مولانا شبلی نعمانی کے مضمون "مامون الرشید” کا خلاصہ اور اہم نکات

خلاصه مامون الرشید کی حکومت ، حدود ہند سے لے کر بحر اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہارون الرشید کے مفتوحہ علاقوں میں مامون الرشید نے بہت اضافہ کیا ، جس سے سرکار کے خراج میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ان دونوں حکمرانوں کے دور ہی میں نئے شہر آباد ہونا شروع ہوئے اور زراعت جیسے پیشے کو ترقی ملی ۔ اتنی وسیع سلطنت کا انتظام چلانے کے لیے مامون ہر علاقے میں خود جا کر مناسب احکامات جاری کرتا۔ مصر کے ایک گاؤں کی مالک ایک بڑھیا تھی ، جب اسے مامون کی آمد کی خبر ہوئی ، اس نے مامون کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ واپسی پر بڑھیا نے مامون کو دس تھیلی اشرفیاں نذر کیں، جس سے اس کی سلطنت کی خوش حالی اور حسن انتظام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ محتاجوں ، ضرورت مندوں ، یتیموں اور بیواؤں کی بیت المال سے امداد کی جاتی ۔ پوری سلطنت کے معاملات اور حالات و واقعات سے باخبر رہنے کے لیے مامون نے سترہ سو عورتیں مقرر کر رکھی تھیں، جو شہر کے چپے چپے کی خبریں لا کر خلیفہ کو پیش کرتیں۔ان حالات سے باخبر ہونے کے بعد مامون ضرورت کے مطابق احکامات جاری کرتا اور بعض اوقات سائلین کی فوری حاجت روائی بھی کر دیتا ۔ مامون کا معمول تھا کہ اتوار کے دن صبح سے دو پہر تک دربار عام کرتا ، جس میں امیر غریب عوام حکمران سے کو مساوی درجہ ملتا۔ ایک دن ایک بڑھیا کی شکایت پر اپنے بیٹے عباس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے بڑھیا کی جائیداد کی واپسی کا حکم دیا۔ ایک بار کسی مقدمے کے سلسلے میں خود ماموں کو عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ جب قاضی نے خلیفہ وقت کے ساتھ بھی عام لوگوں جیسا سلوک کیا تو مامون خوش ہوا اور قاضی کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔ماموں کی فطرت میں رحم دل بھی بدرجہ اتم موجود تھی لیکن تمام اچھائیوں کے باوجود ماموں کی غمازوں سے نہ لگتی تھی۔ مامون الرشید اتنی وسیع سلطنت کا حکمران ہونے کے باوجود نہایت ساد و میزاجی اور بے تکلفی سے زندگی بسر کرتا تھا۔ دوستوں سے ملنے میں شان سلطنت کا لحاظ رکھنا نا پسند کرتا تھا۔ اکثر اہل علم اس کے ہاں مہمان ہوتے۔ ایک رات قاضی یحیی مہمان تھے، شدید پیاس سے آدھی رات کو ان کی آنکھ کھل گئی تو مامون الرشید خود جا کر قاضی صاحب کے لیے پانی لے کر آیا۔ اس کے باوجود مامون الرشید شاہی شان کا بھی قائل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پور پی مورخ لکھتا ہے کہ جب حضرت عمر شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو زاد راہ فقط ایک اونٹ پر پورا آ گیا، لیکن جب مامون شکار کو نکلا تو تین سو اونٹ بھی سامان سفر کے لیے کم پڑ گئے۔مامون الرشید انتہا درجے کا سخی اور ریاض حکمران تھا۔ ایک موقع پر ایک شخص نے نمک نذر کیا، تو واپسی میں دونوں تھیلیاں اشرفیوں سے بھر کر بھیجیں ۔ تمام تر فیاضیوں اور سخاوتوں کے باوجود مامون الرشید کی سلطنت کا انتظام و انصرام نہایت خوش اسلوبی سے چلتا۔ ملک خوش تھا ، سرکاری خزانے بھرے پڑے تھے سو مامون الرشید بھی دولت رعایا میں تقسیم کرنے کے حوالے سے سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کرتا تھا۔

اہم نکات

مامون الرشید عباسی خلیفہ تھا۔

اس مضمون میں بھی ان کے انتظام وانصرام حکومت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مامون الرشید کی سلطنت ہندوستان کی سرحد سے بحر اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی۔

مامون الرشید کے دور حکومت میں نئے شہر آباد ہوئے اور عوام کی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبے شروع کیے گئے۔

مامون الرشید نے معذوروں ، یتیموں ، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لیے بیت المال سے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔شہر کے حالات و واقعات سے باخبر رہنے کے لیے سترہ سوعورتیں ملازم رکھی گئی تھیں ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں