میر بحیثیت میر شناس

کتاب کا نام میروغالب کا خصوصی مطا لعہ ۱
صفحہ نمبر 175.76
مرتب کردہ ثمینہ کوثر
1.2 میر بحیثیت میر شناس

میر بحیثیت میر شناس

میر شناسی، میر کی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ میر نے بذات خود اپنی شاعری کی بعض خصوصیات کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے ۔ ان اشعار سے میرشناسی کے بعض رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ چند ایک شعر ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز

تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

جہاں سے دیکھیے یک شعر شور انگیز نکلے ہے

قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

ریختہ خوب ہی کہتا ہے، جو انصاف کرو

چاہیے اہل سخن میر کو استاد کریں

ریختہ رہے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میر کی استادی کا

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر سوانحی حالات اور شاعری | pdf

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریشوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں نہیں مانا نحن اپنا کسی سے ہماری گفتگو کا ذهب جدا ہے بات بتانا مشکل سا ہے شعر کبھی ہاں کہتے ہیں فکر بلند سے یاروں کو اک ایسی غزل کہہ لانے دو

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے دردوغم کتنے کیسے جمع تو دیوان کیا اس پردے میں تم دل کہتا ہے میر اپنا کیا شعر و شاعری ہے یارو شعار عاشق شعر میرے ہیں

یہ بھی پڑھیں : میر تقی میر کی سوانح حیات حصہ دوم

سب خواص پسند پر مجھے گفتگو عوام سے ہے جس شعر پہ سماع تھا کل خانقاہ میں وہ آج میں سنا تو ہے میرا کیا ہوا حسن تو ہے ہی کر واطف زباں بھی پیدا میر کو دیکھو کہ سب لوگ بھلا کہتے ہیں میر دریا ہے نے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

میر کے ان اشعار کو مد نظر رکھتے ہوئے میر شناسی کے بعض مراحل طے کیے جاسکتے ہیں۔ میر شناسی کے اہم رجحانات کا جائزہ لینے سے پہلے میرشناسی کے سلسلہ میں محققین اور ناقدین کی جو تحقیقی و تنقیدی کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے تا کہ میر شناسی کے اہم رجحانات کا تعین کیا جا سکے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں