میر تقی میر کا تعارف

کتاب کا نام: تاریخ ادب اردو 2

عنوان: میر تقی میر

صفحہ نمبر:49تا53

مرتب کردہ:ارحم

_____🌼______

میر تقی میر

جس طرح کسی دور افتادہ گلیشیئر یا اجنبی جھیل سے جوئے کم آغاز سفر کہتے ہیں راستہ کے ندی نالوں اور بارشوں کو دامن میں سمیٹتے ایک دریا میں تبدیل ہو جاتی ہے کچھ ایسا ہی عالم اردو زبان کا بھی ہے مولا کے لشکر میں بھانت بھانت کے بولو کے ملاپ سے جنم لینے والی گلی محلہ بازار لشکر کی بولی بتدریج زبان کی خدوخال اختیار کرتی ہے گجرات اور دکن میں اس کے تخلیقی نقوش سنورتے ہیں تو دہلی اور اس کے سرپر لکھا آتا ہے اور پھر میر سودا اور درد کی اس کے حصوں میں چار چاند لگا دیتے ہیں محمد تقی نام مگر دنیائے ادب میں میر تقی میر کے نام سے مشہور والد محمد علی درویش م تھے اور دینداری کی وجہ سے علی متقی کہلاتے تھے اکبر آباد اگرہ میں 1722 میں پیدا ہوئے اور 30 ستمبر 1810 کو لکھنو میں انتقال ہوا کم عمری میں والد کا انتقال ہو گیا تو دہلی میں اپنے سوتیلے ماموں اور مشہور شاعر سراج الدین علی خان آرزو کے پاس آگئے مگر یہاں مستقل قیام نہ کر سکے جب دہلی میں حالات بے حد خراب ہو گئے تو 1782 میں لکھنو ہجرت کی اور پھر بقیہ عمر وہیں بسر کی یہ ہے مختصر ترین الفاظ میں میر کی داستان حیات ایسی داستان جس میں اردو عالم جنون کا پسندی بے دماغی بد مزاجی اور تنگ مزاجی کے طویل فٹ نوٹس ملتے ہیں۔

ہم کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میں نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

یہ محض شاعرانہ انداز بیان نہیں بلکہ میر کے نفسی سرگزشت ہے میر کے تخلیقی شعور کی آنکھیں کھولنے تک اور دو بالخصوص شاعری کی زبان صاف ہو چکی تھی ولی کے زیر اثر جن بزرگوں نے اردو غزل کی طرف توجہ دی ان کی زبان بتدریج صاف ہوتے چلی گئی ہندی الفاظ کی جگہ فارسی الفاظ نے لے لی یوں محاورہ شاہجہاں اباد سند قرار پایا اور دکنی لب و لہجہ متروک ہوا امیر اور اس کے نامور معاصرین یعنی سودا اور درد کو زبان شاعرانہ اسلوب بہتر حالت میں ملا اور انہوں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اپنی جدت اور زبان کے تخلیقی امکانات میں مزید اضافے کیے۔

میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے تو یہ کچھ ایسا غلط نہیں یہی نہیں غالب، ذوق، حسرت موہانی، ناصر کاظمی جیسی شعراء ان کی عظمت کا اعتراف کیا تو یہ بلاوجہ
نہ تھا

آب حیات میں مولانا آزاد نے امیر کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا جس سے ان کی افتاد و طبع اور تخلیقی لگن کا اندازہ ہو جاتا ہے

لکھنو میں ایک صاحب ان سے مل نے ان کے گھر آئے انہیں کمرہ میں فکر سخن میں مشغول پایا ملاقاتی نے 15 کے کھڑکی کھولی تو سات ایک خوش منظر باغ نظر ایا انہوں نے کہا میر صاحب اپ نے کبھی کھڑکی کھول کر نہ دیکھی کہ کیسا خوبصورت باغ ہے میر صاحب کے پھٹے پرانے غزلوں کے پڑھے تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں

( آب حیات ص؛ 218)

اس تخلیقی لگن کا انعام چھ دو اوین، مثنویوں پر مشتمل ضخیم کلیات کی صورت میں ملا میر نے اردو شعرا کا تذکرہ نکات الشوری 1752 کے نام سے لکھا جو اب تک کی معلومات کے لحاظ سے اردو کا پہلا اگ رہا ہے اس میں 103 شعرا کا احوال ہے نکات و شعرا میں میر ایک سخت گیر نقاد کے روپ میں نظر ائے ہیں یہ تذکرہ فارسی میں ہے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اسے 1935 میں مرتب کر کے انجمن ترقی اردو ہند سے شائع کیا ڈاکٹر عبادت بریلوی نے 1980 میں سے مرتب کر کے لاہور سے شائع کیا جبکہ ڈاکٹر محمود الہی نے بھی 1972 میں لکھنو سے اس کا ایک ایڈیشن شائع کیا اگرچہ فاضل مرتبین میں مقامات قلم بند کیے مگر متن فارسی میں ہے گرمی نے اپنے ناکام عشق اور اس کے نتیجے میں جو ان کا احوال قلم بند نہ کیا ہوتا تو آج اس کی زندگی کے اہم واقعات سے لاعلم ہوتے اب جنون کے عملی تجربہ کے تناظر میں میر کے جنونوالے ایسے اشعار کا مطالعہ کریں تو یہ نئی معنویت اختیار کر لیتے ہیں

خوش ہیں دیوانگی میر سے سب

کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ

اگر میر کا فارسی متن سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اور دو ہند کے مجلہ اردو 1928 میں شائع کیا 1957 میں نثار احمد فاروقی نے میری ت کی آب بیتی کے نام سے دہلی سے اردو ترجمہ شائع کیا اس کا دوسرا ایڈیشن ما فارسی متن اور تخلیق کی مقدمہ دہلی سے 1996 میں چھپا اسی برس مجلس ترقی ادب اردو نے بھی اسے طبع کیا میر انشورہ میں سے نہیں جنہیں زمانہ فراموش کر دیتا ہے انہیں زندگی میں جو عزت حاصل ہوئی مرنے کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوا ان کی مقبولیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ انتقال کو تقریبا دو صدیاں انہیں ہوگئیں اس دوران میں مذاق سخن تبدیل ہو گیا لفظ معنی کے جانچ کے تنقیدی پیمانے تبدیل ہو گئے

ادبی مسلمان تغیر آشنا ہوئے مگر میر محفل سخن کے ویر ہی رہے میر کے حیات تصور زیست شاعرانہ لہجہ طرز تصور عشق اور معاملات جنس پر ناقدین نے بہت کچھ لکھا یہاں ڈاکٹر سید عبداللہ کے نقد میر سے چند بنیادی خصوصیات نقل کی جاتی ہیں خلوص اور صداقت اجمالی، عمایت، لہجہ، عام اور بول چال کا انداز اشعار میں باتیں خطابیہ انداز ندرت اور طنزتشبیہ میں ندرت احساس تقابل عام محکات میر کے الفاظ موسیقیت تکرار الفاظ حروف کلیات میر کسی سے کم نہیں لیکن اس کی غواصی سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے چند اشعار پیش ہیں اس احساس کے ساتھ کہ اس سے رنگ میر کا قطعا انداز نہیں لگایا جا سکتا

الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک

مثرگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

عالم عالم عشق کو جنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے

دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے

کیا خوفی اس کے منہ کی اے اونچا نقل کریے

تو تو نہ بول ظالم ہو آتی ہے
وہاں سے

گوند کے گویا پتے گل کی وہ ترکیب بنائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب پوری بھیگے پسینے میں

دل عجب شہر تھا خیالوں کا

لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

میر تقی میر کی غزل کی اتنی شہرت ہوئی کہ باقی اصناف بالخصوص مثنوی میں ان کا کام دب گیا اور اس کی وہ تحصیل نہ ہوئی جو حق بنتی تھی میر نے کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی مثنویاں لکھی جن میں خواب و خیال، شعلہ عشق، دریائے عشق ،معاملات عشق، جوش عشق ،عجاز عشق کونا کے دل نے بطور خاص رہا خواب خیال اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ سوانی ہے یعنی واردات عشق اور اس کے نتیجے میں جنون کا بیان ہے یوں یہ مثنوی بہت اہمیت بھی رکھتی ہے یہ نے اپ بیتی ذکر میر میں جنون کا ذکر کیا ہے مثنوی کے علاوہ میر نےقصائد ہجویات اور قطعات رباعیات وغیرہ سب اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن حق بات یہ ہے کہ میریت صرف غزلوں میں ہی ملتی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں