مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

مسز عبدالقادر بیسویں صدی کی ایک اہم خاتون افسانہ نگار

مسز عبدالقادر، جو کہ ۱۸۹۸ میں جہلم میں پیدا ہوئیں، کا اصل نام زینب خاتون تھا۔ تاہم، انہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں اپنی پہچان مسز عبدالقادر کے نام سے بنائی۔ ان کے والد کا نام مولوی محمد فقیر تھا، جو مذہبی کتب کے مصنف تھے۔ انہوں نے "آفتاب محمدی”، صحیفہ "سیف الصارم” اور "حدائق الحنفیہ” جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دور کے جید عالم (فاضل دیوبند) اور دینی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ "سراج المطالعہ جہلم” اور "الاخبار جہلم” کے مالک و مدیر بھی تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

مسز عبدالقادر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اس زمانے کے دستور کے مطابق انہوں نے فارسی میں "گلستان”، "بوستان”، "پندنامہ” اور "کریما” جیسی کتابیں پڑھیں۔ وہ صرف دو بہنیں تھیں۔ والدین نے دونوں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔ دینی، دنیاوی اور خانگی تعلیم کے لیے الگ الگ اساتذہ مقرر کیے۔ مسز عبدالقادر کا بچپن جہلم میں گزرا۔ انہیں بچپن ہی سے سیر و سیاحت کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ساری زندگی ویران اور سنسان جگہوں کو دیکھنے کی شائق رہیں۔ مظاہر فطرت، چاند، سورج، ہوا، آگ اور پانی کو دیکھ کر پہروں مقام حیرت میں گم رہتیں۔ لڑکپن میں ہر وقت سوچنے کی عادت سے بیمار ہو گئیں تو ڈاکٹر میر حسن اور حکیم قاضی عزیز احمد کے زیر علاج رہیں۔

دس سال کی عمر میں روحانی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کے حکم سے حافظ اللہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد حافظ صاحب کا انتقال ہو جانے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ تیرہ برس کی عمر میں ان کی شادی برادری ہی کے ایک ریلوے انجینئر میاں عبدالقادر سے ہو گئی۔

شادی کے بعد کی زندگی اور سفر

شادی کے بعد بھی ذہنی انتشار اسی طرح قائم رہا۔ اپنے میاں کے ساتھ کلکتہ، بنارس، آگرہ اور دلی وغیرہ کی سیاحت کی۔ یہاں تک کہ پورا ہندوستان دیکھا۔ کنکھل کے مندر، رشی کیش، لچھمن جھولا، ہری، ہرآشرم، اجنتا، ایلورا اور ایلیفینٹا کے غار، دولت آباد، گوالیار، ہتاس کے قلعہ جات ملاحظہ کرنے کے ساتھ ساتھ برہمن مت، ہنومت، نیل مت، بدھ مت، جین مت اور اگنی مت وغیرہ کے رسومات کے مطالعہ کے ساتھ شاستروں کے مہاتمی نسخہ جات کھنگال ڈالے۔ لیکن رہیں راسخ العقیدہ مسلمان اور پابند صوم و صلوٰۃ۔ حج کیا، لبنان، قاہرہ اور مصر میں بھی رہیں۔ تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی خوشیاں دیکھیں۔ فالج کے مریض میاں کے سوگ میں کہانیاں لکھیں۔ لیکن وہ بے کلی جوں کی توں رہی۔ موسم گرما پہاڑی مقامات پر، اپریل اور اکتوبر جہلم میں اور باقی وقت راولپنڈی، پشاور اور لاہور میں گزارتی تھیں۔

ان کے بیٹے سراج الدین ظفر نے ادب میں نام کمایا، وہ ایک اچھے شاعر تھے۔ پہلا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۶ میں لاہور میں انتقال ہوا اور شاہ بدر دیوان کے قبرستان واقع باغبانپورہ لاہور میں مستقل ٹھکانہ بن گیا۔

افسانوی سفر کا آغاز اور شہرت

اس دور کی دیگر خواتین قلم کاروں کی طرح مسز عبدالقادر بھی ابتدا میں اپنی تحریریں شائع کرانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ پھر ہمت کر کے کچھ افسانے مختلف رسالوں میں شائع کرائے۔ اولین مطبوعہ افسانہ "لاشوں کا شہر” ہے، جو ان کے پہلے افسانوی مجموعے "لاشوں کا شہر اور دوسرے افسانے” میں شامل ہے۔ اس کے بعد ان کے افسانوی مجموعے "صدائے جرس و دیگر افسانے”، "وادی قاف اور دوسرے افسانے”، "راہبہ اور دوسرے افسانے” منظر عام پر آئے۔ ان کے افسانوں نے بڑی شہرت پائی۔ مسز عبدالقادر کا شمار ملک کی ان آزاد خیال خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اظہار خیال میں مذہبی عقائد کی پابندیوں سے علیحدگی اختیار کی ہے۔

مسز عبدالقادر: روایت شکن افسانہ نگار

مسز عبدالقادر روایت شکن افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں روزمرہ کی زندگی سے ہٹے ہوئے واقعات ہیں۔ جن میں حیرت، استعجاب، تخیل پرستی اور مبالغہ آرائی ہے۔ خلاف قیاس قصوں پر مبنی یہ موضوعات داستانوں کے قریب ترین ہیں۔ مسز عبدالقادر عجائبات و طلسمات سے بھرپور فضا کی مصوری پر قدرت رکھتی ہیں۔ انہوں نے دیگر رومانوی ادیبوں کی طرح احساس کے بانکپن کو ترجیح دی ہے۔ مسز عبدالقادر کے افسانوں کے بارے میں مرزا حامد بیگ فرماتے ہیں:

"مسز عبدالقادر کا نام رومانی افسانے میں اسرار ہیبت ناکی کے حوالوں سے سامنے آیا۔ مسز عبدالقادر کا اولین افسانوی مجموعہ "لاشوں کا شہر اور دوسرے افسانے” ۱۹۰۸ میں تھا۔ "لاشوں کا شہر” سے "صدائے جرس” تک کے افسانوں پر ایڈگر ایلن پو کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں خصوصاً افسانہ "بلائے ناگہاں” اور پو کے "Black cat” کی مماثلت توجہ طلب ہے۔ پو کے افسانے میں مکان جل گیا لیکن دیوار پر جس میں قہرو غضب کے عالم میں کو چن دیا گیا تھا، بلی کی شبیہہ ابھر آئی، یہ مجبور و مقہور حیوان کا انتقام تھا، جبکہ "بلائے ناگہاں” میں دیوار سے شیر کی تصور غائب ہو جاتی ہے اور عین اس وقت ایک درندہ اپنی خون آشامیوں کی ابتدا کرتا ہے۔” "وادی قاف” کے افسانے مناظر فطرت اور "راہبہ” کے افسانے دنیا کی گمنام سیاحت پر مبنی ہیں۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں