کتاب کا نام ہے : میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ—–5611
صفحہ نمبر—–9 تا 10
میر تقی میر کی سوانح حیات حصہ دوم
*میر امان سے ملاقات
میر کے والد دودن بعد اکبر آباد (آگرہ) سے تین منزل پہلے بیانہ میں وارد ہوئے ۔ وہاں ان کا آمنا سامنا ایک نو جوان میر امان اللہ سے ہوا۔ امان اللہ فقیرانہ نظر کی کشش سے بے ہوش ہو گئے ۔ ان کے عزیزوں نے علی متقی کی منت سماجت کی اور ان کی شفایابی کے لیے دعا کی درخواست کی ۔
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر نمبر ماہنامہ نیا دور، مئی 2010 pdf
چنانچہ علی متقی کی دعا سے امان اللہ شفایاب ہو گئے ۔ اسی روز امان اللہ کی شادی ہونے والی تھی ۔ لوگوں کے اصرار پر علی متقی نے امان اللہ کی شادی میں شرکت کی اور کچھ تناول فرمایا اور فورا ہی اکبر آباد روانہ ہو گئے۔ علی متقی کے جذب و کشش کی بنا پر امان اللہ دلہن کو گھر لا کر دیوانہ وار ان کی تلاش میں نکلے ۔
بیانہ سے علی متقی کے پیچھے پیچھے اُنھیں تلاش کرتے ہوئے اکبر آباد پہنچے اور ان کے مرید ہو گئے ۔ علی متقی انھیں برادر عزیز” کہا کرتے تھے۔ میر تقی میر اس وقت (۰۳-۰۹۲۷۱) انداز اسات سال کے تھے۔
میر کو اُنھوں نے اپنا بیٹا بنا لیا اور لاڈ پیار سے پرورش کرنے لگے ۔ میر نے ان کی شخصیت سے گہرے اثرات قبول کیے.
میر شب و روز ان کے ساتھ رہتے تھے۔” میر امان اللہ” : ڈاکٹر سید عبد اللہ کے لفظوں میں :
"ایک خوش رو نوجوان تھے۔ عاشقانہ طبیعت اور درویشانہ مزاج رکھتے تھے۔
عین آغاز شباب میں جبکہ ازدواجی زندگی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی چاہتے تھے، محمد علی کی ملاقات نے زندگی کے دریا کا رخ دوسری طرف پھیر دیا وہ مزاج اور سیرت کے اعتبار سے عجیب و غریب شخص تھے۔ بہادر، عالی حوصلہ، عاشق مزاج، عالم رنگ و بو کی رنگینوں سے آشنا۔ مگر ان سے محروم ! دریائے طبیعت کی طوفانی لہروں کو فقیرانہ عشق اور صوفیانہ سوز و گداز سے روکنے کی کوشش میں سرگرداں”
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر از ڈاکٹر عبادت بریلوی | pdf
میر انھیں علم بزرگوار کہا کرتے تھے ۔ امان اللہ درویشوں سے ملاقات کا بہت شوق رکھتے تھے۔ وہ اکثر و بیشتر میر کو بھی ساتھ لے جاتے ۔
میر کو ان کی بدولت کئی ایک درویشوں سے ملنے اور ان کی سوز گداز بھری باتیں سننے کا اتفاق ہوا، جو ان کے دل میں اتر گئیں ۔ میر نے ذکر میر میں ایسے چند ایک درویشوں کا ذکر کیا ہے جن سے امان اللہ ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔
ان میں سے ایک میر احسان اللہ بھی تھے۔ میرا احسان اللہ عموما بے خود رہا کرتے تھے۔ ملاقات سے گریز کرتے تھے۔ دروازے پر سائلوں کو خود ہی اندر سے کہہ دیا کرتے تھے کہ احسان اللہ گھر میں نہیں ہیں۔
جو لوگ رمز آشنا تھے وہ ٹھہر جاتے باقی لوٹ جاتے تھے۔ ایک ملاقات میں میر بھی امان اللہ کے ہمراہ تھے۔ انھیں احسان اللہ کی یہ ادا بہت پسند آئی۔ میر کے بہت سے اشعار احسان اللہ کی اس ادائے بے خودی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتے ہیں:
مسکن جہاں تھا دل زدہ مسکیں کا ہم تو واں
کل دیر میر میر پکارے، نہیں ہے اب
مشہور ہیں عالم میں ہوں بھی کہیں ہم
القصرنہ درپے ہو ہمارے کہ نہیں ہم
ملنےوالو! پھر ملے گا، ہے وہ عالم دیگرمیں
میر فقیر کوسکر ہےیعنی مستی کا عا لم ہےاب
ازخویش رفتہ اس بن رہتا ہے میر اکثر
کرتے ہو بات کسی سے وہ آپ میں کہاں ہے.