کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو شاعری 1
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5607
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ مثنوی سحری البیان
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 3 تا 14
مرتب کردہ ۔۔۔۔ علی رضا
میر حسن کی مثنوی نگاری
میر حسن نے جس صنف سخن کو بقائے دوام بخشا وہ مثنوی کی صنف ہے۔ اگر چہ انہوں نے دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے، تاہم مثنوی نگاری ان کی پہچان ہے۔ میر حسن نے بارہ (12) مثنویاں تخلیق کیں، جن کے نام یہ ہیں :
1 ـ نقل کلاونت
2 ـ نقل زن فاحشه
3 ـ ہجو قصائی
4 ـنقل قصائی
5 ـمثنوی شادی آصف الدوله
6 ـ مثنوی رموز العارفین
7 ـ مثنوی ہجو حویلی
8 ـ مثنوی گلزار ارم
9 ـ مثنوی در تهنیت عید
10 ـ مثنوی دور صنف قصر جواہر
11 ـ مثنوی در خوان نعمت
12 ـ مثنوی سحر البیان
میر حسن کی یہ آخری مثنوی ایک ایسا فن پارہ ہے، جسے تخلیق کرنے کے بعد واقعتاً میر حسن کا نام اردو ادب کے جہان میں
زندہ جاوید ہے۔
5- مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ
مثنوی سحر البیان، جس کا عرصہ تخلیق (1199ھ بمطابق 85-1784ء) ہے ، اردو مثنوی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثنوی کے ابتدائی دو سو اشعار خالص روایتی انداز میں ہیں۔ ان میں خدا کی حمد ، حضور کی نعت ، منقبت، تعریف اصحاب پاک، مناجات ، تعریف سخن، بادشاہ اور نواب در زیر کی مدح ، سخاوت اور شجاعت کے بیان اور مصنف کا بجز ہے۔ اس کے بعد اصل قصہ شروع ہوتا ہے جو 1960 اور 1970 اشعار کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس مثنوی کا انجام طربیہ ہے۔ (عزیز طلبہ و طالبات! اس مرحلے پر آپ مثنوی سحر البیان کے قصے کا مختصر خلاصہ اپنے مطالعے میں لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتاب ” سحر البیان کا تنقیدی مطالعہ صفحہ 3 تا 7 تک کا مطالعہ کر سکتے ہیں )۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ یہ قصہ تقریباً اڑھائی ہزار اشعار پر مشتمل ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا طویل قصہ ہے۔ جس طرح مثنویوں کا پرانا انداز یہ تھا کہ وہ حمد سے شروع ہوتی تھیں اور پھر عام قاعدے کے مطابق رسول مقبول کی مدح کی جاتی تھی۔ بعض اوقات پنج تن کا ذکر بھی کیا جاتاتھا اور پھر دیگر عناصر اس میں شامل ہو جاتے تھے، جن کی طرف او پر اشارہ کیا گیا ہے۔ میر حسان کی مثنوی ” سحر البیان بھی حمد یہ اشعار سے شروع ہوتی ہے۔ بعض شعراء تمہیدی اشعار میں قلم سے خطاب کرتے تھے۔ میر حسن عام طور پر ساقی سے خطاب کرتے ہیں۔ میر حسن ابتداء میں قاری کے ذہن کو تیار کرنے کے لیے تمہیدی اشعار لکھتے ہیں۔
جہاں تک قصے کا تعلق ہے، سحر البیان شہزادہ بے نظیر کا قصہ ہے۔ مثنوی کا موضوع کیا ہونا چاہیے، جس کو نقاد پلاٹ کہتے ہیں؟ اگر چہ یہ بنیادی طور پر ڈرامے کی اصطلاح ہے اور ناول کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ چونکہ مثنوی میں بھی قصہ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے لیے بھی پلاٹ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ چالانکہ اگر مثنوی کا مطالعہ کیا جائے، تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مثنوی کا پلاٹ ناول اور افسانے کی طرح سیدھا نہیں ہوتا۔ مثنوی نگار یا داستان گو دونوں کے لیے یہ شرط نہیں ہوتی کہ وہ بالکل نیا قصہ بیان کرے۔ عام طور پر نثر نگار اور مثنوی نگار پہلے سے بیان کی گئی کہانیوں ہو کو بیان کرتے ہیں ۔ گلزار نسیم بھی گل بکاولی کی تلاش ہے اور یہ قصہ بھی پہلے سے موجود تھا۔ البتہ سحر البیان قصہ بڑی حد تک طبع زاد ہے، لیکن اس کے بھی بہت سے عناصر ماخوذ ہیں، جس میں پرانی داستانوں اور مثنویوں سے بہت سی چیزیں لی گئی ہیں اور بہت سی اپنی طرف سے شامل کر کے میر حسن نے یہ مثنوی تخلیق کی۔ ناقدین اور محققین کے لیے سب سے پہلا بنیادی سوال یہی تھا کہ میر حسن پر کن کن لوگوں کے اثرات واضح ہیں۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ جہاں تک مثنوی کے انداز کا تعلق ہے، اس میں بہت نمایاں اثر نظامی گنجوی کا ہے۔ ایک اور حوالہ نعت خان عالی کی مثنوی ” حسن و عشق کا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میر حسن نے سحر البیان اس کی تقلید میں لکھی۔ اس ضمن میں سراج اورنگ آبادی کی مشہور مثنوی ” بوستان خیال کا حوالہ بھی نظر آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سحر البیان میں اور اس مثنوی میں بہت سے عناصر مشترک ہیں۔ ان تمام حوالوں کو اگر
سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ میر حسن نے بہت سے قصوں کو سامنے رکھ کر طبع زاد قصہ نکالا۔ بہت سی مثنویوں کے اثرات بھی اس میں دکھائی دیتے ہیں، مگر میر حسن نے انہیں ایک ترکیبی وحدت میں ڈھال دیا ہے اور یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کہیں کہیں سے ٹکڑے اٹھائے گئے ہیں۔
عزیز طلبہ و طالبات ! ہم نے اس بحث کے آغاز میں مثنوی کے بعض عناصر ترکیبی کا ذکر کیا تھا۔ آئیے ! ان کی روشنی میں سحری البیان کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہیں۔
5.1 سحر البیان کے کردار
سحر البیان کے بنیادی کردار شہنشاہ کیتی پناہ شہزادہ بے نظیر، شہزادی بدرمنیر، نجم النساء، پر ماہ رخ اور جنوں کے بادشاہ کا بیٹا فیروز شاہ ہیں۔ بادشاہ کا کردار بہت مختصر سا ہے، جومثنوی کے آغاز اور اختتام میں مثنوی کے اشعار کا حصہ بنا ہے لیکن میرحسن نے چند اشعار میں ہی اس کی شخصیت کا نقشہ کھینچ دیا ہے، جس سے اس کے جاہ وجلال اور عزت و وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔ شہزادہ بے نظیر اس کہانی کا ہیرو ہے۔ شہزادی بدرمنیر ہیروگن ہے، جو حسن و جمال کا مجسمہ ہے۔ شہزادی بدر منیر کی سہلی نجم النساء اگر چہ اس کہانی میں سائڈ ہیروئن کے طور دکھائی دیتی ہے، مگر اس کا کردار اس مثنوی میں بہت فعال اور جاندار ہے۔ ماہ رخ پری اور فیروز شاہ کے کردار مافوق الفطرت عناصر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن میرحسن نے اپنے کمال فن سے ان میں ایسا انسانی رنگ بھرا ہے، جس سے وہ جیتے جاگتے انسان نظر آتے ہیں۔ ان تمام بنیادی کرداروں کے علاوہ بھی اس مثنوی میں متعدد ضمنی کردار ہیں ۔ مثلا کنیزیں ، مصاحب، نجومی ، جنوں کا بادشاہ ، مسعود شاہ اور درباری وغیرہ ۔ یہ تمام کردار مثنوی کے قصے کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اس زمان کی سماجیات اور درباری دلچسپیوں کا پتہ دیتے ہیں۔
مثنوی کے کردار ضروری نہیں کہ ناول اور افسانے کی طرح ہوں لیکن چونکہ مثنوی میں ایک قصہ ہوتا ہے اور وہ قصو کرداروں ہی کے حوالے سے آگے بڑھتا ہے، اس لیے مثنوی نگار کو کرداروں کی حرکات وسکنات ، ان کے جذبات، ان کی ذہنی کیفیات اور دیگر چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سحر البیان میں یوں تو بہت سے کردار آتے ہیں۔ مثلاً خادمائیں، ملازم، پریوں کی دنیا وغیرہ جوسحر البیان کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر قابل توجہ ہیں لیکن بنیادی طور پر مثنوی سحر البیان کا قصہ تین کرداروں کے گرد گھومتا ہے اور یہ کردار بے نظیر، بدر منیر اور نجم النساء کے ہیں۔ باقی تمام کردار قصے کے رخ کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں مگر یہ تین کردار ایسے ہیں، جو واضح کرداروں کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان میں سے بے نظیر اور بدر منیر کے کردار شاہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حجم النساء دختر وزیر ہے۔ نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ اس زمانے میں شہزادوں اور نوابوں کی تعلیم و تربیت کا انداز اور عادات و خصائل کو میر حسن نے پس منظر کے طور پر ڈھالا ہے۔ چنانچہ بے نظیر کے پیدا ہونے کے بعد جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں ، ان کے
حوالے سے اس زمانے کا سارا ماحول زندہ ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ یہ دونوں مرکزی کردار نہایت قابل توجہ ہیں اور اپنے طبقے کے پوری طرح سے نمائندے ہیں، مگر ان میں حرکت اور قوت ذرا کم نظر آتی ہے۔ چنانچہ اپنے معاشقے کو کامیاب بنانے کیلیے بھی انہیں نجم النساء کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس زمانے میں یہ مثنوی لکھی گئی اس زمانے کے شہزادوں اور نوابوں کے بیٹوں میں پہلے جیسی قوت باقی نہ رہی ہو ۔ نجم النساء کو کردار اس پس منظر میں مرکزی کرداروں سے بھی نمایاں ہے۔ بعض نقاد تو اسے اصل ہیروئن بھی کہتے ہیں، کیونکہ ہیرو اور ہیروئن تو وہی ہوتے ہیں، جو مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
مجنون گورکھپوری ، احتشام حسین، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر وحید قریشی نے مثنوی سحر البیان کی کردار نگاری کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے نجم النساء کے کردار کو کامیاب قردار دیا ہے۔ اس کا چنچل پن ، اس کی شرارتیں اور اس کا جو گن پن کو بے نظیر اور بدر منیر کی مدد کرنا، یہ ایسی چیزیں ہیں، جو اس کے کردار کو بقول احتشام حسین بہت زیادہ فعال بنادیتی ہیں جس کے اندر تحرک اور زندگی ہے۔ ان کرداروں بالخصوص نجم النساء کے کردار کے حوالے سے میر حسن کو ایک کامیاب کردار نگار کہا جا سکتا ہے۔ بعض نقاد نجم النساء کے کردار کو اردو مثنویوں میں سب سے جاندار اور توانا سمجھتے ہیں ۔ گلزار نسیم“ میں چونکہ معنی آفرینی زیادہ ہے اور قصے کو پھیلانے کے بجائے اختصار کی طرف مائل رکھا گیا ہے، اس لیے اس میں کردار نگاری اتنے وسیع پیمانے پر نہیں آئی ، مگر میر حسن چونکہ قصے کو وضاحت کے ساتھ لکھ رہے تھے، اس وجہ سے کردار نگاری کی طرف انہوں نے خصوصی توجہ دی اور یہی ان کی کامیابی ہے۔ سحر البیان میں کرداروں کا بادشاہوں سے لے کر شہزادوں اور شہزادیوں سے لے کر کنیزوں تک ایک جال بچھا ہوا ہے لیکن میر حسن نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنے کرداروں سے انصاف کریں اور اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے جب اپنے کرداروں کی خوشی پر نغمہ نبی کی تو پورا ماحول گنگنا اٹھا ہے اور جب ان کے غموں پر ماتم کیا تو پورا ماحول سوگوار ہو گیا ہے۔
5.2 سحر البیان کا معاشرتی اور تہذیبی شعور
بہت سے ناقدین نے مثنوی سحر البیان کے تہذیبی اور معاشرتی پس منظر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس مثنوی میں معاشرت نگاری یا تہذیبی اور عمرانی تصویریں بھی نظر آتی ہیں، جس کے ذریعے ہم اس دور کی تہذیب اور معاشرت کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ قصہ گوئی میں یہ خصوصیت خود بخود آ جاتی ہے، کیونکہ جب قصہ گو کہانی بیان کرتا تھا، تو لازمی طور پر کرداروں کے اٹھتے بیٹھتے، جنگیں کرنے شق کرتے دکھاتا تھا، اس کے قصے میں طرح طرح کے مقامات آتے تھے۔ کہیں دربار کا نقشہ کہیں پریوں کی دنیا کہیں کوئی جنگل یا صحرا جس میں مرکزی کردار بھٹک جاتا ہے۔ کہیں کوئی باغ اور دریا ہے ۔ اسی طرح مثنوی نگار کے پاس بھی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ زندگی کے ان تمام پہلوؤں کے متنوع رنگ مثنوی میں بھی در آتے ہیں، جس کی بناء پر قصہ محض قصہ
نہیں رہتا، بلکہ اس عہد کے معاشرتی، تہذیبی اور عمرانی طرز احساس کا نمونہ بھی بن جاتا ہے۔ داستانوں اور مثنویوں کے اس رخ کو اردو کے معاشرتی اور عمرانی نقادوں نے بہت زیادہ ابھارا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے ، تو سحر البیان اردو کو کامیاب ترین مثنویوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے معاملات ، رہنے سہنے کے انداز ، شادی بیاہ کی تقریبات ، لباس اور زیورات کی تفصیل، پیدائش کے موقع کی رسمیں ، ان تمام کے حوالے ہمیں سحر البیان میں نظر آتے ہیں۔ پھر اس میں انسانوں کے مختلف طبقے نظر آتے ہیں۔ بادشاہوں کا طبقہ، ان کا زندگی بسر کرنے کا انداز عام لوگوں کا طرز زندگی ملازموں اور خادموں کے سپر د کس قسم کے کام ہوتے تھے، ان تمام کی تصویریں ہمیں سحر البیان میں نظر آتی ہیں اور یہ عنصر بھی ایسا ہے، جس پر تمام ناقدین متفق ہیں کہ میر حسن اس میں حد درجہ کامیاب ہیں۔ چونکہ میر حسن کا اپنا ماحول دہلوی تھا اور انہوں نے اودھ کے ماحول کو بھی دیکھا تھا، لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کی تصویر کشی میں فعال کردار ادا کیا۔ ان تصویروں سے ایک پوری معاشرت اور تہذیب کے خدو خال ابھر کر نمایاں ہوتے ہیں۔
5.3 سحر البیان میں واقعہ نگاری
شاعری بنیادی طور پر تو ڈرامائی ہوتی ہے کہ جس میں کردار خود بخود عمل کر کے دکھاتے ہیں یا غنائی ہوتی ہے کہ جس میں گیت کا انداز ہو یا وہ بیانیہ ہوتی ہے۔ مثنوی میں سب سے زیادہ نمایاں عنصر بیانیہ عنصر ہے۔ اس میں کچھ عناصر ڈرامائی بھی ہوتے ہیں، کیونکہ اس میں با قاعدہ طور پر کردار بھی ہوتے ہیں۔ بیانیہ انداز میں قصے کے واقعات ہوتے ہیں ۔ لہذا مثنوی میں واقعہ نگاری کو بہت دلچسپ ہونا چاہیے۔ مثنوی سحر البیان میں بہت سے قصے نہیں ہیں، بلکہ ایک مرکزی قصے کی طرف توجہ ہے۔ اس لیے میر حسن کا بیانیہ بہت مضبوط ہے۔ وہ واقعات کی مختلف کڑیوں کو مہارت سے جوڑتے ہیں، جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کی دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے اور واقعہ بڑے فطری انداز میں آگے بڑھتا ہے۔
5.4 سحر البیان میں جذبات نگاری
جذبات نگاری اگر چه کردار نگاری کے ساتھ منسلک ہے، کیونکہ کرداروں کے جذبات ہوتے ہیں اور وہ کرداری اور نفسیاتی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ ایک قصہ گو کا کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جذباتی کیفیات اور نفسیاتی احساسات کو مہارت سے بیان کرے۔ نقادوں نے جہاں میر حسن کی کردار نگاری پر بحث کی ہے۔ وہاں انہوں نے ان کی جذبات نگاری کو بھی سراہا ہے۔ مثنوی میں کئی جذباتی کیفیات ہوتی ہیں ۔ مثلاً محبت میں مبتلا ہونا کسی کا بچھڑ جانا ، انسانوں کے باہمی رشتے ، ماں باپ کا اولاد سے تعلق ، روشنی کی قدر، دوسروں سے ہمدردی رکھنا کسی کے کام آنا وغیرہ ۔ میر حسن نے جہاں کردار نگاری کے دیگر پہلوؤں کو نبھایا ہے، وہاں ان جذباتی
کیفیات کو بھی بڑی مہارت سے گرفت میں لیا ہے۔ چونکہ میر حسن کی مثنوی میں پھیلاؤ ہے، اس وجہ سے وہ ان جذباتی کیفیتوں کو پھیلا کر بیان کرتے ہیں۔ مثنوی گلزار نسیم میں چونکہ اختصار ہے، اس لیے وہاں پھیلاؤ کے بجائے کوزے میں دریا بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گلزار نسیم میں نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو کھول کر بیان کرنے کے بجائے اشاراتی انداز اپنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نقادوں نے بالخصوص ہجر کی کیفیت کا موازنہ کیا ہے اور میر حسن کے ہاں اس کیفیت کا جو نقشہ ابھرتا ہے اسے فوقیت دی ہے۔ اگر چہ کر البیان اور گلزارنسیم دونوں علیحدہ علیحدہ دائروں کی مثنویاں ہیں اور ان کو اس طرح سے حریفانہ حیثیت دینا غالبا درست نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ چونکہ میرحسن جذبات کی مکمل شرح کرتے ہیں، اس وجہ سے وہ جذبات نگار کے طور پر زیادہ کامیاب ہیں اور ان کے ہاں انسانی رشتوں کا جو تصور نظر آتا ہے اور جو آگاہی ملتی ہے وہ انہیں ایک باکمال مثنوی نگار کے طور پر ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس لیے پروفیسر احتشام حسین نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ میر حسن کا نقطہ نظر خالصتا انسانی ہے۔
میر حسن انسانی جذبات کی ادائیگی کے شہنشاہ ہیں۔ آپ اس ضمن میں شہزادے کے غائب ہونے پر کنیزوں کی حالت زاری
پر مبنی اشعار پڑھیں، تو اس کا اندازہ ہوگا ۔ مثال
کوئی دیکھے یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے ہی اپنا کھونے لگی
کوئی بلبلائی کی پھرنے لگی
کوئی ضعف کھا کھا کے کرنے لگی
5.5 سحر البیان میں فطرت نگاری اور منظر نگاری
بہت سے ناقدین نے میر حسن کے اس پہلو پر انہیں داد دی ہے اور ان کی مہارت کا اعتراف کیا ہے۔ میر حسن جب کسی منظر کو بیان کرتے ہیں یا کسی جگہ کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ تو اس کی ہو بہو تصویر سامنے آ جاتی ہے، بلکہ مجون گورکھپوری تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس طرح کی کامیاب مصوری اگر کوئی شاعر جانتے ہیں، تو وہ یا تو میر حسن ہیں یا ان کے پوتے میرا انیس ہیں ۔ میر حسن نے جب باغ کا منظر دکھایا ہے، تو وہاں وہ تصویر میں ہی بکھیرتے چلے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں بادشاہ کے باغ لگانے کا جو حال ہے، وہ نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ باغ کے درخت، پھول، پرندے ، نہریں ، آبجوئیں، چشمے یہ تمام مرقعے اتنی مہارت سے دکھائے گئے ہیں کہ پوری تصویر ہمارے سامنے گھوم جاتی ہے۔ جزئیات نگاری میں میر حسن ویسے ہی کامیاب ہیں، لیکن فطرت کا ماحول بھی نمایاں کرنے کے لیے وہ جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ مثنوی سحر البیان میں چاندنی رات کا منظر اور میر حسن کی تصویر کشی اردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔ میر حسن منظر نگاری کے ڈانڈے جذبات نگاری کے ساتھ ملاتے ہیں اور اس طرح کہ دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ میر حسن باغ کو سجاتے ہیں، جیسے ایک تختہ گل ہمارے سامنے ہو۔ نہر کے کنارے پھولوں کا
جھومنا ، سرو کے درختوں پر قمریوں کے چیچے ، ہرے بھرے باغ فطرت کے خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں۔ میر حسن نے اپنی اس مثنوی میں شام وسحر کے کتنے ہی مناظر محفوظ کر دیئے ہیں۔ کہیں شاموں کے حسین نظارے لہرا رہے ہیں۔ تو کہیں چاندنی کا نور چھن رہا ہے۔ ناچ گانے کی محفلیں، شہزادے کی سواری کی تیاری ، شادی بیاہ کی رسوم، درباریوں کی دربار داریاں ، نجومیوں جیوتشیوں کے جھگڑے، کنیزوں کی چہلیں ، موسیقی کے کمالات ان تمام مناظر کی تصویر کشی میر حسن کے ذہین رسا کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زمین کا کروں واں کی کیا میں بیاں
عجب چاندنی میں گلوں کی ہو بہار
وہ اجلا سا میداں چہکتی کی ریت
کہ صندل کا تھا ایک تختہ عیاں
ہر اک گل سفید سے مہتاب زار
اگا نور سے چاند تاروں کا کھیت
5.6 سحر البیان کی جزئیات نگاری
جزئیات نگاری سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی واقعے کے منظر کی تفصیل بیان کرتے وقت اس کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو بھی سامنے لایا جائے۔ سحر البیان اس سلسلے میں دوسری مثنویوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے میر حسن کے مشاہدے کا کمال کا پتہ بھی چلتا ہے، کیونکہ ایک جزئیات نگار کا مشاہدہ بہت عمیق اور وسیع ہوتا ہے۔ اسے زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں وسیع معلومات ہونی چاہئیں۔ مختلف علوم کی اصطلاحات تک اس کی رسائی ہونی چاہیے۔ میر حسن نے اس بار یک بینی کا ثبوت دیا ہے کہ وہ جب کسی واقعے کو بیان کرتے ہیں، تو اس کی چھوٹی چھوٹی تفصیل کو بھی ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ جب وہ کسی منظر کو بیان کرتے ہیں، تو اس کو بھی تمام تر جزئیات سمیت بیان کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں شہزادے کی پیدائش کے موقع پر جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں، وہ ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ جب نجومی اور پنڈت شہزادہ بے نظیر کا زائچہ تیار کرتے ہیں، تو وہاں میر حسن نے نجوم اور زائچہ شناسی کی بے شمار اصطلاحات کا استعمال کیا ہے۔ جہاں شہزادے کی تعلیم و تربیت کا ذکر ہے، وہاں مختلف فنون اور علوم کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ ، اس طرح شادی بیاہ کی تقریبات اور عام مجلسوں کا نقشہ جس طرح میر حسن نے کھینچا ہے، اس سے ان کے مشاہدے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
5.7 سحر البیان میں مافوق الفطرت عناصر
قدیم داستانوں اور قصوں میں مافوق الفطرت عناصر کی بھی کثرت ہوتی تھی۔ ان میں جنوں پر یوں کی دنیا بھی دکھائی جاتی تھی اور مختلف قسم کے شہدے بھی۔ ان میں کچھ نادر چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ مثلاً جادو کے قالین معجزہ رکھنے والی انگوٹھی وغیرہ۔ ان تمام چیزوں خ کے بارے میں ہماری اردو تنقید کا ایک عام رویہ یہ رہا ہے کہ یہ غیر مقلی چیزیں ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ تو ہمات ہیں اور ان کی آج کی دنیا میں کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ میر حسن نے ہاں بھی جو مافوق الفطرت عناصر نظر آتے ہیں، نقاد عموما ان کے بارے میں ایک معذرتی رویہ رکھتے ہیں۔ سحر البیان کے بارے میں بھی یہی کہا گیا مگر اردو ادب کے طالب علموں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہماری اردو تنقید جس زمانے میں زیادہ پھلی پھولی، اس کے پیچھے و علم اور فلسفہ کام کر رہا تھا، اس پر مادیت اور عقلیت کی چھاپ تھی ، جب کہ بعد میں جدید علوم نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ چیز میں بالکل بے کار نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے عقلی حقیقتیں نہیں، بلکہ نفسیاتی حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ چنانچہ جدید نفسیات نے ان کی وضاحت نفسیاتی رنگ میں کی۔ فرائیڈ کی نفسیات نے انہیں جنسی نفسیات کہہ دیا۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے فرائیڈ کا اثر قبول کیا۔ اس لیے انہوں نے عورتوں کے کردار کو نرگسیت اور ہسٹریا جیسی کیفیتوں سے دیکھا ، مگر افرائیڈ کے بعد کے نفسیات دانوں نے خود فرائیڈ کی تشریح سے اختلاف کیا اور یہ کہا کہ ان چیزوں کو صرف جنسی حوالے سے دیکھنا درست نہیں۔ ان کے پیچھے انسان کے اجتماعی لاشعور کی حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ان کا تعلق محض جنس یا جبلت کی سطح پر نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی ذات کے اعلیٰ پہلوؤں سے بھی وابستہ ہیں اور ان کے پیچھے معافی اور حقائق بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہوئے جدید علوم کے ان نظریات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
5.8 سحر البیان میں مقامی رنگ
میر حسن کی مثنوی سحر البیان میں جو ماحول دکھایا گیا ہے، اس میں ایرانی مزاج اور ہندی ماحول آپس میں گلے ملتے نظر آتے ہیں ۔ سحر البیان میں کچھ چیزوں کا تعلق ایرانی ماحول سے ہے اور کچھ کا تعلق ہندوستانی ماحول ستے ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ مثنوی نگاروں پر ایرانی مثنوی کی روایت کا بڑا اثر تھا، چنانچہ بہت سے عناصر اردو مثنوی میں فارسی سے اثر پذیری کے باعث داخل ہوئے ۔ دوسرا یہ کہ اس زمانے کی ہندی تہذیب اور رسوم و رواج بھی اہمیت کے حامل تھے۔ گوچی چند نارنگ نے خاص طور پر میر حسن کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میر حسن جہاں باغ کا ذکر کرتے ہیں، تو وہاں ایرانی پھولوں کا بھی تذکرہ ہے اور مندوستانی پھولوں کا بھی ۔ میر حسن شادی بیاہ کی رسومات کو بیان کرنے میں ہندی تہذیب سے بہت کچھ اخذ کرتے ہیں۔
5.9
سحر البیان کا اسلوب
میر حسن کی مثنوی سحر البیان فنی خصوصیات کی بناء پر بھی حد درجہ جاذب نظر ہے۔ اس کے اسلوب میں جو بہاؤ ہے، روانی اور سادگی ہے، اس کی تعریف تمام نقادوں نے کی ہے۔ یہ سادگی اور روانی آسانی سے پیدا نہیں ہوتی ۔ خود میر حسن نے بتایا ہے کہ انہوں نے اس مثنوی پر کتنی محنت کی تب کہیں جا کر موتیوں جیسے حروف لوگوں کے سامنے آئے ۔ آزاد نے کہا تھا کہ یہ مثنوی ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے سبزے پر آب رواں بہہ رہا ہو ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ”گلزار نسیم“ میں زبان کے کمالات ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ مثنوی گلزارنسیم کی بنیادی خصوصیت یہی ہے لیکن یہ نتیجہ نکا لن غلط ہے کہ میر حسن کے ہاں یہ کمالات نہیں ہیں۔ میر حسن نے بھی شعری محاسن یعنی تشبیہوں اور رعایت لفظی کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ اس مثنوی کی اسلوبیاتی خصوصیات اپنی جگہ پر قائم . ہیں۔ اس میں نغمگی اور غنایت بھی قابل توجہ ہے۔ میرحسن نے جو بحر اس مثنوی کے لیے منتخب وہ بحر خود بڑی رواں دواں ہے اور واقعات کی جو تفصیل وہ بیان کرتے ہیں، یہ بحران کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے خیال میں مثنوی لکھنؤ کے فنی اور جمالیاتی ماحول میں تخلیق ہوئی لیکن اس کو تخلیق کرنے والا ایک ایسا شخص خصیت کی نشو و نما دہلی کے فنی اور جمالیاتی ماحول میں ہوئی۔ محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب ” آب حیات میں کہا ہے کہ میر حسن کو سو برس آگے والی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو ہے جو آج کل ہم تم بول رہے ہیں۔ مثنوی سحر البیان میں زبان کی صفائیاں دور اس کی شگفتگی دیکھ کر حیران ہوتی ہے کہ میر حسن کو اس پر کتنی قدرت تھی۔ اس خوبی کا اعتراف کلیم الدین احمد جیسے سخت نقاد کو بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محاورات ہر جگہ رواں نظر آتے ہیں لیکن زبان کی مثال کسی حسین زیور کی نہیں ، بلکہ یہ حسین فطری پھول معلوم ہوتی ہے ۔ میر حسن کے بیان کی شگفتگی اور دل کشی، الفاظ کی نرمی ، محاوروں کی پاکیزگی اور صفائی بلاشبہ فصاحت کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہے۔ میر حسن کے مکالمے روز مرہ کی بول چال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔
مثنوی نگاری میں میر حسن کا مقام
عزیز طلبہ و طالبات ! ہم نے گزشتہ صفحات میں میر حسن کی (12) مثنویوں کا اجمالی طور پر ذکر کیا تھا، ہر چند کہ یہ تمام کہ مثنویاں اپنی موضوعاتی نوعیت کے اعتبار سے اہم ہیں۔ تاہم میر حسن کے اصل جو ہر ان کی مثنوی سحر البیان میں لکھتے ہیں اور یہی مثنوی میر حسن کی پہچان بھی ہے۔ اس مثنوی کا شمار اردو کی کلاسکس میں ہوتا ہے۔ قبول عام کی انتہا یہ ہے کہ پونے دو سو سال میں اس منظوم کارنامے کے کتنے ہی ایڈیشن شائع ہوئے اور آج بھی اس کی مقبولیت روز اول کی طرح قائم و دائم ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ سحر البیان زندگی، تہذیب ، معاشرت، انسانی جذبات او انسانی زندگی کی اعلیٰ اور ارفع ارتداد کا ایک نہایت حسین مرقع ہے۔
یہ مثنوی حقیقت میں اپنے اندر بیان کا سر رکھتی ہے اور میر حسن نے یہ بھی درست کہا ہے کہ اس میں انہوں نے سخن کے دریا بہا دیے ہیں۔ اس مثنوی سے میر حسن اور ان کے معاشرے کے مذہبی افکار اور اخلاق اقدار پر بھی روشنی پڑتی ہے، جو اس معاشرے کے
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں