگی توازن کے دائرے میں رہ کر گزاری جائے انسانی جذبات اور ان کی نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے اگاہی حاصل ہو تو بہت سارے جھگڑے جو ہمارے خود ساختہ قول و فعل سے بنتے ہیں شاید کسی حد تک ناپید ہو جائیں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں
معاشرتی سکون کے دیرپا قیام کے لیے بہیت اچھی کاوش تھی