کتاب کا نام۔۔۔۔ غالب اور مير كا خصوصى مطالعہ 1
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5611
موضوع : میر تقی میر کی سوانح
صفحہ نمبر : 6 تا 9
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
میر تقی میر کی سوانح حصہ اول | Meer Taqi Meer ki sawaneh hissa awal
میر تقی میر کی سوانح
میر تقی میر نے جس سطح اور انداز کی شاعری دنیائے ادب کے سامنے پیش کی اور اپنے خاص رنگ محسن سے جس طرح اپنے دور کی سماجی و سیاسی صورت حال کی عکاسی کی ، اسے جاننے اور ان کے ذہن و فکر کے تدریجی ارتقا اور ان کی فنی و جمالیاتی ترقی اور وسعت کو سمجھنے کے لیے ان کے حالات زندگی ، ماحول ، زمانے کے اجتماعی احساسات بنسلی اور موروثی اثرات تعلیم و تربیت، زندگی سے متعلق ان کا نقطہ نظر اور ان کی سیرت و شخصیت کا مطالعہ انتہائی اہمیت کا حال ہے۔
میر کا اصل نام میر محمد تقی ہے۔ دنیائے شاعری میں وہ میرتقی میر کہلائے۔ میر ان کا تخلص ہے۔ میر کے آباؤ اجداد اپنے قبیلے کے ساتھ زمانے کے نا مساعد حالات کی وجہ سے ملک تجاز سے رنج ہجرت کہتے اور مصائب برداشت کرتے ہوئے پہلے دکن پہنچے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کرنے کے بعد احمد آباد گجرات میں وارد ہوئے۔
خاندان کے بعض افراد نے وہیں ڈیرے ڈال دیے اور کچھ روز گار کی تلاش میں اکبر آباد (آگرہ) میں آکر آباد ہو گئے۔ انھیں افراد میں میر کے عید اعلی بھی تھے جو اکبر آبادی آب و ہوا کے باعث بیمار پڑ کر وفات پاگئے ۔ ان سے ایک لڑ کا یادگار تھا جو میر کے دادا تھے۔ میں نے اپنے آباؤ اجداد کے نام کہیں درج نہیں کیے۔ حتی کہ اپنے دادا کا نام بھی اپنی آپ بیتی کر میر (1) میں درج نہیں کیا۔
میر کے دادا تلاش روزگار میں نکلے۔ بڑی تگ و دو کے بعد انہیں نواب اکبر آباد میں فوجداری کی ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ پچاس سال کی عمر میں بیمار پڑ کر وفات پاگئے۔ ان کے دور کے تھے۔
بڑے خلل دماغ کی وجہ سے جوانی ہی میں مر گئے۔ ان کے چھوٹے بیٹے میر کے والد تھے۔ ان کا نام محمد علی تھا۔ اُنھوں نے شاہ کلیم اللہ اکبر آبادی سے علوم متداولہ کی تحصیل کے بعد درویشی اختیار کر لی اور اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے علی متقی کے خطاب سے موسوم ہوئے۔
یعلی متقی نے دو شادیاں کیں ۔ ان کی پہلی شادی سراج الدین علی خان آرزو کی بڑی بہن سے ہوئی۔ جن کے بطن سے حافظ محمد حسن پیدا ہوئے۔ دوسری بیوی کے بطن سے دو بیٹے محمد تقی اور محمد رضی اور ایک بہن ( زوجہ محمد حسین علیم ) پیدا ہوئے۔
محمد تقی میر کی ولادت کے بارے میں اگر چہ مختلف آرا پائی جاتی ہیں تا ہم بقول ڈاکٹر جمیل جالی یہ سب قياسات دیوان چہارم نسخہ محمود آباد کی اس عبارت کے بعد ، جو خود میر کے بھتیجے محمد حسن کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی ہے بختم ہو جاتے ہیں ۔ یہ دیوان چہارم میر کے داماد، بھانجے ، شاگرد اور محمد حسین کلیم کے بنے محمد حسن علی جھلی کے قلم کا لکھا ہوا ہے اور دیوان پر وہ عبارت ، جو محمد محسن کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی ہے، یہ ہے:
۰۲۱ شعبان ۵۲۲۱ھ کو بروز جمعہ بوقت شام میر محمد تقی صاحب میر مخلص نے ، جن کا یہ دیوان چہارم ہے، شہر لکھنو کے محلہ سمٹی میں نوے سال کی عمر پوری کر کے انتقال کیا اور اس مہینے کی ۱۲ تاریخ کو ہفتے کے دن دو پہر کے وقت اکھاڑہ بھیم میں، جو مشہور قبرستان ہے، اپنے عزیزوں کی قبروں کے قریب دفن ہوئے۔….
……اس طرح اگر ۵۲۲۱ھ میں سے توے نکال دیے جائیں تو سال ولادت ۵۳۱۱ ھ را ۰۳۲۷..۲۲۷۱ ، لگتا ہے (۲)
میر کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک کا زمانہ بر صغیر کی تاریخ میں انتشار و خلفشار کا دور ہے۔ محمد شاہ کا عید سلطنت میر کے بچپن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مؤرخین کے نزدیک مغلیہ سلطنت کے زوال کا نقطہ آغاز اورنگ زیب عالمگیر کا یوم وفات ہے لیکن زوال کے ابتدائی آثار شاہ جہان کے آخری دور میں پیدا ہو چکے تھے۔
البتہ جب شاہ جہان کے بیٹوں کے مابین تخت نشینی کے لیے جنگ ہوئی تو اس خانہ جنگی نے زوال کو تیز تر کر دیا۔ عالمگیر کی وفات کے بعد آپس کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے مغلیہ بادشاہوں کا رعب و دہد یہ آہستہ آہستہ کم ہوتا چلا گیا۔ مرکزی حکومت کی کمزوری سے چاروں طرف بغاوتیں ہونے لگیں اور صوبے داروں نے اپنے اپنے صوبوں میں بادشاہتیں قائم کرنا شروع کر دیں اور خانہ جنگیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
بارہہ کے سادات اس حد تک بادشاہ گر ہوئے کہ بادشاہوں کا قتل اور تاج پوشی روز کا معمول بن گیا۔ پھر باہر سے حملے شروع ہوئے نادر شاہ اور احمد شاہ نے بار بار ہندوستان کو تاراج کیا۔ چنانچہ مغلیہ سلطات بالاخر زوال کی انتہا کو چھونے لگی ۔ میر اس انتشار زدہ معاشرے کے ایک فرد تھے۔
میر نے افلاس اور تنگ دستی کی گود میں آنکھ کھولی اور صبر وقناعت کے گہوارے میں پرورش پائی۔ ان کے واللہ علی متقی دل میں عشق کی گرمی رکھتے تھے۔ وہ روز و شب خدا کی یاد میں مشغول رہتے کبھی موج میں آتے تو میر تقی میر سے کہا کرتے ۔
بیتا عشق اختیار کرو۔ عشق ہی اس کارخانے میں متصرف ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو نظم گل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ ہے عشق زندگی وہاں ہے۔
دنیا میں جو کچھ ہے وہ عشق کا ظہور ہے عشق الہی کو اپنا پیشہ کرو.. (۳)
اسی تعلیم کے نتیجے میں میر عشق کو نظام کا ئنات کو تنظیم دینے والا جذ بہ سمجھتے ہیں:
یہ نہ ہووے تو نظم گل اٹھ جائے
سچے ہیں عاشقان خدا ہے عشق
چنانچہ عشق میر کی شاعری کا مرکزی نقطہ قرار پاتا ہے:
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
( مثنوی شعلہ شوق )
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ
عشق تھا جو رسول ہو آیا
ان نے پیغام عشق پہنچایا
( مثنوی معاملات عشق )
میر کے والد علی متقی شب زندہ دار شخص تھے، ان کی جنہیں نیاز ہمیشہ جھکی رہتی ۔ وہ اتنا روتے کہ ہچکی بندھ جاتی ۔ کبھی میر تقی میر کو گود میں اٹھا لیتے ۔ میر کے چہرے کا رنگ دیکھ کر کہتے” اے سرمایہ جان ! یہ کیسی آگ ہے جو تیرے دل میں چھپی ہے۔ یہ کیسی جلن ہے جو تیری جان کو لگی ہے (۴) علی متقی اخلاق حمیدہ اور اوصاف ستودہ کے مالک تھے۔ وہ وسیع المشرب اور دل دردمند رکھتے تھے۔ ایک بار و والا ہور کے سفر پر روانہ ہونے والی پر دہلی میں کچھ عرصہ کے لیے صالح عبد العزیز عزت کے بیٹے قمر الدین خاں کے مکان میں اترے۔ بہت سے عقیدت مند ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بہت سوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امیر الامرا نواب صمصام الدولہ خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے۔ لیکن عملی منتقلی نے منع فرمایا کہ ” ملاقات کے واسطے مناسبت ضروری ہے۔ امید ہے آپ مجھے معذور جان کر میرے حال پر چھوڑ دیں گے (۵) جب کثرت خلق سے تنگ آگئے تو آدھی رات کو شہر سے نکل گئے۔
میر امان سے ملاقات
دودن بعد اکبر آباد (آگرہ) سے تین منزل پہلے بیانہ میں وارد ہوئے ۔ وہاں ان کا آمنا سامنا ایک تو جوان میر امان اللہ سے ہوا۔ امان اللہ فقیرا نہ نظر کی کشش سے بے ہوش ہو گئے۔ ان کے عزیزوں نے علی متقی کی منت سماجت کی اور ان کی شفایابی کے لیے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ علی متقی کی دعا سے امان اللہ شفا یاب ہو گئے۔ اسی روز امان اللہ کی شادی ہونے والی تھی۔ لوگوں کے اصرار پر معلی متقی نے امان اللہ کی شادی میں شرکت کی اور کچھ تناول فرمایا اور فورا ہی اکبر آباد روانہ ہو گئے۔ یعلی منتقلی کے جذب و کشش کی بنا پر امان اللہ دلہن کو گھر لا کر دیوانہ وار ان کی تلاش میں لگے۔ بیانہ سے علی متقی کے پیچھے پیچھے انھیں تلاش کرتے ہوئے اکبر آباد پہنچے اور ان کے مرید ہو گئے۔ علی متقی انھیں ہر اور عزیز کہا کرتے تھے۔ میر تقی میر اس وقت (۰۳-۰۹۲۷۱) انداز اسات سال کے تھے۔ میر کو انھوں نے اپنا بیٹا بنا لیا اور لاڈ پیار سے پرورش کرنے گئے۔ میر نے ان کی شخصیت سے گہرے اثرات قبول کیے۔ میر شب و روز ان کے ساتھ رہتے تھے۔ میر امان اللہ : ڈاکٹر سید عبد اللہ کے لفظوں میں: ایک خوش رو نو جوان تھے۔ عاشقانہ طبیعت اور درویشانہ مزاج رکھتے تھے۔ مین آغاز شباب میں جبکہ ازدواجی زندگی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی چاہتے تھے۔ محمد علی کی ملاقات نے زندگی
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں