مرزا غالب: اردو ادب کا نایاب گوہر
Contributed by WhatsApp Community Members
مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف بہ مرزا نوشہ، 1212ھجری کو شہر آگرہ میں عبداللہ بیگ خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ مرزا غالب نے اعلیٰ پائے کی نثر خطوط کی صورت میں دنیائے ادب کے سامنے پیش کی۔ غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، "غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔” اور سب سے بڑی خصوصیت انانیت ونرگسیت ہے۔ غالب ایک انا پرست شاعر تھے۔
شرح دیوان غالب | pdf
مرزا غالب اردو کے مشہور ومعروف شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ آپ کو اردو خطوط میں پایۂ درجے کاکمال حاصل تھا، اکثروبیشتر مزاحیہ لہجہ ہوتا تھا۔ آپ کی انہی خصلت کی وجہ سے آپ کو لوگ حیوان ظریف بھی کہتے تھے۔ عبد الرحمان بجنوری لکھتے ہیں کہ "ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں: وید مقدس اور دیوان غالب”۔
حالی نے انہیں حیوان ظریف کہا ہے۔ ہر بڑے فن کار کی طرح مرزا غالب کو اپنی عظمت کا احساس تھا، اس احساس کا اظہار نظم اور نثر دونوں میں جا بجا ہوا ہے۔ "آج مجھ سا نہیں زمانے میں شاعر نغز گوے و خوش گفتار”
مرزا غالب کو سمجھنے کے لیے شاہ عالم اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی تھوڑی بہت تاریخ خصوصاً ولی عہد کے حوالے سے پڑھنا چاہیے، ساتھ ساتھ بچپن سے وہ کن حالات سے گزرے۔
آپ بیتی غالب | pdf
غالب کے اردو کلام میں اصلاح و ترتیب میں بڑا ہاتھ علامہ فضل حق خیرآبادی رحمت اللہ علیہ کا ہے، اگرچہ مالک رام وغیرہ کچھ لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے۔ غالب کی حضرت علامہ سے دوستی تھی۔ انھی سے متاثر ہوکر غالب نے امتناع نظیر پر مثنوی بھی لکھی، جو کلیات غالب فارسی میں شامل ہے اور چھٹی مثنوی ہے۔
مرزا غالب نے 19 سال تک اردو میں شعر کہا۔ اس دوران فارسی میں کبھی کبھار شعر کہہ لیا کرتے، پھر اس کے بعد 35 سال تک فارسی میں شعر کہا۔ مرزا غالب کا سب سے مستند دیوان ان کی زندگی میں شائع ہونے والا چوتھا دیوان تھا، جس کی پروف ریڈنگ انہوں نے خود کی تھی۔
غالب آگرہ میں پیدا ہوئے۔ مولوی محمد معظم، جو اس دور کے مشہور عالم تھے، ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب الہی بخش خان معروف کی صاجزادی سے ہوئی، جو ترکی النسل تھی۔ بچپن میں یتیم ہوگئے تھے۔ غالب نے اپنی زندگی کا سارا وقت دہلی میں گزارا۔ انھوں نے جنگ آزادی کے نتیجے میں دہلی کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ غالب اردو شاعری کے لئے باعث فخر ہے۔
"تجھ سے قسمت میں مری فقل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر پھر گھر یاد آیا”
غالب کا شمار اردو ادب کے ان نامور شعراء میں ہوتا ہے جن کے بغیر اردو ادب اپنی اصل جدید اور ترقی یافتہ شکل سے محروم ہے۔ اردو ادب میں غالب کا شاعری میں ایک دیوان اور نثر میں خطوط شائع ہو چکے ہیں۔
شاعری میں موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے اگر غالب کا جائزہ لیا جائے تو حسن و جمال، عشق و محبت، جدت ادا، ندرت خیال، تشکک پسندی، انانیت سادگی و سلاست اور ساتھ میں مشکل پسندی اتم موجود ہے۔ جبکہ خطوط میں ایسی نثر بیان کی ہے جو کہ اردو ادب میں ایک نیا اور منفرد انداز خاص ہے، جو ان سے پہلے اردو ادب میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
مجموعی طور پہ میں یہ کہ سکتا ہوں غالب کا نام اردو شاعری اور نثر میں نایاب گوہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ "رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج، مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں”۔ غالب آفاقی انسانی اقدار کا مالک ہے، اس کے شعر میں ایسا جادو ہے کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ یہ تو میرا ہی غم بیاں کر رہا ہے، میرا ہی دکھ ہے یہ۔
دیوان غالب اردو کے بہت سی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ اس کا بہترین پنجابی ترجمہ اسیر عابد نے کیا ہے۔ ترجمہ بہت خوبصورت ہے اور اس کی اشاعت بھی بڑے خوبصورت انداز میں ہوئی ہے۔ اس کے ایک صفحے پر اردو متن اور اس کے سامنے والے صفحے پر پنجابی ترجمہ ہے۔ اسیر عابد نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ردیف قافیہ بھی غالب والا ہی رہے۔
غالب کی انا پسندی حد درجہ انا پسند مگر تکبر اور غرور سے پاک تھی۔ (انا پسندی کہتے ہیں اپنے دور کے تمام شعرا کو ماننا مگر ان سب سے بہتر خود کو جاننا کہ مجھ میں یہ صلاحیت ہے)۔ انا پسندی کی وجہ خود کے علم و فکر سے واقفیت، ان کے کلام پر فارسی لوگ یعنی ایرانی فخر کرتے تھے۔
غالب دلی میں بذلہ سنجی و حاضر جوابی کے لئے کافی مشہور تھے۔ ایک دفعہ اپنے دوست حکیم رضی الدین کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کہ پاس سے ایک گدھا گزرا، گدھا آم کے چھلکے کو سونگھ کر گزر گیا (چونکہ غالب کو آم بہت پسند تھے)۔ تو غالب کے دوست رضی الدین نے غالب کی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا! "دیکھو گدھے بھی آم نہیں کھاتے”۔ اس پر غالب نے فوراً جواب دیا "گدھے ہی ہیں جو آم نہیں کھاتے”۔ لہذا غالب کی بذلی سنجی بھی خصوصیات میں آتی ہے۔
غالب کی تصانیف میں شامل ہیں:
فارسی:
- پنج آہنگ: فارسی نثر
- مہر نیم روز
- دستنبو
- نامہ غالب
- سبد چین
- کلیات فارسی
اردو تصانیف:
- دیوان غالب
- تیغ تیز
- مکاتیب غالب (خطوط)
- عود ہندی (خطوط)
- اردوۓ معلیٰ (خطوط)
- نکات ورقعات غالب
- قادر نامہ
- قاطع برہان
- لطائف غیبی
نسخہ عرشی کو مستند ترین کہا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں غالب کا تمام کلام جمع کیا گیا ہے۔ جب دیوان غالب کا تیسرا ایڈیشن شائع ہو رہا تھا تو اس میں غالب کی وہ غزلیں شامل کی گئیں جو دیوان غالب میں نہیں تھیں۔ اس پر غالب نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ایسا کرنے والے کو ولد الحرام تک کہا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دیوان غالب چوتھے ایڈیشن میں شائع شدہ کلام کے علاوہ باقی اردو کلام منسوخ کر دیا تھا۔
طنز و ظرافت غالب کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ہے: "ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”۔
"ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب! ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا”۔
"موت کا ایک دن معین ہے،
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی”
یہ شعر سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔
"کاؤِ کاؤِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ، صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا”۔ غالب کی جدت طبع کی جولانیاں ان کے کغالب کے نجی خطوط کو ادب میں ایک مقام حاصل ہے۔ کلاسک کادرجہ رکھتے ہیں غالب کے خطوط۔ بھی ایک وقت میں سفر نامے، آب بیتی، خاکہ نگاری کی جھلکیاں ملتی ہیں ان خطوط میں۔
خالص تصوف تو ان کی شاعری میں نہیں پایا جاتا، کہیں کہیں وحدتِ الوجود پر مضامین ملتے ہیں۔ آپ کی ذات میں تصوف نہیں تھا البتہ آپ کی شاعری میں تصوف کی جھلکیاں ملتی ہیں لیکن میرے ناقص علم کے مطابق وہ ایک تکلف و تصنع ہے کیوں کہ غالب جام و سبو کے رسیا تھے۔
Abstract
This post explores the life and literary contributions of Mirza Ghalib, one of the most celebrated poets of Urdu literature. Born in Agra in 1797, Ghalib was not only a prominent poet but also an accomplished prose writer known for his witty and humorous letters.
His work reflects profound themes of love, beauty, and existential inquiry, making him a unique figure in literary history.
The post highlights Ghalib’s poetic style, his famous couplets, and the historical context in which he lived, including his interactions with notable personalities of his time. Additionally, it discusses his mastery over both Urdu and Persian literature, his influence on subsequent writers, and the significance of his letters in shaping Urdu prose.
Overall, the post provides a comprehensive overview of Ghalib’s enduring legacy in the world of literature.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں