میر تقی میر کا تصور غم

کتاب کا نام ۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ 1
کورس کوڈ ۔۔۔۔۔5611
موضوع ۔۔۔۔۔۔۔ میر تقی میر کا تصور غم
صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔۔57.60
مرتب کردہ۔۔۔۔۔ الیانا کلیم

میر تقی میر کا تصور غم

میر کے ذاتی حالات زندگی کے اثرات

میر کی شاعری میں غم کا مضمون بکثرت ادا ہوا ہے اس لیے انھیں غم والم کا شاعر کہا جاتا ہے ۔ وہ قدرت سے میں غم کا لکھا دردمند دل لے کر آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر تعارف اور غزل گوئی

بچپن کے حالات و واقعات نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے والد کے ایک بھائی جنوں کے مرض میں وفات پاچکے تھے۔ والد کی مجذوبانہ سیرت ، ان کا صوفیانہ طرز زندگی ، شب بیداری اور گریہ و زاری اور سوز و گداز یہ ابتدائی مؤثرات تھے، جن سے میر کی شخصیت کے اولین نقوش مرتب ہوئے ۔ میر کے والد اور چا ایک اعتبار سے معتدل و متوازن مزاج نہ رکھتے تھے ۔

یہ بھی پڑھیں: دیوان میر تقی میر حصہ دوم | PDF

میں خود بھی نو جوانی میں کچھ عرصہ جنوں کا شکار رہے تھے۔ وہ ذاتی سطح پر بھی بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ عموں اور پریشانیوں سے جلد گہرا اثر قبول کر لیتے تھے۔ پھر انھیں گیارہ سال ہی کی عمر میں منہ بولے چچا میر امان اللہ اور اپنے والد کے انتقال کے صدمات سہنے پڑے۔ ان پر بچپن ہی میں گھریلو ذمہ داریوں کا ایسا بوجھ پڑا کہ فکر معاش ان کے لیے غم زیست بن گیا :

فکر معاش یعنی غم زیست تابہ کے؟

مر جائے کہیں کہ تک آرام پائیے مشفق کوئی نہیں ہے، کوئی مہربان نہیں

اپنا ہی ہاتھ سر پر رہا اپنے ہاں مدام

بے وقت کی قیمی ، بے روزگاری، فاقہ کشی ، در بدری اور دیگر مصائب نے ان کی شخصیت میں در دو نم بھر کی میں دونم بھر دیے تھے۔ ایک طرف زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ان کے لیے عذاب جاں بنا ہوا تھا تو دوسری طرف صدیوں پرانا سماجی اور تہذیبی نظام حیات شکستگی سے دوچار تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی سوانح حصہ اول

ذاتی حوالوں سے اُنھیں جن مصائب سے گزرنا پڑا ، کا مطالعہ میر تقی میر کے سوانح میں تفصیل سے آچکا ہے۔ اپنے والد کی وفات سے لے کر لکھنو جانے تک میر نے زندگی میں پریشانیوں ، غربت و افلاس اور خانہ جنگیوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور آسودگی نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں کبھی نہیں آئی:

سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح !
وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں

مغلیہ سلطنت کا زوال

اس وقت عظیم مغلیہ سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی تھی۔ ہندوستان پر نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پورے معاشرے کو زیروز بر کر دیا تھا۔ مرہٹوں ، جانوں اور سکھوں کی ہر طرف لوٹ مار، مغربی اقوام کا اثر ونفوذ اور ریشہ دوانیاں، مختلف صوبہ جات پر ان کا قبضہ اور باہمی خانہ جنگیوں نے سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔

میر نے شہروں اور آبادیوں کی تباہی و بربادی سے گہرے اثرات قبول کیے۔ ذاتی محرومیوں اور ملک گیر مصائب کا احساس ان کی شاعری میں غم کے سائے گہرے کر دیتا ہے۔

ان کے ہاں ذاتی غم اور آفاقی غم کی سرحدیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ میر کی شاعری میں ان کا ذاتی غم خواہ وہ غم محبت ہو یا غم روزگار ، صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ بیشتر بنی نوع انسان کا غم ہے ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ اس غم کو میر کے فلسفہ دردمندی سے تعبیر کرتے ہیں (1)

میر نے اپنے زمانے کے نشیب و فراز کو دیکھا اور اسے شدت سے محسوس کیا تھا۔ اگر چہ ان کی ذاتی زندگی کی حرماں نصیبی نے اس بات کے امکانات پیدا کر دیے تھے کہ وہ ذاتی غموں میں گرفتار ہو کر رہ جاتے لیکن اُنھوں نے وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے اور ایک بڑے شاعر ہونے کے ناطے اپنے غموں سے گزر کر اس فلم کو دیکھا اور محسوس کیا جو پورے معاشرے میں چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔

اس طرح غم ذات اور غم حیات ان کی شاعری میں گھل مل کر ایک ہو جاتے ہیں چند شعر ملاخطہ کیجیے:

دہر کا ہو گلہ کہ شکوہ چرخ
اس ستم گر ہی سر کنایت ہے

مصائب اور تھے پر، دل کا جانا

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں

تمھارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں
اب خراب ہوا جہاں آباد

ورنہ ہر اک قدم پر یاں گھر تھا

تری گلی سے سدا اے کشندہ عالم

ہزاروں اٹھتی ہوئی چار پائیاں دیکھیں

میر اپنے زمانے کے سیاسی خلفشار سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے تھے۔ نہ یہ ممکن تھا کہ وہ محض اپنے ذاتی غموں کا رونا روتے رہتے ۔

وہ اپنے دور کے سیاسی واقعات کے نہ صرف عینی شاہد تھے بلکہ بعض واقعات میں خود شریک بھی رہے تھے۔ وہ زمانے کی کشمکش سے الگ نہیں رو سکتے تھے۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سلائیاں پھر نے کے سانحہ کو وہ حدت سے محسوس کرتے ہیں :

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی

انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

دلی کی تباہی و بربادی

حملہ آوروں کی وجہ سے دلی طرح طرح کے جاں گسل صدمات برداشت کر رہی تھی۔ دلی کی تباہی و بر بادی میر کے دل کی تباہی و بربادی بن جاتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں دل اور دلی کو ملا کر ایک کر دیتے ہیں اور کئی انداز سے اس کا اظہار کرتے ہیں :

دیده گریاں ہمارا نہر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے

دل کی ویرانی کا کیا مذکور

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے

پچھتاؤ گے، سنو ہوا یہ بستی اجاڑ کر

دل شہر ایک مدت اجرا بسا غموں میں

آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت عموں نے ڈھائی ہے

میر کو جہاں اپنے دل کی بستی اجڑ نے کا غم تھاو ہیں سیاسی و سماجی اور تہذیبی ڈھانچے کے اجڑنے کا بھی غمتھا۔ آٹھ سو سالہ پرانی تہذیب کے قدم ڈگمگا چکے تھے۔ جو نظام معاشرت و معیشت صدیوں سے مستحکم چلا آ رہا تھا۔

اس کی بنیادیں ہل گئی تھیں ۔ اس تمام فساد و تخریب سے میر جیسی حساس شخصیت اثرات قبول کیے بغیر نہ رہ سکتی تھی ۔

وہ سیاسی اور سماجی آویزشوں کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ میر کے عبد کے سماجی و معاشرتی اور ان کے ذاتی و شخصی حوادث کو مد نظر رکھا جائے تو ان کے ہاں غم کے مضمون کی کثرت کی وجوہات بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہیں۔

انھوں نے حسن و عشق کے موضوعات کو بھی تنقید حیات کے موضوعات میں گھلا ملا دیا ہے۔ چنانچہ ان کی غزل اپنے عہد کا آئینہ بن جاتی ہے ۔

اگر چہ اُنھوں نے اپنے دیوان کو درد وغم کا مجموعہ کیا ہے :

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

اجتماعی کرب اور دُکھ کی کیفیت

تاہم یہ درد و غم ذاتی نہیں ہے کیونکہ جہاں سارا عالم زیروز پر ہو رہا ہو وہاں حساس شاعر محض اپنے ذاتی دکھوں کا ماتم نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میر کا تم ان کے پورے دور کاغم بن جاتا ہے :

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں

تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا

اے حب جاہ والو! جو آج تاجور ہے

کل اس کو دیکھیو تم ، نے تاج ہے نہ سر ہے

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آگیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھی کسو کا سر پر غرور تھا

بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

میر ایک مضطرب روح کے مالک اور منتشر زمانے کے نمایندہ فرد تھے ۔ وہ آلام و مصائب جنھوں نے میر کو اپنے زمانے میں نامطمئن کیا ، خود زمانے کے پیدا کیے ہوئے تھے ۔ (۲)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں