کتاب کا نام : میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ: 5611
صفحہ: 201 تا 204
میر کی سوانح حیات
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
میر کی سوانح حیات
میر تقی میر ولد علی متقی ۰۲ ستمبر ۲۲۷۱ ، کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے اور تقریبا ۰۹ برس کی عمر پا کر ۰۱۸۱ء میں لکھنو میں فوت ہوئے۔
۲۲۷۱ تا ۰۱۸۱ کا زمانہ پر عظیم کی تاریخ میں انتشار اور خلفشار کا زمانہ ہے، مغلیہ سلطنت کا زوال اور انگریزوں کا اقتدار اسی دور میں مکمل ہوا، نازک مزاج اور حساس میر نے اس معاشرے میں زندگی کے دن کاٹے ، ان کے ذاتی حالات اور اس دور کے سیاسی و سماجی المیوں نے ان کی شخصیت کو غم کی ایسی تصویر بنا دیا ہے کہ میر کے کلام کی تاثیر لفظ آہ، میں مضمر ہو گئی ہے ، ان کی شاعری ان کی ذات ، معاشرے اور انقلابات زمانہ کی باہمی آویزش کی ایک اہم دستاویز ہے۔
میر ایک نہایت غریب اور درویش گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس غربت کے باعث میر کے ہم عصر شعرا اور تذکرہ نویس سیادت میر کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ میر کے والد کا نام محمدعلی متقی تھا جو اکبر آباد میں اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی وفات ۱۸۱ دسمبر ۳۳۷۱ ء کو ہوئی ،
میر کی زندگی کے ابتدائی سال اپنے والد اور والد کے ایک عزیز مرید سید امان اللہ کی صحبت میں بسر ہوئے، تو کل ، درویشی ، دنیا کی بے ثباتی اور فکر آخرت کے مضامین انھی اصحاب کی دین ہیں عشق میں فنائے ذات کا تصور اور میر کے ہاں امرد پرستی کے رجحانات میں اس زمانے کے سلسائہ تصوف اور خانقاہی نظام کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
والد کی وفات کے ساتھ ہی میر کے مصائب کا آغاز ہو جاتا ہے، قرضوں کا بوجھ ، بڑے بھائی کی بے وفائی ، بے روزگاری اور میلان طبیعت کی کج روی و انتشار میر کی پراگندگی طبع میں اضافے کا باعث ہے ۔
۴۳۷۱ء میں میرا اکبر آباد سے تلاش روزگار میں شاہ جہاں آباد روانہ ہوتے ہیں۔ تقریباً ایک برس کی ذلت و خواری کے بعد ا۵۳۷ء میں ان کی ملاقات خواجہ باسط سے ہوتی ہے جو انھیں اپنے چا نواب صمصام الدولہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ، ایک روپیہ روز وظیفہ مقرر ہوتا ہے، دو برس کے بعد نواب کا انتقال ہو جاتا ہے اور میر بے یارو مددگار اکبر آبا دلوٹ جاتے ہیں ۔
یہ وہ زمانہ ہے جب نادر شاہ نے ولی میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے ، ۰۹۳۷۱ کے اختتام پر ایک بار پھر میر ولی آتے ہیں اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کے ہاں قیام کرتے ہیں، خان آرزو کے ہاں قیام کی مدت تقریباً تیرہ برس ہے۔
عنفوان شباب میں جوش وحشت اور استیلائے سودا میر کی طبیعت پر غلبہ پاچکا اُنھیں رسوائی خاص و عام پسند
ہے وہ دشنام طرازی کرتے ہیں اور سنگ زنی ان کا مشغلہ ہے ، اسی عالم جنون میں خان آرزو کی مشورت سے وہ ریختہ گوئی کا آغاز کرتے ہیں ۱۴۔۰۴۷۱ ء کا زمانہ پاگل پن کی انتہا کا زمانہ ہے جس کا تذکرہ ذکر میر میں بھی ہے اور اسی واقعے کو میر نے محبت کا رنگ دیتے ہوئے مثنوی خواب و خیال میں قلم بند کیا ہے،
جنون میر کا خاندانی مرض تھا ، ان کے چچا اسی بیماری سے فوت ہوئے اور اسی عالم وحشت میں ان کے والد کئی بار گھر بار چھوڑ کر مختلف علاقوں میں گھومتے رہے تا ہم بیماری کے بعد میر کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ،
شعر گوئی قدرت کی عطا تھی ۔ جلد ہی وہ شعرائے دلی میں ممتاز ہوئے ، ۷۴۷۱ء میں میر رعایت خان سے متوسل ہوئے اور آخرا ۹۴۷ء میں یہ ملازمت چھوڑ دی اور خواجہممتاز ہوئے ،
۷۴۷۱ء میں میر رعایت خان سے متوسل ہوئے اور آخرا ۹۴۷ء میں یہ ملازمت چھوڑ دی اور خواجہ سرانواب بہادر جاوید کی ملازمت اختیار کر لی ۔ ۲۵۷۱ء تک ان کے حالات بہتر رہے ۔ ۳۵۷۱ ء میں مرہٹوں نے دلی کو تاراج کیا۔
۴۵۷۱ء میں عماد الملک نے احمد شاہ کو قید کر کے اُس کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اسے اندھا کر دیا، میر اس سفر وحشت میں احمد شاہ کے ساتھ تھے۔ ۷۵۷۱ء میں احمد شاہ ابدالی نے ولی پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، میر کی معاشی حالت خراب ہوگئی پھر وہ راجہ نا گر مل کے مصاحبین میں شامل ہوئے اور تقریبا اے ۰۷ ء تک اس کے ساتھ رہے اسی اثنا میں عماد الملک نے عالمگیر ثانی کو بھی قتل کرا دیا، تیسری پانی پت کی جنگ کے بعد میر آگرہ چلے گئے ، ۲۷۷ ء تک میر کے بنیادی حالات میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ کہنا چاہیے ۔
۲۷۷۱ ء تا ۱۸۷۱ ء تک کا زمانہ میر کی گوشہ نشینی کا زمانہ ہے۔ جس میں معاشی بد حالی ، غیر یقینی مستقبل ، انسانی اقدار کی پامالی اور اہل ہنر کی مہاجرت کے طوفان چھپے ہیں ، سود او سوز نے دلی چھوڑ کر لکھنو کا رخ کیا ، شاہ حاتم نے شاہ تسلیم کے تکیے میں اقامت اختیار کی ،
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اُس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو
چاہیے اہل سخن میر کو استاد کریں
2.1 کلام میر کی نمایاں خصوصیات