میر بحیثیت شاعر

کتاب کا نام میرو غالب کا خصوصی مطالعہ
صفحہ نمبر 203 .204
مرتب کردہ ثمینہ کوثر
-2- میر بحیثیت شاعر

میر بحیثیت شاعر

کوئی نقاد، کوئی محقق ، کوئی تذکرہ نویس، کوئی صاحب وجدان میر کی عظمت سے انکاری نہیں، بلکہ ہر عہد میں ان کی خدمت میں ہدیہ عقیدت اور گلہائے حسین و آفریں پیش کیے جاتے رہے ہیں، بندگان شعر نے انھیں خوشی کے ساتھ خدائے سخن مانا ، شیفتہ گلشن بے خار میں ان کو اشعر الشعراء میں حسن افصح فصحائے زمانہ، قائم شمع انجمن عشقبازاں شفیق میر میدان سخنوری کہتے ہیں،

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر سوانحی حالات اور شاعری | pdf

اسی طرح دوسرے لوگ بھی ان کی توصیف میں رطب اللسان ہیں، مگر ہم ان سب سے زیادہ خود میر پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ وہ باکمال شاعر ہی نہیں کامل نقاد بھی ہیں ۔ اُنھوں نے بار بار اپنے کلام پر غائر نظر ڈالی ہے اور فیصلہ دیا ہے:

ریختہ رہے کو پہنچایا ہوا اُس کا ہے معتقد کون نہیں میر کی استادی کا ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو چاہیے اہلی سخن میر کو استاد کریں

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی سوانح حیات حصہ دوم

2.1 کلام میر کی نمایاں خصوصیات

میر شاعری کو فن شریف سمجھتے ہیں اور اس کے لیے علمی قابلیت اور معلومات فن کو ضروری جانتے ہیں، روزمرہ اور محاورے کے معتدل استعمال نے ان کی شاعری کو روانی ، سلاست اور تاثیر عطا کی ہے ، ندرت خیال اور ندرت زبان میر کی شاعری کا نمایاں وصف ہے، وہ فارسی تراکیب سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں

لیکن اس التزام کے ساتھ کہ وہ عوام الناس کے لیے نا مانوس نہ ہوں ۔ میر نے ابہام اور ایہام کی روایت کو سلیقے سے نبھایا ہے اور اپنے کلام کو تنافر سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے۔

ان کی تلمیحات دلنشین، تشبیہ و استعارہ قرین قیاس، اور جینیس و ترصیح بلاغت پر آمادہ ہے، ادا بندی ، خیال آفرینی ، ظرافت کی ہلکی سی چاشنی ، بے باکی وصاف گوئی ان کے اشعار کو داخلی اور خارجی ہنرمندی عطا کرتی ہے۔ میر کے اشعار نفسیات انسانی کے ترجمان ہیں۔

انھوں نے محبت اور معاملہ بندی کے مضامین کو کمال شائستگی سے نبھایا ہے۔ اس ضمن میں محاکات شعری کا استعمال میر کے فلسفہ جمالیات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی اور زمانے کی بے ثباتی کے مضامین ایک سلسلہ اخلاق مرتب کرتے ہیں

لیکن میر کی شاعری کے دو بڑے اوصاف جو انھیں خدائے سخن کا درجہ دیتے ہیں وہ ہیں میر کا رنگ تغزل جو موسیقی ، آہنگ ہمرار الفاظ ، مترنم بحور اور انتخاب الفاظ کاپیراہن پہن کر آنسوؤں سے بھیگی ہوئی قوس و قزح میں تبدیل ہو جاتا ہے ، دوسرا وصف میر کا فلسفہ عشق اور طلقہ غم ہے یہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے چلتے ہیں۔

ان کا غم محبت کو ابدیت عطا کرتا ہے اور ان کی محبت غم کی مستقل آبیاری کرتی ہے۔ محبت اور غم کے اسی دوستانے سے میر کا و لب ولہجہ ترتیب پاتا ہے جس کی بنیاد سراسر استفہام پر رکھی گئی ہے اور جس میں میر کا کوئی ثانی نہیں ۔

صناف کلام میر

-1 غزلیات ، میر کی غزلیات کے چھ دیوان ہیں اور غزل میر کی پہچان ہے۔

-2 قصائد، میر نے بہت سے قصائد کہے ہیں لیکن ان کے قصیدوں میں نہ زور ہے نہ علو خیال ۔

-3 رباعیات:۔ میر نے سو سے زایدر با عیاں کہیں مگر وہ برائے بیت ہیں۔

-4 مخمس، مسدس، ترکیب بند، ترجیح بند ، واسوخت ، ہفت بند بھی ان کے کلیات میں موجود ہیں۔

-5 مثنویات، میر نے کچھ مثنویات بھی لکھی ہیں لیکن مثنوی کے فن میں وہ کوئی خاص درجہ نہیں پاسکے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں