مرزا رفیع سودا کی حالات زندگی

کتاب کا نام :اردو شاعری نمبر 1
کورڈ:5607
صفحہ: 38تا 42
موضوع:مرزا رفیع سودا کی حالات زندگی
مرتب کردہ: حسنٰی

مرزا رفیع سودا کی حالات زندگی

نام مرزا محمد رفیع اور سودا تخلص تھا۔ ان کے آباو اجداد کابل کے معززین میں سے تھے۔ سپہ گری ان کا آبائی پیشہ تھا۔ لیکن سودا کے والد مرزا شفیع نے آبائی پیشہ چھوڑ کر تجارت کو اپنایا اور ہندوستان چلے آئے۔ اور جہاں خوشی نصیبی نے انکا ساتھ دیا ان کی شادی فارسی کے مشہور انشا پرداز نعمت خان عالی کی بیٹی سے ہوئی۔ مرزا سودا انہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔

مرزا سودا کے سال ولادت کے بارے میں ہمارے مورخین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق سودا 1125ھ میں پیدا ہوئے جبکہ قائم 1106 ھ کو ان کا سال پیدائش قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی تحقیقات کے مطابق سود 1100 ھ کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ رام بابو سکسینہ نے پیدائش 1713ء اور وفات 1781 ء لکھی ہے جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے پیدائش کا سال 1706ء لکھا ہے۔۔

سودا کی تعلیم با قاعدہ طور پر ہوئی تھی اور انہیں اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا۔ انہوں نے شروع میں فوجی ملازمت کی لیکن جلد ہی چھوڑ دی۔ بعد میں اپنے خاندانی تعلقات کے باعث امرائے دربار میں رسائی حاصل کر لی۔ پھر بادشاہوں اور ان کے مقربین کی قدردانی کی بدولت تمام عمر فارغ البالی اور خوشحالی میں بسر کی۔

ان کا زمانہ ہماری تاریخ کا وہ دور تھا جب دلی کی مغل بادشاہت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور یہ شہر انتشار کا مرکز بن چکا تھا۔ چنانچہ سودا کو بھی دلی سے نکلنا پڑا۔ وہ تقریباً 17-18 سال تک فرغ آباد میں نواب احمد خان کش کے دربار سے وابسطہ رہے۔ پھر نواب شجاع الدولہ کی دعوت پر فیض آباد چلے گئے۔ وہ ان کا با قدردان تھا۔ آصف الدولہ نے تخت نشین ہونے کے بعد ان کو پائے تخت بنالیا۔ چنانچہ سودا بھی وہیں چلے گئے۔ اودھ میں انہوں نے خوش و خرم زندگی بسر کی۔ یہیں 1195ھ مطابق 1701ء میں انتقال کیا۔

سودا اردو کے مشہور شاعر شاہ حاتم کے شاگر د تھے۔ اس کے علاوہ خان آرزو سے بھی عقیدت رکھتے تھے۔ سودا اپنی زندگی ہی میں مسلم الثبوت استاد مانے گئے اور ان کی استادی کا چرچا ہر طرف پھیل گیا۔

مرز اسود اردو کے قادر الکلام اور بلند پایہ شاعر تھے۔ انہوں نے زبان کی اصلاح کرنے صاف و شستہ بنانے اور نت نئے موضوعات سے مملو کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نامانوس اور ہندی آمیز الفاظ و تراکیب کی جگہ فارسی کے دلاویز زبان اور شگفتہ الفاظ استعمال کر کے اردو کو حلاوت عطا کی نئے نئے الفاظ و محاورات تشبیہات و استعارات اور تلمیحات و تراکیب استعمال کرکے اردو زبان کو وسعت بخشی۔ مرزا رفیع سودا کو زبان پر پوری قدرت حاصل تھی ۔ وہ مشکل سے مشکل اور سنگلاخ سے سنگلاخ زمین میں بڑی روانی سے شعر کہتے تھے۔ اور عجیب و غریب قوافی ڈھونڈ لاتے تھے۔ فصاحت و بلاغت ان کے کلام کا جوہر ہے۔ نئی نئی بحر میں اور نئے نئے ردیف و قافیے ان کی پختگی اور جودت طبع کی گواہی دیتے ہیں۔ بلا شبہ سودا فن شاعری کے امام ہیں۔

سودا اردو کے سب سے بڑے قصیدہ گو شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن اس اعتراف عظمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی غزلوں کی اہمیت کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ میر اور سودا کا موازنہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سودا کی غزلوں میں میر کا سا سوزو گداز دردو اثر اور شیرینی و حلاوت نہیں۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ اہل ہے کہ سودا کی غزلوں میں ایک خاص شگفتگی، رعنائی خودداری اور غیرت ملتی ہے غزل کی دنیا میں ان کی آواز اور لہجہ دوسرے شاعروں سے مختلف ہے۔ وہ جملہ غزل گو شاعروں میں اپنی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے تغزل کی ایک شان ہے اس کا ایک وقار اور رکھ رکھاؤ ہے ان کی غزلوں میں اپنے دکھوں کو چھپانے کی کوشش ملتی ہے جو غالب کے علاوہ کسی شاعر میں نہیں ہے۔۔

بلا شبہ سودا کی نغزلوں میں وہ سوزو گداز، دردو اور شیرینی و حلاوت نہیں ہے جو میر تقی میر کی شاعری کی جان ہے۔ نقادان کرام اس نوع کا اعتراض کرنے سے قبل سودا کے مزاج و مذاق سماجی عوامل اور معاشرتی ماحول کو یکلخت فراموش کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ مرزا رفیع سودا طبعًا لطف مزاج طبعیت اور ہشاش بشاش انسان تھے۔ ظرافت سے انہیں ازلی مناسبت تھی۔ خوشحالی شان و شکوہ اور جاہ مرتبت کے سوا ان کی زندگی میں اور کسی چیز کو دخل نہیں تھا۔ چنانچہ ان کی شاعری اسی دور کا کامل مظہر اور مسرت و شادمانی کی ترجمان ہے۔

غزل گوئی کے لیے اس کے بر عکس حزن و یاس کے تجربات اور غم والم کی کیفیات زیادہ موزوں ہیں اور ان کے اظہار کے لیے زبان کی سادگی اور الفاظ کی طاقت درکار ہوتی ہے۔ لہذاسودا کو اس میدان میں اتنی
کامیابی نصیب نہ ہو سکی جتنی کہ قصیدہ اور ہجو میں۔ تاہم یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ صنف غزل گوئی میں سرے سے ان کا کوئی مقام ہی نہیں ۔ ان کی غزلوں میں بے شمار ایسے اشعار مل جاتے ہیں جو کسی بڑے سے بڑے غزل گو شاعر کے ہم پلہ ہیں۔

بہر حال سودا کی باغ و بیمار طبیعت در دو غم کے افسانوں اور رنج و غم تک محدود نہیں رہ سکتی تھی اس لئے ان غزلوں میں بڑی سر مستی اور جوش و خروش ہے۔ ان کا دور اگرچہ درد و غم اور حزن و ملال کا دور تھا لیکن وہ اپنی شاعری کی دنیا میں مسکراہٹ اور خوشی کے پھول تخلیق کرتے رہے اور یہیں ان کا کمال ہے۔ اس لئے کہ غزل زندگی کے ہر رخ ہر پہلو اور ہر جہت کا احاطہ کرتی ہے اور سودا کی غزل گوئی زندگی کے دھارے سے الگ کوئی ماورائی شے نہ تھی۔

سودا کی غزلوں میں ہر قسم کے جذبات و کیفیات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اپنے تخیل سے نہایت دل آویز تصویر بناتے ہیں اور محاکات کا حق ادا کرتے ہیں۔ اپنی شوخ و طرح دار تصاویر کو استعارات و تشبیہات کی مدد سے وہ نیا حسن اور رعنائی عطا کرتے ہیں۔ سودا اپنے اشعار میں دور از کار اور فرسودہ تشبیہوں اور استعاروں کی جگہ نئے استعارے اور تشبیہیں استعمال کرتے ہیں۔

سودا کی غزلوں میں جدت و لطف ادا کے ساتھ رنگینی ہے۔ وہ حکمت و فلسفہ کے مضامین کو اپنی غزلوں میں پیش کرتے ہیں۔ معنوی خوبی کے الفاظ کے انتخاب میں بھی وہ بڑی سعی و کاوش سے کام لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں سودا اردو غزل کے بہترین ترجمانوں میں سے ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل اشعار
زندہ و تابندہ ستارے ہیں۔

سودا جو ترا حال ہے ، اتنا تو نہیں وہ
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا کیا جانیئے تو نے اسے کس حال میں دیکھا
سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر

سودا کی ایک مشہور غزل کے چند شعر دیکھئیے

لہرائے ہے نسیم سحر کیا ہی ساقیا

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

اپنی تو عید اڑ گئی تیرے فسانے میں

گویا ہے مون یاوہ جام بلور صبح

گزرے ہے چشم تر سے مرے یوں وہ سلیم تن

جیسے کنار بھر سے ہو دے عیور صبح

مشہور ادیب نقاد اور شاعر مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی اس غزل کے بارے میں فرماتے ہیں :

یہ اشعار صرف مرزا کی قادر الکلامی اور زور طبع کابین ثبوت نہیں بلکہ اردو کے لیے مایہ ناز ہے۔ ایسی نادر

لطیف تشبیہات اور استعارات میر صاحب کے کلام میں نسبتا کم ہیں

واضح رہے کہ یہ اس نقاد کی رائے ہے جو میر تقی میر کا مقلد اور عاشق ہے۔ یہ کے بغیر نہیں رہا جاتا کہ سودا کی آنکھیں دیدہ بینا کی طرح واہ تھیں۔ وہ دنیا کی بو قلمونی کا غور سے
مطالعہ کرتے تھے۔ وہ معاشرے کے کسی مخصوص و محدود حصے سے ہی آشنا نہ تھے بلکہ ان کی چشم عالمگیر تھی۔ وہ صوفی شعراء کی ۸طرح عالم کی رنگینیوں میں ہمیشہ جلوہ یکتا کے متلاشی نہیں رہتے تھے۔ وہ کثرت کا زیادہ نظارہ کرتے اور اس کی نیرنگیوں سے زیادہ باخبر تھے۔ سودا جس طرح مظاہرات سے آشنا تھے اسی طرح وہباطنی کوائف کے اسرارو رموز سے واقف تھے۔ وہ محض اپنے جذبات و محسوسات کی دنیا ہی میں محدود ہو کر نہیں رہتے تھے بلکہ جملہ جزبات انسانی کے تماشائی تھے۔

المختصر مرزا رفیع سودا غزل گوئی میں منفرد انداز کے مالک ہیں۔ انہوں نے داخلیت آمیز خارجی شاعری کی بنیاد ڈالی اور اس طرح اردو ادب کو وسعت و ہمہ گیری عطا کی۔ علامہ نیاز فتح پوری نے ان کے متعلق صحیح رائے دی ہے کہ

"فن شعر و انشا کے اتنے ز بر دست ماہر تھے کہ اگر انہیں اردو کا امیر خسرو کہا جائے تو غلط نہ ہو گا”۔
یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ مرزا رفیع سودا کو زبان پر پوری قدرت اور شعر پر پوری حکومت حاصل تھی ۔ دقیق سے دقیق مضامین ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ ان کے کلام میں بھرتی کا نام نہیں تھا۔ سب اشعار کیل کانٹے سے دوست ہوتے ہیں گویا ان کا تغزل سانچے میں ڈھلا معلوم ہوتا ہے۔

ان ہی شاعرانہ خصوصیات کی بنا پر سودا کا اثر اپنے زمانے کے اور نیز بعد کے شعراء پر بہت کچھ ہوا۔ غالب جیسا جادو نگار بھی سودا کا قائل ہے۔ ذوق کا پورا کلام سودا کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ غرض سودا

کی استادی اور ملک سخن وری کی بادشاہت بڑے بڑے شاعر نے بھی انکار کی جرات نہیں کی۔ میر تقی میر جیسے نخوت پسند شاعر نے انہیں ملک الشعرائی کا مستحق قرار دیا۔ حکیم قدرت اللہ نے سودا کو سر آمد شعرائے فصاحت اور بے کنارہ سمندر گردانا ہے۔ اور اپنے وقت کے نامور ادیب و نقاد شمس العلماء نواب امداد امام اثر لکھتے ہیں :

سودا اردو کے شیکسپئیر ہیں”۔

اہم نکات
1۔سودا قادرالکلام شاعر ہے۔

2۔انہیں زبان پر قدرت اور شعر پر پوری حکومت حاصل تھی۔

3۔ سودا کے کلام میں چستی اورالفاظ کی نشست و ترکیب کمال درجے کی پائی جاتی ہے۔

4۔ سودا کے خیالات بلند ہیں۔

5۔ وہ پر گو بھی تھے اور خوش گو بھی !

6۔ سودا کی آنکھیں وا تھیں اور وہ دنیا کی بو قلمونی کا مشاہدہ کرتے تھے۔

7۔ وہ انسانی کوائف و جذبات کا بغور جائزہ لیتے اور غزل میں ان کی ترجمانی کرتے۔

8۔ان کے مضامین غزل میں تنوع ہے۔

9۔ سودا الفاظ و تراکیب کے استعمال میں غور فکر سے کام لیتے تھے۔

10 ۔ وہ ہمیشہ نئے الفاظ اور دیدہ زیب بندش کی تلاش میں رہتے۔

11- ان کی کلام میں جدید اور نادر تشبیہیں ملتی ہیں۔

12 – سودا کی غزلوں میں میر کا سا سوز و گداز نہیں لیکن ان میں ایک خاص شکفتگی از عنائی خوداری اور غیرت ملتی ہے۔

13 – دنیائے غزل میں سودا کی آواز لہجہ دوسرے شعراء سے مختلف ہے۔

14- سود اغزل گوئی میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

15۔ اردو غزل کو سجانے سنوارنے میں سودا کا حصہ کسی سے کم نہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں