میر تقی میر کا تصور حسن و عشق

کتاب کا نام۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ۔۔۔ 5611
صفحہ۔۔۔۔۔77 تا 80
موضوع۔۔۔۔۔میر تقی میر کا تصور حسن و عشق
مرتب۔۔۔۔۔۔ اقصی طارق

میر تقی میر کا تصور حسن و عشق

میر کا تصور حسن و عشق ان کے کئی ایک ذہنی رویوں اور شخصی تجربات کے باہمی اختلاط سے اپنی خاص وضع میں ظاہر ہوا ہے۔ ان کے کلام میں بلاشبہ قطری سوز و گداز اور بے پناہ تاثیر پائی جاتی ہے۔ یہ سوز و گداز اور اثر انگیزی کی غیر معمولی صلاحیت ان کے مخصوص حالات ، عبد کی صورت حال اور حسن و عشق کی وسیع تر کیفیات کی دین ہے۔ ان کا تصور حسن بھی دراصل ان کے دائرے کا ایک جز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر تعارف اور غزل گوئی

میر کے عشق میں جو شدت اور ہمہ گیری ملتی ہے۔ وہ اردو زبان کے کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی ۔ اس کے دو بنیادی سبب ہیں ۔ اول یہ کہ عشق ان کے لیے ایک ذاتی تجربے کی حیثیت رکھتا تھا ۔ اُنھوں نے عشق کے مصائب اور تکالیف کو اپنے ذہن اور وجود پر برداشت کیا تھا۔ وہ عشق کی لائی ہوئی محرومیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر شاعری اور انسان | PDF

وہ عشق کے عطا کر وہ داغوں کو اپنی زندگی کی متابع بے بہا سمجھتے تھے۔ ان کا عشق تعیش زدہ نہیں تھا کہ جس سے عارضی دل لگی کا سامان مہیا کیا جا سکے بلکہ یہ ان کی شخصیت کا اساسی روئیہ تھا ان کی شخصیت کے تمام اجزا اسی کل کی طرف لپکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ میرا اپنی ابتدائی پرورش کے دوران میں ہی تصوف کی تعلیم کی وجہ سے عشق حقیقی کی گہرائیوں کا کسی حد تک اندازہ کر چکے تھے۔

میر کے والد کی نصیحت

میر کا گھرانہ فقیری و درویشی کی روایات سے گہرے طور پر منسلک تھا۔ ان کے والد علی متقی ، پرہیز گار اور شب زندہ دار انسان تھے۔ ان کا سینہ آتش عشق سے فروزاں تھا۔ جیسا کہ ذکر میر میں آیا ہے وہ اپنے بیٹے محمد تقی (میر) کو عشق کی تلقین کیا کرتے تھے۔

"بیٹا عشق کرو۔ عشق ہی ( دنیا ) اس کارخانے میں متصرف ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو تکلم گل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ بے عشق زندگی وہاں ہے عشق میں جی کی بازی لگا دینا کمال ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہے۔ عشق کا ظہور ہے۔ (۱)

ظشب زندہ دار انسان تھے۔ ان کا سینہ آتش عشق سے فروزاں تھا۔ جیسا کہ ذکر میر میں آیا ہے وہ اپنے بیٹے محمد تقی (میر) کو عشق کی تلقین کیا کرتے تھے۔ بیٹا عشق کرو۔ عشق ہی ( دنیا ) اس کارخانے میں متصرف ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو تکلم گل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ بے عشق زندگی وہاں ہے عشق میں جی کی بازی لگا دینا کمال ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہے۔عشق کا ظہور ہے ۔ (۱)

میر کا تصور عشق

میر کے منہ بولے شاہ میر امان اللہ بھی درویشانہ خصائص رکھتے تھے۔ میر ان کے ہمراہ بچپن میں بزرگوں اور گوشہ نشیں فقیروں کی صحبت سے فیض یاب ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت نے میر کو صوفیانہ عشق کی ہمہ گیری کا راز داں بنا دیا تھا۔ وہ عشق مجازی میں گرفتار ہونے سے پہلے ہی عشق حقیقی کی تعلیمات سے کسی حد تک واقف ہو چکے تھے۔

چنانچہ ان کے تصور عشق میں غیر معمولی گہرائی قوت اور توانائی پائی جاتی ہے۔ عشقیہ نقطہ نظر ہی سے میر کائنات، انسان اور معاشرے کے درمیان موجود رشتوں کا سراغ لگاتے ہیں۔

یہی وہ مرکز ہے جس کے گردان کی شاعری دائرہ در دائر و پھیلی ہوئی ہے۔ یہ عشق جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی ۔ اس سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہ ان کی شاعری کا بنیادی محرک ہے۔ اُنھوں نے عشق کی وجہ سے غزلیں موزوں کی ؟ مانے ہیں۔

اسی لیے ان کی شاعری کو عشقیہ کہا جاتا ہے۔ اس میں ارضیت بھی ہے اور ماورائیت بھی عشق کی جسمانیت اور روحانیت کے امتزاج سے ان کی شاعری روح کو گرما دینے والی صلاحیت سے متصف ہوئی ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
"میر کے ہاں عشق کے دو دائرے ہیں ۔ ایک بڑا دائرہ اور دوسرا اس دائرہ کے اندر ایک چھوٹا دائرہ۔ بڑا دائر و وہ ہے جو گل کو محیط ہے۔ یہاں مشق ساری کائنات پر حاوی ہے ۔ عشق ہی روح کائنات ہے (۲)”

اس سلسلہ میں میر کے چند شعر دیکھیے ۔ بات زیادہ واضح ہو جائے گی :

محبت نے ظلمت سے گاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے

عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ

لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق
کچھ کہتے ہیں سر انہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق

میر کو خدا کے جلوؤں کی طرح سارے عالم میں عشق ہی عشق نظر آتا ہے:

عشق ہے عشق ہی جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
کہیں مبتلا ہے کہیں خدا ہے عشق

کومکن کیا پیاز کاٹے گا
اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
كون مقصد کو عشق بن پہنچا
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
پردے میں زور آزما ہے عشق
عشق کے درد کی دوا ہے عشق
آرزو عشق مدعا ہے عشق

عشق سے متکلم کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب
ہر شے جو ہاں پیدا ہوئی ہے موزوں کر لایا ہے عشق

جیسا کہ ان اشعار سے واضح ہے کہ میر کے نزدیک عشق ہی خدا ، عشق ہی بندہ اور عشق ہی حقوق کی پیدائش کا باعث ہے۔ زندگی تلاش کے عشق سے عبارت ہے۔

عشق کا خاص مقام دل ہے دل ہی کے ذریعے خود آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ خود آگائی سے بندہ معبود ہو کر اپنی علویت کا اظہار کرتا ہے کیونکہ خود شناسی کی منزل خدا شناسی ہی کی ایک صورت ہے۔ اس طرح فرد اور کائنات ایک وحدت بن جاتے ہیں۔ انسان کو اس لیے تخلیق کیا گیا ہے کہ وہ زندگی کے اس بھید سے واقف ہو ؟

عزو نیاز اپنا، اپنی طرف ہے سارا
اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے
اس رمز کو لیکن محدود جانتے ہیں

میر نے اپنے والد کی تعلیمات سے اخذ کردہ تصور عشق کو اپنی شاعری کے ذریعے محسوسات و کیفیات کی صورت میں پیش کیا۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

"یہ ان کی عشقیہ شاعری کا بڑا دائرہ ہے اور دوسرا دائرہ اسی دائرہ کے اندر اپنا ہالہ بناتا ہے۔ اس دوسرے دائرے میں عشق مجازی نوعیت کا ہے ۔ میر نے عشق کی کیفیات کو تجربے کی بھٹی میں پکا کر تخلیقی توانائی اور ذہنی سچائی کے ساتھ شعروں میں ڈھال دیا ہے (۳)”

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں