مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

مظہر پسندی: جب اردو شاعری نے فطرت کو زبان دی

مظہر پسندی: جب اردو شاعری نے فطرت کو زبان دی


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 6 اگست 2025

محقق کا تعارف:
محمد بشارت ماحولیاتی تنقید اور اردو ادب کے میدان میں ایک مستند آواز ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی اسکالر کی حیثیت سے، ان کا تحقیقی کام اس موضوع پر گہری بصیرت اور علمی مہارت کا ثبوت ہے۔

تعارف

کیا فطرت بے زبان ہے؟ کیا دریا، پہاڑ، درخت اور ستارے محض بے جان اشیاء ہیں؟ اردو شاعری اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ ادب کی دنیا میں ایک ایسا طاقتور نظریہ موجود ہے جو فطرت کو ایک زندہ اور حساس وجود کے طور پر دیکھتا ہے—اسے مظہر پسندی (Animism) کہتے ہیں۔

یہ تصور ماحولیاتی تنقید کا ایک اہم ستون ہے، جو انسان اور کائنات کے رشتے کو ایک نئی گہرائی عطا کرتا ہے۔ اس بلاگ پوسٹ میں، ہم محمد بشارت کے تحقیقی مقالے کی روشنی میں یہ جانیں گے کہ پاکستانی اردو شعراء نے کس طرح مظہر پسندی کے ذریعے فطرت کو زبان دی اور اس کی روح کو اپنی شاعری میں سمویا۔

مظہر پسندی کیا ہے؟

مظہر پسندی، انگریزی لفظ ‘Animism’ کا ترجمہ ہے، جو لاطینی لفظ ‘Anima’ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے روح (Soul)۔ یہ ایک قدیم فلسفہ اور عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر شے، خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، ایک روح رکھتی ہے۔ مقالے کے مطابق، اس تصور کی جڑیں انسانی تہذیب کی ابتدا تک جاتی ہیں۔

"مظہر پسندی کے لیے انگریزی میں Animism کا لفظ مستعمل ہے جو دراصل لاطینی لفظ ‘Anima‘ سے لیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے روح (Soul)۔ مظہر پسندی کی اصطلاح سب سے پہلے ۱۸۷۱ء میں منظر عام پر آتی ہے۔”

ماحولیاتی تنقید میں، مظہر پسندی کا نظریہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اگر فطرت کی ہر شے میں روح ہے، تو انسان کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا احترام کرے۔ یہ نظریہ انسان کی مرکزیت کو چیلنج کرتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اس کائنات میں اکیلے نہیں ہیں، بلکہ لاکھوں زندہ روحوں کے ساتھ اس سیارے پر رہتے ہیں۔

پاکستانی اردو نظم میں مظہر پسندی کی مثالیں

اردو شعراء نے اس تصور کو اپنی تخلیقات میں بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے فطرت کے عناصر کو محض تشبیہات کے طور پر نہیں، بلکہ زندہ کرداروں کے طور پر پیش کیا ہے جو محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور بولتے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کا ناول "بہاؤ”

اگرچہ "بہاؤ” ایک ناول ہے، لیکن اس میں مظہر پسندی کا تصور ایک مکالمے کے ذریعے brilliantly پیش کیا گیا ہے۔ جب ایک کردار فطرت کو دیوی دیوتا ماننے پر سوال اٹھاتا ہے تو دوسرا کردار جواب دیتا ہے:

”ورن ہنسا، ایسے ہنسا کہ پورن کو دُکھ ہوا کہ یہ کیوں ہنسا اور اس نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟“ وہی پرانی بات کہ تم ہر شے کو دیوی دیوتا بنا کر اپنے سے الگ کر دیتے ہو اور اُس سے دور جا بیٹھتے ہو اور اُسے چھوتے نہیں۔

اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہو اور اُسے دیکھتے ہی آنکھیں بند کر لیتے ہو۔ گھاگرا کے پانی میں ہم حیاتیاتی قوت دیتے ہیں،

ہماری مٹی میں پڑے بیج کو قوت دیتے ہیں، ہم اُس میں جاتے ہیں اور وہ ہم میں اور ایسے وہ ہیں اور ہم ایک ہیں۔ اگر وہ دیوی ہے تو پھر ہم بھی وہی ہیں جو وہ ہے۔“

یہ مکالمہ مظہر پسندی کی روح ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان اور فطرت الگ نہیں، بلکہ ایک ہی وجود کے مختلف حصے ہیں۔

پروین شاکر کی شاعری

پروین شاکر کی نظموں میں بھی فطرت کے عناصر اکثر زندہ کرداروں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کی نظم "ایک ہی سماں کو بارش نے ہرا رکھا ہے” میں ایک درخت کو نام دیا گیا ہے، گویا وہ ایک انسان ہو۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ شاعر کے نزدیک درخت محض لکڑی نہیں، بلکہ ایک شخصیت کا حامل ہے۔

عزیز حامد مدنی کا چاند

عزیز حامد مدنی کی شاعری میں بھی مظہر پسندی کی گہری جھلک ملتی ہے۔ ان کی نظم "پچھلے پہر کا چاند” میں چاند محض ایک آسمانی ستادہ نہیں، بلکہ ایک بیمار اور تھکا ہوا وجود ہے جو انسانی دکھوں کا عکاس ہے۔

مظہر پسندی کی اہمیت

اردو شاعری میں مظہر پسندی کا استعمال محض ایک ادبی تکنیک نہیں۔ یہ ایک گہرا فلسفہ ہے جو ہمیں فطرت کے ساتھ اپنے رشتے پر نظرِ ثانی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:

  • فطرت زندہ ہے: جب ہم فطرت کو ایک زندہ وجود کے طور پر دیکھتے ہیں، تو ہم اس کا استحصال کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
  • ہمدردی کا رشتہ: یہ تصور انسان اور فطرت کے درمیان ہمدردی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ ہم دریاؤں، پہاڑوں اور درختوں کے درد کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔
  • ماحولیاتی ذمہ داری: اگر فطرت کی ہر شے میں روح ہے، تو اس کا تحفظ ہماری اخلاقی اور روحانی ذمہ داری بن جاتی ہے۔

یہ نظریہ ہمیں ایک زیادہ متوازن اور ہم آہنگ دنیا کی طرف لے جاتا ہے، جہاں انسان فطرت کا مالک نہیں، بلکہ اس کا حصہ بن کر رہتا ہے۔

خلاصہ

پاکستانی اردو نظم میں مظہر پسندی کا تصور ایک طاقتور آواز ہے جو ہمیں ماحولیاتی بحران کے اس دور میں فطرت کے ساتھ اپنے ٹوٹتے ہوئے رشتے کو دوبارہ جوڑنے کی دعوت دیتی ہے۔ محمد بشارت کا مقالہ اس بات کو کامیابی سے ثابت کرتا ہے کہ اردو شعراء نے اس فلسفے کو اپنی شاعری میں گوندھ کر نہ صرف ادب کو مالا مال کیا ہے،

بلکہ ماحولیاتی شعور کو بیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب ہم فطرت کی آواز سنتے ہیں، تو دراصل ہم اپنی ہی روح کی گہرائیوں سے ہمکلام ہوتے ہیں۔


ماخذ اور حوالہ جات
مقالے کا عنوان: ادب اور ماحولیات: پاکستانی اُردو نظم کا ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ (منتخب شعراء کی نظموں کے حوالے سے)
محقق: محمد بشارت
نگران: ڈاکٹر نعیم مظہر
یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
سالِ تکمیل: 2023
اقتباس کے صفحہ نمبر: 24, 42, 67, 201-203


ڈس کلیمر

کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔

آپ کی نظر میں کون سا شعر فطرت کی روح کو سب سے بہترین انداز میں بیان کرتا ہے؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں