میر شناسی کی روایت

کتاب کا نام۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ ۔۔۔۔ 5611
صفحہ۔۔۔۔۔176تا178
موضوع۔۔۔۔ میر شناسی کی روایت
مرتب۔۔۔۔ اقصیٰ طارق

میر شناسی کی روایت

میر شناسی کی روایت میر کی ذات سے آگے بڑھتی ہے تو ان کے عبد کے شعرا اور مابعد کے شعرا نے میر کے بارے میں تعریفی و توصیلی اشعار سے بھی میر شناسی کے کام کو آگے بڑھایا۔

میر سے متاثر شعرا کے علاوہ تذکرہ نگاروں ، اولی تاریخ نگاروں ، کلیات میر اور انتخاب کلام میر کے مقدمہ نگاروں اور دیباچہ نگاروں ، ذکر میر کے مترجموں، محققین اور ناقدین کی میر پر کھل تحقیقی و تنقیدی کتب نے بھی میر شناسی کے اہم رجحانات کی نشاندہی کا فریضہ انجام دیا۔

یہ بھی پڑھیں : میر تقی میر کا تصور حسن و عشق

میرشناسی میں تذکرہ نگاروں کا حصہ

قدیم دور میں میرشناسی کا ایک اہم ذریعہ تذکرے رہے ہیں۔ تذکرہ نگاری کا دور نکات الشعرا” از میر تقی میر مرقومہ ۳۵۷۱ ، سے لے کر آب حیات از محمد حسین آزاد مرقومه ۰۸۸۱ ، تک پھیلا ہوا ہے ۔

” آب حیات عبوری دور کی کتاب ہے جس سے تذکرہ نگاری کی عام روایت ختم ہوئی اور ادبی تاریخ نگاری کے بنیادی خدوخال سامنے آئے۔ تذکرہ نگاروں نے میر کی ادبی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں اپنے تذکروں میں نمایاں جگہ دی۔

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی شاعری کے موضوعات

تذکرہ میں زیادہ تر میر کے کلام کے انتخاب کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے کلام کے حسن و قبح پر اجمالاً آرا سے میر شناسی میں اضافہ ہوا۔ تقریبا سبھی تذکرہ نگاروں نے ان کی شاعری کو سراہا ہے ۔

تذکرہ نگاری کے دور میں تنقیدی روایت متمام تھی ۔ عموما تذکروں میں شاعر کا نام مختصر حالات زندگی اور کلام پر چند جملوں میں رائے لکھ دی جاتی تھی ۔ تذکرہ نگاروں نے میر کی غزل اور مثنوی کو ان کے ہمعصر شعرا سے بہتر کیا ہے۔

تذکروں میں میر شناسی کے حوالے سے دیگر شعرا کے مقابلے میں زیادہ کام سامنے آیا ہے ۔ تذکرہ نگاری کے دور کے بعد ادبی تاریخ نگاری کے حوالہ سے اردو ادب کی تاریخ کے بارے میں کتنے لگیں ۔

ادبی تاریخ کی کتب میں بھی میر کو نمایاں جگہ ملتی رہی ۔ یہ کتب بھی میر شناسی اور تمہیم میر میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی اردو کی ادبی ردو ۔

ڈاکٹر اعجاز حسین کی مختصر تاریخ تاریخ پر کتب تحریر کی گئیں۔ ان میں ۔ ادب اردو”۔ حامد حسن قادری کی داستان نظم ونٹر اردو ۔ ڈاکٹر حسن اختر کی تا تاریخ ادب اردو ۔

آغا محمد باقر کی تاریخ رو کی مختصر ترین تاریخ ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ ادب اردو اور ڈاکٹر انور سدید کی مختصر تاریخ ادب اردو زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔

مرتبه مولوی عبدالحق ، مزامیر مرتبه اثر کلیات میر اور انتخاب کلام میر کے سلسا لکھنوی کلیات میر مرتبہ عبد الباری آسی :

کلیات میر مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ، کلیات میر مرتبہ کلب علی خان فائق ، دیوان میر مرتبه علی سردار جعفری، شعر شور انگیز ( چار جلدیں ) مرتبہ شمس الرحمن فاروقی اہم ہیں۔

اس کے علاوہ میر کے بارے میں مستقل نوعیت کی تحقیقی و تنقیدی کتب بھی تحریر کی گئیں ان میں خواجہ احمد فاروقی کی میر تقی میر، حیات اور شاعری ڈاکٹر سید عبد اللہ کی اللہ میں قاضی افضال حسن کی ” میر کی شعری لسانیات، گوپی چند نارنگ کی اسلوبیات میر ، ڈاکٹر جمیل جالی کی محمد تقی میر : ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی میر کو سمجھنے کے لیے زیادہ اہم کتب ہیں۔

میر کے بارے میں اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس میں ان کی سوانح حیات ، ان کے عہد کے سیاسی ،

سماجی و تہذیبی حالات اور ان کے کلام کی تحقیق و تنقید بھی کچھ شامل ہے ۔ سینکڑوں مقالات و مضامین بھی لکھے گئے ہیں۔ میر کی آپ بیتی ذکر میر کے بھی کئی ایک تراجم شائع ہو چکے ہیں۔

بہت سی تحقیقی و تنقیدی کتب اور رسائل کے میر نمبر بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بھی بہت سے تحقیقی وتنقیدی مقالات لکھے گئے ہیں۔

البتہ میر شناسی کے سلسلہ میں اور میر کے بارے میں وثوق سے کچھ جاننے اور ان کے فکر وفن کے بارے میں رائے قائم کرنے کے بنیادی ماخذ صرف چند ہیں۔

ان میں کلیات میر اور ذکر میر کو اولیت حاصل ہے۔ تذکروں میں تذکر و بہار بے خزان از محمد حسین سحر مرقومه ۵۴۸۱، اور تذکر و خوش معرکہ زیبا از سعادت خان ناصر مرقومه ۴۴۸۱ و بہت اہم اور سیرت و سوانح کے سلسلہ میں اساسی خبر ائق ہیں ۔

بہار بے خزاں میر کے سلسلہ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تذکرہ ہے۔ میر کے عشق کے سلسلے میں پہلی واضح خارجی شہادت اس کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ (1)

تذکروں کے بعد مقدمہ ” کلیات میر از عبد الباری آسی مطبوعہ نول کشور پریس لکھنو، ۱۳۹۱، اور میر تقی میر حیات اور شاعری از خواجہ احمد فاروقی مطبوعه انجمن ترقی اردو بند، و بلی ۴۵۹۱ ، یہ دو ایسے ماخذ ہیں جنھیں بنیادی کہا جا سکتا ہے ۔ کلام میر کے انتخاب . میں مولوی عبدالحق کا ” انتخاب کلام میر اور ان کا تحریر کردہ مقدمہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔

تنقیدی اعتبار سے ڈاکٹر سید عبداللہ کی کتاب نقد میر تحقیدی اور تحقیقی دونوں حوالوں سے ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب ” محمد تقی میر زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اس سارے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے میرشناسی کے اہم رجحانات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں