آزاد کے مضون سیر زندگی کا اسلوبیاتی تجزیہ

آزاد کے مضون سیر زندگی کا اسلوبیاتی تجزیہ | Azad ke Mazmoon "Seer-e-Zindagi” ka Aslubiati

تحریر: ڈاکٹر نائلہ ارم،مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد

اردو میں مضمون نگاری ایک مختصر تعارف

انیسویں صدی میں علی گڑھ تحریک کا آغاز سرسید احمد خان کی مضمون نگاری سے ہوا۔ یہ اصلاحی تحریک اور مقصدی ادب کی علمبردار تھی اردو میں نثر کی کلاسیکی اصناف میں کوئی ایسی صنف نہ تھی جس کا ابلاغ اور اثر فوری اور براہ راست ہوتا۔ چنانچہ سرسید نے انگریزی رسالوں کی طرز پر تہذیب الاخلاق رسالہ جاری کیا اور ان کے رفقاء نے بھی اسی اسلوب پر اس میں مضامین لکھے۔

مضمون نگاری کا آغاز مارچ ۱۵۷۱ء میں فرانسیسی فلسفی مانیٹن نے کیا اور اس کا نام (Essay) ركها ستره سال بعد اس صنف کو برطانوی مصنف بیکن نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ صنف دنیا بھر کی زبانوں میں مقبول ہوئی۔


مضمون نگاری اردو نثر کی خاص صنف ہےـ انگریزی میں اسے Essay کہتے ہیں ـ یہ غیر افسانوی صنف ہےـ جس کا آغاز اردو میں دہلی کالج سے ہوتا ہےـ سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں نےاس صنف کو بہت فروغ دیاـ
مضمون کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ کسی موضوع پر اپنے خیالات کومربوط اور مدلل انداز میں اس طرح پیش کرناکہ پڑھنے والا اس کو سمجھ کر متاثر ہو سکے،مضمون کہلاتا ہےـ

سر سید احمد خان نے مضمون نگاری کے لیےتین شرطوں کو ضروری قرار دیا ہے


۱۔ مضمون کا پیرایے بیان سادہ ہو ، پیچیدہ اور پرتکلف اسلوب مضمون کا عیب ہےـ


۲۔ مضمون کی دوسری شرط یہ ہے کہ جو خیالات اور جو باتیں اس میں پیش کی جائیں ان میں دلکشی ہو صرف الفاظ اور انداز بیان کا دلکش ہونا مضمون کے لیے کافی نہیں ـ


۳۔ تیسری اور آخری شرط اچھے مضمون کے لیےیہ ہے کہ مضمون نگار کے دل میں جو بات ہو وہ پڑھنے والوں تک پہنچے، اس سے مراد یہ ہے کہ مضمون میں جو خیالات پیش کیے جائیں وہ اس طرح مربوط ہو جس طرح زنجیرکی کڑیاں ایک دوسرے سے مربوط ہوتی ہیں خیالات میں ربط نہ ہونا اور انتشار کا پایا جانا مضمون کا عیب ہےـ

ہر پیراگراف اپنے پہلے پیراگراف سے فکری سطح پر جڑا ہونا چاہیےـ

عام طورپر ہر مضمون کے تین حصے ہوتے ہیں

تمہید اصل مضمون اختتام یا انجام

محمد حسین آزاد کی مضمون نگاری

شمس العلماء محمد حسین آزاد ارود کے عناصر خمسہ میں سے ہیں۔ یوں تو اردو زبان وادب کے محسنین کی ایک طویل فہرست ہے لیکن مولا نا محمد حسین آزاد کا نام سر فہرست ہے۔

غالب دہلوی نے صرف تنگنائے غزل کا احساس کیا اور اپنے اظہار شوق کے لیے کچھ اور وسعت کی تمنا کی لیکن آزاد نے اپنے قیام لاہور میں جب انگریزی کے مقابلہ میں اردو کے ادبی سرمایہ اور اسالیب بیان کا جائزہ لیا تو اسکی کم مائیگی دیکھ کر تڑپ گئے اور تڑپ کر خاموش نہیں ہو گئے بلکہ اردو کے سرمایہ میں اضافہ اور اسالیب ب میں تنوع پیدا کرنے میں منہمک ہو گئے

آزاد ہی سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اردو کی تہی دستی و مفلسی کا احساس کیا اور تاریخ ادب و لسانيات ” انشاء البيات، سیرت و تنقید جغرافیہ و تاریخ غرض مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور اردو کے دامن کو نادر اور بیش بہا جواہر پاروں سے بھر دیا آزاد نے نیرنگ خیال کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ وہ اردو کے میدان میں سوار نہیں پیادہ ہیں

لیکن یہ ان کا محض انکسار ہے درحقیقت وہ سوار ہی نہیں شہوار ہیں جن کے ہاتھ میں اردو کا علم ہے اور بڑی چابک دستی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے معاصرین اور متاخرین کے لیے جولان گاہ ادب اردو میں نئی نئی راہیں نکال لیتے ہیں اس لیے مہدی افادی نے آزاد کو اردوئے معلیٰ کا ہیرو قرار دیا ہے۔


محمد حسین آزاد ایک عقبری شخصیت کے مالک تھے۔ عربی اور فارسی زبانوں میں ماہر تھے اور انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف تھے ۔

اس سے انہوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا۔ قدیم ادبی روایات پر جہاں گہری نظر تھی وہیں جدید ادبی
رجحانات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اردو شاعری کو جدید رجحانات سے واقف کرانے کا سہرا ان ہی کے سر ہے۔

چنانچہ بہت سے قومی و اخلاقی مناظر فطرت سے متعلق موضوعات پر نظمیں لکھ کر اردو شاعری میں انقلاب پیدا کیا۔ آب حیات نیرنگ خیال در بار اکبری سخندان فارسی جیسی کتابیں لکھ کر آزاد نے اردو نثر نگاری کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ یہ تمام کتا بیں آزاد کی بے پناہ تخلیق اور تنقیدی صلاحیتوں اور انشاپردازانہ کمالات کا مظہر ہیں

نیرنگ خیال آزاد کے مضامین کا مجموعہ ہے۔نیرنگ خیال تیرہ مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین تمثیلی انداز میں لکھے گئے ہیں۔ آغاز میں اسے دو حصوں میں لکھا گیا۔ سات مضامین پر مشتمل پہلا حصہ 1880ءمیں شائع ہوا۔ چھ مضامین پر مشتمل دوسرا حصہ آزاد کی وفات کے بعد 1923ءمیں شائع ہوا۔


نیرنگ خیال کے مضامین انگریزی کے معروف انشاءپردازوں جانسن، ایڈیسن اور سٹیل کے مضامین سے ماخوذ ہیں۔ آزاد ان میں جانسن سے زیادہ متاثر معلوم ہوتے ہیں اور ان ہی کے ہاں سے اخذ و ترجمہ بھی زیادہ کیا ہے۔ خود آزاد نیرنگ خیال کے دبیاچے میں تسلیم کرتے ہیں، ” میں نے انگریزی کے انشاءپردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔“


اگرچہ نیرنگ خیال کے مضامین آزاد کا ترجمہ ہیں مگر آزاد کی چابکدستی اور انشاءپردازانہ مہارت نے انہیں تخلیقی رنگ دے دیا ہے۔ ان میں کچھ اس طرح حالات اور مقامی ماحول کے مطابق تبدیلی کی ہے کہ وہ طبع ذاد معلوم ہوتے ہیں۔ نیرنگ خیال میں تیرہ مضامین ہیں۔ ذیل میں آزاد کے مضامین اور انگریزی کے جن مضامین کا ترجمہ کیا گیا ہے اُن میں چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔


۱۔انسان کسی حال میں خوش نہیں )The endeavour of mankind to get red of their burdons

۲۔شہرت عام بقائے دوام کا دربار )The vision of the table of fame

۳۔خوش طبعی )Our ture and false humour
۴۔آغاز آفرینش میں باغ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا )An allegorical history of rest and labour

۵۔جھوٹ اور سچ کا رزم نامہ )Truth falsehood and fiction and allegery

۶۔گلشن امید کی بہار )The garden of hope

۷۔سیرزندگی )The voyage of life

۸۔علوم کی بد نصیبی )The Conduct of patronage

۹۔علمیت اور ذکاوت کا مقابلہ )The allegory of wit and learnign

۱۰۔ نکتہ چینی )The allegory of criticism

اسلوب

اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ادیب کی شخصیت کا عکس اس کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔ جیسے جیسے اس کے اسلوب سے واقفیت ہوتی جاتی ہے اسی طرح اس کی شخصیت کی پر تیں ہمارے سامنے کھلتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ ہمارا ذہن اس ادیب کے نقوش تراش لیتا ہے۔ بعض اوقات اسلوبیاتی مطالعے سے بہت گہرے نقطے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں، اور اسی کے ذریعے سے ہم اردا ادب کی روایت میں کسی بھی ادیب کا مقام و مرتبہ متعین کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ اسلوب ہی ہے جو اپنے لکھنے والے کی پہچان ہوتا ہے۔ سید عابد علی عابد رقم طراز ہیں:


’’اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ انفرادی طرز نگارش ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے متمیز ہو جاتا ہے۔“(۱)


ادبی تنقید نگاری میں اسلوب کے حوالے سے جو پہلی مثال ہمارے سامنے آتی ہے وہ محمد حسین آزاد کی "آب حیات” ہے، جس کے اسلوب پر ہمارے ناقدین نے بہت اعتراضات کیے ہیں اور اسے شاعرانہ رنگین بیانی اور عبارت آرائی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ لیکن آج اگر ہم غیر جانبدار ہو کر تجزیہ کریں تو یہ راز منکشف ہو گا کہ "آب حیات کو آج جو مقبولیت اور بقائے دوام حاصل ہے اس کا ایک بڑا سبب اس کا اسلوب ہے کیونکہ اس اسلوب میں نہ صرف محمد حسین آزاد کی شخصیت نظر آتی ہے بلکہ اس زمانے کی تہذیب بھی منعکس ہوتی ہے۔

اسلوبیاتی حوالے سے دوسری بہترین مثال ڈاکٹر جمیل جالبی کی ” تاریخ ادب اردو کی ہے۔ ناقدین کو ان کے اسلوب پر بھی اعتراض ہوں وہی ناقدین کی ہر اچھی چیز میں کیڑے نکالنے کی عادت یہاں پر بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک طرح سے تو ناقدین کے یہ اعتراضات ان کے حق میں ہی جاتے ہیں ظاہر سی بات ہے جب کوئی چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ ہی نہیں کرے گی تو آپ نہ اس پر اعتراض کر سکیں گے اور نہ اس کی تعریف میں چند الفاظ کہہ سکیں گے۔

یہی حال اسلوب کا ہے جو اسلوب متوجہ کرے گا اسی کے اور حق میں یا مخالفت میں رائے دی جاسکے گی۔اسلوب بہت ہی نایاب چیز ہے اس سبب سے کہ صاحب اسلوب اس سے بھی نایاب تر چیز ہے اور ہزاروں میں ایک پیدا ہوتا ہے۔ اچھی تحریر دلکش تحریر خوبصورت تحریر ، شستہ ، شائستہ اور رواں تحریر فن تحریر پر دسترس کا نتیجہ ہے جو محنت، لگن اور مشاقی سے حاصل ہو سکتی ہے لیکن اسلوب ان سے اور شے دیگر ہے جس کا تعلق با مترو شخصیت اور بے مثال تخلیقی تخیل سے ہے۔
آزاد کا اسلوب نگارش
آزاد ایک صاحب طرز ادیب اور جدت طراز انشا پرداز ہیں، ان کے اسلوب میں ایک انفرادیت ہے جس کی بناء پر وہ ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں فوراً پہچان لئے جاتے ہیں۔ ان کے نداز بیان میں اک دلر بائی ہے۔ان کی
دوشیزہ گر الفاظ وعبارات کا ایسا رنگین اورنظر غریب لباس پہن کر منظر عام پر آتی ہے کہ ہر دیکھنے والے کی نظر اس پر جم کر رہ جاتی ہے۔ نگاہ ہٹنے کا نام نہیں لیتی ۔ یہی جی چاہتا ہے کہ بس دیکھتے ہی رہے ان کی تحریر میں شفق کی سرخی، صبح بہار کی دلا ویزی اور چاندنی کی لطافت ہے ان کے اسلوب کا خمیر صوفی کے تصور شاعر کے تخیل، عاشق کی آرزو اور دو شیزو کے ارمان کی آمیزش سے تیار ہوا ہے۔ ان کے یہاں سادگی میں شوخی ہے اور شوخی میں سادگی ہے۔

یہاں بے خودی بھی ہے اور ہشیاری بھی ہے تشبیہات و استعارات میں مگر عام فہم اور دلکش ان کی طرز تحریر میں نہ تو نذیر احمد کی عربیت اور نہ حالی کا پھیکا پن ہے۔ یہاں الفاظ مانوس تراکیب پاکیزہ اور فقرات رواں ہیں، گلستان کی طرح چھوٹے چھوٹے فقرات ہیں۔ جو صنائع اور بدائع کے شکنجوں سے بے نیاز ہیں مگر ترتیب الفاظ بجائے خود ایک مرصع کاری ہے جو ہر مرصع کار سے ممکن نہیں ہے۔

آزاد ، سرسید اور حالی کا زمانہ تقریبا ایک ہی ہے۔ لیکن سرسید اور حالی انگریزی الفاظ بلا تامل استعال کے کرتے ہیں وہ ایسے انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کے مترادفات اردو میں موجود ہیں ۔ اور کہیں کہیں یہ انگریزی الفاظ فارسی عربی تراکیب کے ساتھ ایسے بھونڈے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کے سنگ مرمر کے بنے ہوئے تاج محل کی عمارت میں معمولی سرخ یا سیاہ پتھر کا پیوند لگا دیا جائے اردو کے اسبک دشستہ الفاظ تہذیب، نظم اور شعبہ کے لیے سولیزیشن پوسٹری اور ڈیپارٹمنٹ کانوں کوناگوار معلوم ہوتے ہیں۔

لیکن آزاد انگریزی کے استعمال سے کتراتے ہیں۔ ہاں وہ بھاشا کے ہلکے پھلے الفاظ کا بر محل استعمال کر کے عبارت میں ایک مٹھاس اور پورج پیدا کرتے ہیں۔

سیر زندگی کا اسلوبیاتی مطالعہ

’’سیر زندگی‘‘ کا مجموعی اسلوب

اس مضمون کا مجموعی اسلوب وہی ہے جو مولانا آزاد کی اور تحریروں میں ہے، خاص کر نیرنگ خیال میں۔ ’’’سیر زندگی ‘‘ کے اسلوب میں سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ ترکیب نگاری،بعض جگہوں پر مسکل پسندی،تشبیات،جزئیات نگاری،مقفی اور مسجع نثر کے ساتھ اعجاز بھی ہے۔ مثال کے طور پر:

’’ایک حکیم کا قول ہے کہ زندگی ایک میلہ ہے اور اس عالم میں جو رنگا رنگ کی حالتیں ہم پر گزرتی ہیں، یہی اس کے تماشے ہیں۔ لڑکپن کے عالم کو پیچھے چھوڑ کر آ گے بڑھے، نوجوان ہوئے اور پختہ سال انسان ہوئے اس سے بڑھ کر بڑھاپا دیکھا اور حق پوچھو تو تمام عمر انسانی کا عطر وہی ہے۔‘‘(۲)

یہاں محمد حسین آزاد نے انسان کی پوری زندگی کو ایک پیراگراپ میں سمیٹ لیا ہے۔

مقفیٰ و مسجع نثر کا استعمال

محمد حسین آزاد کے اسلوب کا ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مضامین میں بنا کسی پابندی کے مقفیٰ اور مسجع نثر کا استعمال کرتے ہیں۔ اور اس لیے تو ایک ناقد نے ان کے حوالے سے کہا تھا کہ آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں بھی انہوں نے مقفیٰ اور مسجع نثر کا استعمال کیا ہے۔اردو ادب میں اس قسم کی نثر کا استعمال عام طور پر داستانوں دیکھی جاسکتی ہے۔لیکن آزاد نے اس روایت میں تبدیلی کر کے اپنے مضامین میں اس قسم کا نثر استعمال کیا ہے۔ زیر نظر مضون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:


’’بہت سے گرم و سرد زمانے کے دیکھتا ہے، نشیب و فراز عالم کے طے کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر ساری جوانی کے تجربوں میں گزارتا ہے۔ جب گھس پس کر بڈھا ہو لیتا ہے تو ذرا آدمی بنتا ہے اور اس قاہوتا ہے‘‘(۳)

ترکیب نگاری

محمد حسین آزاد نے زیر نظر مضمون میں جن تراکیب کا استعما کیا ہے، اردو ادب میں شاید ہی کسی دوسرے ادیب کے ہاں ایسی عمدہ تراکیب کا استعمال ہوا ہو۔ انہوں نے بعض فارسی اور بعض عربی تراکیب سے اس مضمون کو مزین کیا ہے۔ گویا نگینے جوڑے ہوں۔ جیسے:
’’ پختہ سال، بند غارت،، نہر خوشنما، شبنم صبا۔۔‘‘(۴)

یہ بھی پڑھیں: محمد حسین آزاد کی نظمیں | pdf

مشکل پسندی


بعض اورقات ایک ادیب دوسرے ادیب سے خود کو الگ اور انفرادی ثابت کرنے کے لیے مشکل پسندی کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ بات تو وثوق ے نہیں کہی جاسکتی کہ آزاد کی مشکل پسندی کا بھی یہی وجہ ہے لیکن آزاد کے ہاں بھی ہمیں مشکل پسندی کا عنصر دیکھائی دیتا ہے۔ بعض اوقات آزاد اپنے خیالات کو ایسے الفاظ میں پیش کرتے ہیں ا کا سمجھنا عام قاری کے بس میں نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اپنے مختصر عبارت کو مشکل الفاظ اور دقیق تراکیب سے بھر دیتے ہیں۔


’’جوانان مرغزار یعنی ہرے بھرے درخت ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے جھوم رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں، وہیں آرام اپنی پلنگڑی بچھائے لیٹا تھا، اور خوشی میٹھے میٹھے سروں میں پڑی ایک ترانہ لہرا رہی تھی۔ یہی مقام رہ گزر عام کا تھا۔ اس لئے جو لوگ ادھر سے گزرتے تھے یہاں کی سرسبزی ان کی آنکھوں میں طراوت دیتی تھی۔ ادراک کا ناخدا داہنے ہاتھ پر دوربین لگائے کھڑ ا تھا‘‘(۴)

جزئیات نگاری اور منظر نگاری


کسی چیز کی تصویر کشی وقت اس کے جز جز کو بیان کرنا جزئیات نگاری کہلاتی ہے۔ جزئیات نگاری افسانوی اور غیر افسانوی ادب دونوں میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ محمد حسین آزاد کے اسلوب کا ایک اور اہم خسوصیت جزئیات نگاری ہے۔انہوں نے زیر نظر مضمون میں بھی جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ کسی چیز کی جزئیات نگاری کرتے وقت وہ اس کی تصویر اس طرح کھینچتے ہیں کہ وہ چیز قاری کے بالکل سامنے آجاتی ہے۔
’’ دریائے زندگی میں ایک بہت خوشنما جزیرہ نظر آیا۔ اس کے کنارے پر دریا سے لگا ہوا ایک بلند منارہ تھا، اس پر سونے کے حرفوں سے لکھا تھا۔ ’’بداعتدالیوں کا گلزار۔‘‘ جہاں تک جزیرہ کی حد تھی وہاں تک پہاڑ کی بڑی بڑی چٹانیں بلند تھیں۔ اسی واسطے ایسے ہیبت ناک گرداب پڑتے تھے جہاں سے کشتی کا نکلنا ممکن نہ تھا۔ یہ چٹانیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں اور جتنی کھلی تھیں نہایت سرسبز اور خوشنما تھیں۔ ‘‘(۵)

زبان و بیان میں نثری آہنگ


محمد حسین آزاد کی نثر اپنا ایک الگ آہنگ اور ترنم رکھتی ہے۔ ان کی نثر میں الفاظ شاعری کی سی ترنم کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ آہنگ پیدا کرنے کے لیے کئی طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے مفرد کی بجائے مرکبات کا ستعمال اور لفظوں کا جوڑ ان ان کے جملوں کو متوازن حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر وہ اس مقصد کے لیے قافیوں کا استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں تکرار لفظی بھی موجود ہے۔الفاظ کے تکرار سے بھی وہ ایک خاص قسم کا آہنگ پیدا تے ہیں جو ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔مثلاً:


’’دیکھتے دیکھتے،آہستہ آہستہ،روز بروز، رفتہ رفتہ،ڈرتے ڈرتے،ادھرادھر وغیرہ۔‘‘(۶)
اس کے علاوہ ان کے اسلوب میں دیگر زبانوں کے الفاظ کا استعمال، اشعار خاص کر فارسی کے اشعار کا استعمال، نادرتشبیہات،تمثال نگاری، مکالماتی اندز، اور ضرب الامثال کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: محمد حسین آزاد کے تنقیدی نظریات

حواشی


۱۔ سعید طارق،اسلوب اور اسلوبیات،لاہور،المطعتہ العربیہ،۱۹۹۸ء،ص۱۴۰
۲۔https://www.rekhta.org/articles/sair-e-zindagi-mohammad-husain-azad-articles?lang=ur
۳https://www.rekhta.org/articles/sair-e-zindagi-mohammad-husain-azad-articles?lang=ur
۴ https://www.rekhta.org/articles/sair-e-zindagi-mohammad-husain-azad-articles?lang=ur
۵ https://www.rekhta.org/articles/sair-e-zindagi-mohammad-husain-azad-articles?lang=ur
۶۔ https://www.rekhta.org/articles/sair-e-zindagi-mohammad-husain-azad-articles?lang=ur

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں