میر انیس اور ان کی مرثیہ نگاری

کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم
کوڈ : 9003
صفحہ: 206
موضوع: میر انیس اور ان کی مرثیہ نگاری

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

میر انیس اور ان کی مرثیہ نگاری

میر ببر علی انیس ۱۸۰۳ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے ” واقعات انیس کے مؤلف میر مہدی حسن احسن لکھنوی کے مطابق میر انیس کے مورث اعلی میر امامی موسوی شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے آکر دہلی میں آباد ہوئے ۔ ( واقعات انیس ہیں۔ ۲۵) ان کے بعد خاندان کے بزرگوں کی ترتیب یوں بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات

میر برات اللہ ، عزیز اللہ ، میر غلام حسین ضاحک ( پردادا ) میر حسن (دادا) میر مستحسن خلیق ( والد ) اور میر بر علی انیس ۔

ڈاکٹر سلیم اختر اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں کہتے ہیں کہ اس خاندان میں شاعری کا نقطہ آغاز میر غلام حسین ضاحک سے ہوتا ہے اور میر انیس کے صاحبزادہ خورشید علی نفیس تک بطریق احسن چلتا رہا۔ چا میر مخلوق اور میر خلق بھی مرثیہ گو تھے ۔۔۔۔ جب چالیس برس کی عمر میں میرا نہیں فیض آباد چھوڑ کر لکھنو میں آئے تو ایک طرف فصیح ضمیر ، اور دیگر مرثیہ گو شاعروں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی تو دوسری طرف میر زاد پیر کی مقبولیت کا غلغلہ تھا۔

خود انہیں عمر کے اس حصے میں تھے جب انسان کا مزاج اور عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں لیکن انیس نے جتنی جلدی خود کو لکھنوی مزاج میں ڈھالا اور دبیر جیسے قادر الکلام شاعر کے مقابلے میں اپنی اہمیت تسلیم ہی نہ کرائی بلکہ سامعین اور مداحین کا ایک ایسا حلقہ بھی پیدا کر لیا جس میں عہد بہ عبد اضافہ ہوتا گیا تو اس سے بڑھ کر میر انیس کی تخلیقی صلاحیتوں کا اور کیا اعجاز ہو سکتا ہے اس لیے میرانیس اپنی قادر الکلامی کا کچھ یوں دعوی کیا کرتے تھے :

ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں

بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں

ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کر دوں

گنگ کو ماہر انداز تکلم کردوں

یہ بھی پڑھیں: میر انیس: مرثیہ کردار نگار خواتین کے خصوصی مطالعہ سے | PDF

امداد امام اثر کے بقول : میر انیس صاحب کے تناسب کلام کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یہی تناسب ہے جو کسی مرثیہ نگار کو اب تک نصیب نہیں ہو سکا۔ اردو مرثیہ کا فن میر انیس کے خاندان میں پانچ پشتوں سے چلتا آ رہا تھا۔ تبھی تو میر انیس نے اس سعادت پر کہا تھا:

عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

میر انیس کی مرثیہ نگاری میں واقعہ نگاری ، منظر نگاری، کردار نگاری ، جزئیات نگاری ، تشبیات و استعارات ، ضائع و بدائع کا بڑا خوبصورت استعمال نظر آتا ہے ۔ واقعات کو جس طرح میر انیس نے جزئیات کے ساتھ دکھایا ہے اس کی مثال کسی اور مرثیہ گو کے ہاں نظر نہیں آتی ۔ کلام میں فصاحت و بلاغت بدرجہ اتم موجود ہے۔

میر انیس کے مشہور مرھیے مندرجہ ذیل ہیں:

1 -آج شبیر یہ کیا عالم تنہائی ہے
2- نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری

3 -جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے

4 -جب رن میں سر بلندی علی کا علم ہوا

5 -آمد آمد حرم شاہ کی دربار میں ہے

6 -کیا غازیان فوج خدا نام کر گئے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں