میر تقی میر اردو غزل کا شہنشاہ
موضوعات کی فہرست
میر تقی میر شخصیت اور زندگی
اصل نام میر محمد تقی جبکہ میر ، ان کا شخص تھا۔ میر 1723ء میں اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا جو علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ میر تقی میر نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر اپنے والد اور ان کے دوست سیدامان اللہ سے حاصل کی۔
دس سال کی عمر میں میر کے والد کا انتقال ہو گیا۔ والد گرامی کا سایہ اٹھتے ہی میر کی زندگی میں درد والم کی نہ ختم ہونے والی داستان نے جنم لیا۔ میر بہت ہی حساس طبعیت کے مالک تھے ، والد کی وفات کے بعد بڑے بھائیوں کے سلوک سے تنگ آکر بارہ سال کی عمر میں گھر سے نکل پڑے اور کچھ دن ٹھوکریں کھا کر واپس گئے مگر یہ واپسی مختصر ٹھہری چونکہ کچھ عرصے کے بعد معاشی بد حالی اور تنگدستی نے گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
جب یا تو آگرہ کو چھوڑ کر دہلی چل گئے۔ دہلی میں میر کے خالو سراج الدین خان آرزو نے میر کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ خان آرزو خود بہت اچھے شاعر تھے۔ میں نے اپنے تذکرے ” نکات الشعراء ” میں خان آرزو کا ذ کر بہت محبت اور ادب سے کیا ہے۔ سراج الدین خان آرزو کے علاوور ٹی میں میر جعفر سعادت علی خان نے بھی ان کو کافی سہار او یا اور میر کی تربیت اور پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ میر جس کی شاعری کی ابھی ابتدا تھی یہاں دلی میں ان کی شعر گوئی کو بڑی تقویت ملی۔
دہلی کے قیام میں ان کی شاعری کو پختگی اور عروج حاصل ہوا جس نے انہیں دور دور تک مشہور کر دیا ۔ دہلی کو کسی کی ایسی نظر لگی کہ جس کے چرچے ہندوستان اور فارس میں ہوا کرتے تھی برباد ہو گئی، آئے دن دہلی پر لشکر کشی کی جاتی مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے مرہٹے ، جاٹ۔ روہیلے حملہ کر دیتے ، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے حملوں نے دلی کو اور بھی کمزور کر دیا۔ اب کہ دلی ایسی برباد ہوئی کہ اس کا آباد ہونا بہت مشکل تھا۔
ہر کس و ناکس پریشان حال تھا ایک طرف جان بچانا مشکل تھا تو دوسری طرف لوگ معاشی بد حالی کا شکار تھے ، حالات اس قدر خراب تھے کہ لوگوں نے ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی، سلطنت کی تباہی نے میر کو بھی متاثر کیا۔ پہلے تو پریشان حال ہونے کے باوجود میر ثابت قدم رہے اور دلی کو نہ چھوڑا مگر آخر کار مجبور ہو کر انہیں ولی کو چھوڑنا پڑا۔
دہلی کے اجڑ جانے پر آپ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں لکھنو چلے آئے اور یہاں ان کی بڑی قدر و منزلت ہوئی۔ اگرچہ دربار سے زیادہ عرصہ تک تعلق نہ رہ سکا پھر بھی یہاں میر کی باقی زندگی آرام سے گزری۔ آخر کار 1810 عیسوی میں یہیں ان کایر انتقال ہوا۔
میر تقی میر مکمل معلومات | PDF
شاعرانہ عظمت
میر کو اردو کا بہترین غزل گو شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ میر کے بعد جو بھی بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں انہوں نے میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ میر کی زندگی مصائب میں گزری، اس لئے ان کے کلام میں حزن و ملال، درد و غم کا شدت کا احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے جو کہ فطری بات۔
اپنی ذات کے دکھ ، تنگدستی، عشق کی ناکامی ، اپنے رشتہ داروں کی سرد مہری اور دلی کے اجڑ جانے کا احساس اور غم ان کی شاعری میں سے جھلکتا ہے۔ میر کی غزلوں میں درد والم کے ساتھ سوز و گداز اور روانی پائی جاتی ہے۔ غزل کے لیے ان کی طبیعت اور انداز موزوں تھے اس لیے وہ غزل کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔
میر نے شاعری کی تعلیم و تربیت اپنے ماموں خان آرزو اور میر جعفر علی سے حاصل کی۔ یہ وہ عہد تھا جب شاعری فارسی سے ریختہ (اردو) کی طرف گامزن تھی، ولی کے بعد بہت سے شعراء نے ریختہ میں شاعری شروع کر دی تھی،
میر نے اپنی شاعری کی بنیاد ریختہ (اردو) پر رکھی تھوڑے ہی عرصی میں میر اپنی عمدہ شاعری کی وجہ سے دہلی اور لکھنو میں مقبول ہو گئے
مختلف امر اور وسانے ان کی ہمت افزائی کی۔ میر نے اپنی زندگی شاعری کے لیے وقف
کردی۔ شاعری ان کی زندگی کا اہم جزو بن گئی۔ محمد حسین آزاد نے انھیں اردو زبان کا قدی جوہری لکھا ہے۔
تخلیقات
میر تقی میر نے شاعری کے چھے (6) دیوان چھوڑے ہیں۔ ان میں ان کی جملہ اصناف سخن مثلاً قصیدہ، مثنویاں، مرثیے وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تذکرہ "نکات الشعراء ” اور آپ بیتی، "ذکر میر ” بھی موجود ہے۔
میر تقی میر اور اردو غزل
اردو شاعری خصوصاً اردو غزل میں میر کا مر تبہ بہت بلند ہے۔ میر کی شاعری ایک بیکراں سمند رہے جو اپنے دامن میں اتھا گہرائی رکھتی ہے۔ میر کی شاعری یاسیت اور قنوطیت کے باوجود غم کی تیز لے رکھتی ہے جو صرف ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ کروڑوں کو اپنا ہمنوا بناتی گئی۔ ان کی شاعری کی غنائیت، سوز و گداز، نغمگی اور دلکش اسلوب نے میر کو اردو کا سب سے بڑا غزل گو بنادیا ہے۔
قاری میر کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے یہی ان کی شاعری کا کمال ہے۔ اردو غزل گو شعراء میں میر کو وہی شاعرانہ عظمت حاصل ہے جو فارسی شاعری میں حاظ کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر کو شہنشاہ غزل” اور "خدائے سخن ” جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔ اور اس میدان میں کوئی ان کا حریف نہیں۔
درد و گداز
اردو شاعری کو در دو اثر اور سوز و گداز سے مالا مال کرنے والے میر تقی میر ہی ہیں ۔ ان کے
در دو غم کا سر چشمہ ان کی ذات اور زمانہ دونوں ہی تھے۔ ان کی شاعری ایک دکھے ہوئے دل کیآواز اور جاگیر دارانہ تمدن کی مجروح انسانیت کی کراہ تھی۔ میر کی شاعری کو المیہ رنگ و آہنگ انطوفانوں نے بخشا تھا جن سے وہ اپنی ذاتی زندگی اور اپنے ماحول دونوں میں گزرے تھے۔
میر کی غزل کی خصوصیات
میر کا تصور غم
میر کی شاعری درد و غم، رنج والم اور ان کے آنسو کی ترجمان ہے۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری کو غم کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ گویا غزل نہیں ان کا غم حقیقت کے پردے سے نکل کر غزل کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ بقول مجنوں گورکھ پوری ” میرالم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ہیں "۔ میر ساری ساری رات روتے ہیں۔ روتے روتے یا تو انہیں جنوں ہو جاتا ہے یا پھر آنسوں کی جگہ لہو آنے لگ جاتا ہے۔
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
میر کا تصور غم تخلیقی اور فکری نوعیت کا ہے یہ مایوسی ہر گز پیدا نہیں کرتا۔ اس غم کی بدولت میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر قاری میں ضبط و سنجیدگی اور متحمل پیدا ہوتا ہے۔
میر حزن والم سے دو چار ہونے کے باوجود بھی شکستگی کا احساس نہیں ہونے دیتے بلکہ اسے فرحت و نشاط میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمارے احساسات و جذبات اور افکار و نظریات میں وہ برداشت اور سنجید گی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح
معنوں میں تحمل کہا جاتا ہے
محلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مرمر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی
دردمندی سے مراد زندگی کے اندر در پیش آنے والے تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک ہے۔ صرف ادراک ہی نہیں بلکہ جتنا ممکن ہو سکے ان تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی اس میں شامل ہے۔ دردمندی میر کی اپنی زندگی کے تضادات سے جنم لیتی ہے۔ میر کہتے ہیں
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ ہے
دردمندی میں کئی ساری جوانی اپنی
نہ دردمندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
دردمندی کے محرکات
میر کا زمانہ قتل اور خون ریزی کا زمانہ تھا ہر طرف فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا جس نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا تھا میر اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہخود اس تباہ کن معاشرہ کے ایک فرد تھے۔
میر نے اس کے اثرات بڑی شدت سے محسوس کیے ان کی غزلوں میں اس تباہی کی تصویریں بڑی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ اجڑے ہوئے نگردید
حال شہر اور ویران شہر کے حالات کا میر نوحہ خواں ہے۔ بجھے ہوئے دلوں میں غم کی آگ لگا کر
میر کہیں نا کہیں تسلیاں بھی دیتے نظر آتے ہیں۔روشن ہے اس طرح دل ویراں میں آگ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہیں چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مر تبہ لوٹا گیا
میر کی بلند حوصلگی
یہ ممکن ہی نہیں کہ میر کو زندگی سے بیزار شاعر کہا جائے کیونکہ ان کا غم دیگر شعراء کے غموں سے مختلف ہے۔ ان کا غم ایک مہذب اور دردمند آدمی کا غم ہے ، یہی وجہ ہے کہ درد والم کے ساگر میں غوطہ زن ہونے کے باوجود بھی میر بے حوصلہ نہیں ہوتے بلکہ پہلے غم کو بڑھاتے ہیں اور اسے آخری منزل پر لے جاتے ہیں پھر اس کا علاج حو صلے اور ہمت سے کرتے ہیں میر کہتے ہیں :
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی
دنیا کی بے ثباتی سے مراد دنیا کی ناپائیداری ہے ، یعنی یہ دنیا عارضی اور فانی ہے۔ اردو شاعری میں دنیا کی بے ثباتی دنیا کا موضوع تقریباً ہر شاعر کے ہاں ملتا ہے مگر اس دور کے شعراء کے کچھ زیادہ ہے، جس کی وجہ ولی کے خون آلود حالات ہیں۔ میر تقی میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بہترین پیرائے میں ملتا ہے۔
میر کا خطابیہ انداز
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسم کیا جس سر کو ہے یاں غرور تاج وری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
میر کے ڈھیر سارے ایسے اشعار ہیں جس میں وہ خطابیہ انداز اختیار کرتے ہیں کبھی وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے شخص سے کبھی ان کا مخاطب بلبلے ہے ، تو کبھی شمع و پروانہ ، ان تمام کیفیتوں میں بات چیت اور بے تکلفی کارنگ بہر حال قائم رہتا ہے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
بات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد.
ابتدائے عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
طنزیہ عنصر
میر کی شاعری میں طنز در حقیقت ان کی فطرت کی عکاسی ہے جب کوئی جملہ طنز کے ساتھ بولتے ہیں تو اس سے صرف بے تکلفی نہیں جھلکتی بلکہ ایسا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تجربے سے گزر چکے ہیں ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہے۔ ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پر کیف نرمی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ خود پر بھی طنز کرنے سے نہیں چوکتے۔
میر کی تشبیہات و استعارات
ہو گا کسودیوار کے سائے تلے میں میر
کی کام محبت سے اس آرام طلب کو
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے ہے
میر نے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ میر اپنی زندگی بھر کے حادثات واقعات, تجربات اور
تاثرات کو پوری صداقت کے ساتھ خوبصورت تشبیہات و استعارت میں بیان کرتا ہے جس
میں تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میران نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
ترنم اور موسیقیت
شاعری میں فنی سطح پر ترنم اور موسیقیت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ میر کی شاعری میں غنائیت اور موسیقیت اپنے اندرفنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے۔ ان کی غزلوں میں یہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہے اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے۔ ان کی سب سے اہم خصوصیت
یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لئے مختلف بحروں کا انتخاب کر کے نغمگی پیدا کرتے
ہیں۔ تکرار لفظی کے ذریعے وہ اشعار میں موسیقی بھر دیتے ہیں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا
جانے ہے
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
بات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عالم عالم عشق و جنوں دنیا دنیا تہت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحر او حشت ہے
میر کی شاعری میں متصوفانہ رنگ
میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے ان کے والد اور چچا صوفیانہ افکار و نظریات کے حامل تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے میر نے ان بزرگوں کی صحبت میں چند سال گزارے تھے جس کا اثر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ ان کے ہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی یارسمی نہیں ہے بلکہ اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ان کی نظر
صاف دل صوفی کی نظر ہے
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سر سری تم جہاں سے گزرے ور نہ ہر جا جہاں دیگر تھا
میر کی شاعری میں تصور محبوب
یہ بات صد فیصد صحیح ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ بھر پور محبت کی تھی۔ ان کے تصور محبوب سے ہی ان کے احساس جمال، قوت تخیل اور تصور حسن پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کا محبوب حسن و جمال کی تصویر اور خوبصورتی کا استعارہ ہے۔ میر کا محبوب صرف چاند جیسا ہی نہیں بلکہ رنگ و نو کا مجسمہ بھی ہے۔
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا
میر کی شاعری میں تصور عشق
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر کے ذہن میں عشق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ جذبہ ان کے رگ وپے میں بچپن سے سرائیت کر گیا تھا۔ میر کو اس عشق سے پیار ہے یہی عشق ان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اس
عشق نے ان کی زندگی میں خوشی و مسرت اور حرکت و عمل پیدا کی ہے۔ میر کے خیال میں زندگی کی ساری رونق اور چہل پہل اسی عشق کی وجہ سے ہے ، اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کارخانہ قدرت
بے کار خاموش بے حرکت اور بے لذت ہوتا۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
محبت ہی اس کار خانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
محبت نے محبت نے ظلمت کسی کاڑھا ہے نور نہ ہوئی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کار خانے میں ہے
محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے
میر کی شاعری میں احساس برتری
میر کی شاعری کے ڈھیر سارے رنگوں میں سے ایک نہایت ہی اہم رنگ احساس برتری کا رنگ ہے۔ اسے ہم میر کی نرگسیت ( اپنی ذات سے والہانہ محبت ) بھی کہ سکتے ہیں۔ عملی زندگی میں درویش کی زندگی گزارنے والے میر کو خود پر اپنی شاعری پر بہت مان اور فخر ہے جن کا اظہار ان کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میر افرمایا ہوا
گفتگور بجتے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے
پیارے پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
میر کا دل، دلی اور حالات زمانہ
میر کا زمانه سیاسی زوال ، اقتصادی ، بد حالی، معاشرتی افرا تفری اور اخلاق انحطاط کا زمانہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے ان مخصوص حالات کو اپنی غزل میں نہایت شاندار اور دردمندانہ لہجے میں بیان
کیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ میردلی کی تباہی و بربادی کے گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ مورخ ہوں
ڈاکٹر سید عبد اللہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ” نقد میر “ میں لکھتے ہیں کہ ” اگر میر کے زمانے کی تاریخ نہ لکھی جاتی تو میر کی شاعری پڑھ کر ایک گہری نظر رکھنے والا اس زمانے کی تاریخ مرتب کر
سکتا ہے “ اس طرح آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ اگر کوئی دلی کی
تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے "
ولی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
میر صاحب
دونوں ہاتھوں
زمانه نازک تھائیے مرے دل کے کئی کر کے دیئے لوگوں کو دستار شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
انسان دوستی اور احترام آدمیت
میر نے اپنی شاعری میں انسانی عظمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بڑی کثرت سے بیان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون ان کی شاعری کا مستقل موضوع بن گیا ہے۔ اور ان کے کلام میں جگہ جگہ
اس رنگ کی نشانیاں موجود ہیں۔
آدمی کو ملک سے کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی
کتے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
اس میں شک نہیں کہ میر اردو ادب میں غزل کے سب سے بڑے استاد ہیں۔ اور ہر دور میں ان سے بعد میں آنے والوں نے فیض اٹھایا ہے۔ یوں تو میر نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل میں ان کارتبہ سب سے بلند ہے۔ احساس کی شدت۔ تجربے کی گہرائی، مضامین کی شدت، آلام روزگار اور غم عشق وغیرہ وہ خصوصیات ہیں جس کی بناء پر میر آردو
میر تقی میر سوانحی حالات اور شاعری | pdf
شاعری کے ہمیشہ بڑے اور نمائندہ شاعر رہیں گے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں