کتاب کا نام۔۔۔۔ غالب اور مير كا خصوصى مطالعہ 1
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5611
موضوع : میر تقی میر کی صوفیانہ شاعری
صفحہ نمبر : 99 تا 102
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
میر تقی میر کی صوفیانہ شاعری
زندگی اور کائنات کے اسرار و رموز کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جسے میں نے اپنی شاعری میں پیش نہ کیا ہو۔ ان کے بعض تصورات تو بڑے انوکھے اور خیال انگیز ہیں۔ اعلی فکری حقائق کے بیان کے ساتھ ساتھ میر کے ہاں سوچی اور تفکر کا عنصر بھی بکثرت ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی شاعری میں المیہ کے عناصر
ان تک بعض حقائق اور معارف روایتی تصوف کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ لیکن وہ ان حقائق و معارف کو ذاتی تجربے کی سطح پر لے آتے ہیں اور کچھ حقائق ان کے اپنے غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ دراصل میر کے مشاہدات کی دنیا خاصی وسیع ہے۔
انھوں نے زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا اور ہرتا ہے ۔ یوں تو غزل میں تفصیلات و جزئیات کی گنجائش نہیں ہوتی پھر بھی میر کی غزل میں تھی پابندیوں کے باوجود متنوع مشاہدات کی مصوری تعدل کے قالب میں ڈھل گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر کا صوفیانہ لب ولہجہ
میرا اپنے ماحول اپنے عبد کی زندگی اور کائنات کی نیرنگیوں کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مشاہدات کے حاصلات کو اپنی شاعری کے دائرے میں کھینچ لاتے ہیں۔
ان کے ہاں حقائق کی جستجو کے لیے ترپ پائی جاتی ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زندگی اور کا کانت کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کرنا چاہیے:
چشم ہو تو آىينہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
ہر مشت خاک یاں کی چاہے ہے اک تحمل
بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ
مشاہدے کی کیفیت
یہ بات تقر یبا طے ہے کہ میر کوئی فلسفی نہ تھے بلکہ شاعر تھے لیکن اس کے باوجود وہ مظاہر زندگی سے متعلق ایک حکیمانہ رویہ ضرور رکھتے تھے۔ میر جب مظاہر عالم پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت یا تخیر میں گم ہو جاتے ہیں لیکن جب تخیر کی گرفت سے نکل کر تعطل کی طرف آتے ہیں تو ان کے ذہن میں ان گنت تعجب انگیز سوالات ابھرتے ہیں کیونکہ وہ کائنات کو کھلنے اور غور وفکر کرنے کی خاص صلاحیت رکھتے تھے۔
ان کو نظام قدرت ایک کارخانہ عجائبات معلوم ہوتا ہے۔ وہ جہان سے سرسری نہیں گزرتے بلکہ مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی نظریں گلزار عالم کے ہر پھول سے چپک جاتی ہیں:
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو
میر کا گھرانہ صوفیانہ، دانتوں سے آشنا گھرانہ تھا۔ اُنھوں نے اپنے والد اور منہ بولے چا میر امان اللہ سے تصوف کی روایت وراثت میں پائی تھی لہذا وہ حقائق کے اور اک کا سلیقہ جانتے تھے لیکن شاعر ہونے کے ناطے وہ حقیقت تک رسائی کے لیے گرمی دل سے الحماض نہیں برت سکتے تھے۔
وہ زندگی کی منزلوں کو سر کرنے کے لیے عقل کی راہ نمائی کو کسی حد تک ناقص خیال کرتے تھے۔ اسی لیے وہ مشق سے حاصل کردہ بصیرتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں اگر چہ انھوں نے منقل کی راہنمائی سے مکمل انکار نہیں کیا۔
ہم مست بھی ہو دیکھا آخر مزا نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
لیکن یہ ہوشیاری بھی جنوں آثار ہے اسے محض متل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ میں تو جنوں بھی شعور سےکرنے کے قائل ہیں:
خوش ہیں ديوانگی میر سے سب
كیا جنوں کر گیا شعور سے وه
ادراک حقائق کے سلسلہ میں ان کا نقطۂ نظر شعور سے جنوں کرنے کا ہے عرفان حقیقی دل کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ میر کے نزدیک دل جذبات کا مرکز ہوتے ہوئے طریقت کے عملی پہلوؤں کے سلسلہ میں بھی کامل راہنمائی کے فرائض انجام دیتا ہے۔
دل عجب نسخۂ تصوف ہے
ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے
میردل کی پاکیزگی پر بڑا زور دیتے ہیں۔ دل کی پاکیزگی و صفائی ریاضت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ریاضت میں پہلا مرحلہ مشاہدہ ہے۔ میر کے کلام سے واضح ہے کہ وہ حواس کے ذریعے کا کنات اور فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن وہ فطرت کے مشاہدہ سے مختص لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ بصیر تیں حاصل کرتے ہیں ان میں ایک بصیرت افروز خیال ان کے لیے دل کشی کا باعث ہے کہ فطرت کا حسن در اصل انسانی حسن ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے:
یاں گل اور بلبل پر تو عبرت سے آنکھ کھول
گل گشت سرسری نہیں اس گلستان کا
گل یادگار چہرہ خوباں ہے ہے خبر
مرغ چمن نشاں ہے کسی بے زبان کا
بر قطعہ چمن پر ٹک گاڑ کر نظر کر
بگڑیں ہزار شکلیں تب پھول یہ بنا ہے
تفکر
مشاہدہ کے بعد غور وفکر کی منزل آتی ہے۔ مشاہدہ کے بغیر غور وفکر کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔ میر کا ئنات کے مظاہر و مناظر پر غور وفکر کرتے ہیں۔ ان کے یہاں مشاہدہ کے ساتھ ساتھ غور وفکر کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ امیرتوں کے حصول کے لیے نور و فکر لازم ہے۔ تاہم میر کے ہاں فکریات کا کوئی منظم اور با قاعد و نظام نہیں مانا مگر بحیثیت مجموعی نظر کی مجید و کوششیں ضرور ملتی ہیں ۔
وہ کا نکات کی ظاہری شکل وصورت کے متنوع مگر نہاں گوشوں پر گہری نظر ڈالتے ہیں اور مظاہر کے باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ زندگی اور کائنات کے تضادوں اور بو المحموں کو کریدتے ہیں چنانچہ راز جوئی کی خواہش کے باعث ان پر نئے فکری حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ اگر چہ میر تحیر اور حیرت کے شاعر ہیں لیکن ان کی حیرت غور و فکر سے خالی نہیں ۔
اشیا کی حقیقت و ماہیت کو پالینے کی آرزو بھی حیرت سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ جستجو کی نگاہوں سے کائنات کی بظاہر حقیر ترین اشیا پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں نہ در بہ طلسمات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں اسی آگاہی سے پیدا ہونے والی حیرت کا اظہار ہوا ہے۔
انھوں نے فلسفیانہ مضامین محض روایات کی تقلید میں منظوم نہیں کیے بلکہ انھیں اپنا تجربہ بنا کر اور اپنی گھر کا رنگ چڑھا کر قبول عام لب ولہجہ میں بیان کیے ہیں۔ میر غور و فکر اور تعاملات کی لذتوں سے خوب واقف تھے۔
البتہ وہ انھیں لذتوں میں کھو کر نہیں رہ جاتے بلکہ فطرت کے مشاہدات و نتائج کو حقی رویوں اور جذبات و تاثرات میں ملا جلا اور گھلا کر شعری پیکروں میں ڈھال دیتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ : ان کے یہاں خالص استدلالی صورتیں بھی مفقود نہیں، حقائق کا صاف اور راست بیان بھی مل جاتا ہے۔
مگر اکثر موقعوں پر انھوں نے حقائق کے بیان میں شاعرانہ انداز بیان کا سہارا لیا ہے اور بہت سی باتوں کو سوال تشکیک طنز اور تعجب کے پردے میں اس طرح لپیٹ لیا ہے کہ یہ ظاہر شاعری ہی معلوم ہوتی ہے بیان حقائق معلوم نہیں ہوتا ھی نظر میں یہی خیال ہوتا ہے
کہ میر نے حقائق زندگی پر غور کیا ہی نہیں۔ انھوں نے راز حیات اور حکمت کا ئنات کو سمجھنے کی کوشش کی ہی نہیں…، ورنہ سچائی یہ ہے کہ میں حقائق کی لذت سے بے بہرو نہیں۔ ان کے یہاں حقائق عالیہ موجود ہیں مگر شاعرانہ زبان و بیان میں (1)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں