مولوی عبد الحق کی تحقیقی خدمات

مولوی عبد الحق کی تحقیقی خدمات | Maulvi Abdul Haq ki tehqeeqi khidmat

مولوی عبد الحق کی تحقیقی خدمات

مولوی عبدالحق : (۱۸۷۰ء- ۱۹۶۱ء)

مولی عبد الحق نے اپنے تحقیقی و تدوینی کاموں کا آغاز سرزمین دکن سے ہی انجام دیا، جہاں انھوں نے دسیوں کتابوں اور مخطوطات کو گمنامی کے گوشے سے نکال کر شہرت عطا کیا۔ عبد الحق نے دکنی اردو کے متعد د قلمی نسخوں کو مرتب کر کے شائع کیا ۔

یہ بھی پڑھیں: بابائے اردو مولوی عبد الحق ایک نظر میں

بیسویں صدی میں اردو تحقیق و تدوین کی عظیم ترین شخصیات میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ ان کا علمی ذوق بہت بلند اور پاکیزہ تھا۔ مطالعے کے شوقین شروع سے تھے ۔ حیدر آباد میں ان کے ذوق و شوق کو جلا ملی اور وہاں کے مختلف ادبی دفاتر میں موجود قدیم مخطوطات کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا۔

اس مطالعہ کے نتیجے میں انھیں معلوم ہوا کہ وہاں دکن ادب کا بہت بڑا سرمایہ اور ذخیرہ موجود ہے، خواہ وہ تذکرے کی شکل میں ہو ، کلیات و دواوین کی شکل میں ہو، بصوفیاء کرام کے ملفوظات کی شکل میں یا دیگر مخطوطات ہوں ، ان سبھی کا مطالعہ عبد الحق نے بہت ذوق وشوق کے ساتھ کیا۔

انھوں نے شعراء اردو کے تذکرے مرتب و مدون کر کے ان قدیم ادبی سرمائے کو محفوظ کیا اور انھیں چھوا کر قارئین کے سامنے پیش کیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ تذکرے شعراء کے حالات زندگی اور ان کے کلام سے متعلق معلومات کا اہم ماخذ ہوتے ہیں ۔ تحقیق میں ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو میں کسی محقق کو اتنے زیادہ تذکرے حاصل کرنے کا شرف حاصل نہیں ہے جتنا کہ مولوی صاحب کو ہے ۔

انھوں نے بڑی محنت اور توجہ کے ساتھ بنیادی معلومات کے ذخیرے کو حاصل کیا اور مختلف نسخوں کے متون کا آپس میں مقابلہ و موازنہ کر کے مستند متن تیار کرنے کی کوشش کی ۔ یہ اردو ادب کا عظیم کارنامہ ہے اور جدید ارادہ تحقیق و تدوین میں نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس میں کچھ خامیوں کا موجود ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مولوی عبد الحق کے اسلوب کی خصوصیات | pdf

مولوی عبدالحق نے جو تذکرے مرتب کیے ان کی فہرست اس طرح ہے: چمنستان شعراء ( ۱۹۲۸ء ) مخزن نکات (۱۹۲۹)، ریخته (۱۹۳۳ء) ، تذکرہ ہندی (۱۹۳۳) بخون شعر (۱۹۳۳)، عقد ثریا (۱۹۳۴ء) ، ریاض القصی (۱۹۳۴ء) گل عجائب (۱۹۳۴ء) وغیرہ۔ اس کے علاوہ انشاء کی دریائے لطافت کو نئے تنقیدی مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ ماسوا اس کے ذکر میر کو پہلے اپنے رسالے ‘ رسالہ اردو میں بعد میں انجمن ترقی اردو سے کتابی شکل میں مقدمہ لکھ کر شائع کیا۔موصوف کی ایک اہم تحقیقی کاوش ملا وجہی کی سب رس (۱۹۳۳) کی تحقیق و تدوین ہے ۔ معراج العاشقین کے بارے میں عبد الحق کا یہ کہنا تھا کہ یہ کتاب خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے غلط منسوب کر دی گئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے تمام شکوک کی نشان دہی کے ساتھ اس کو ۱۹۴۳ ء میں شائع کیا۔

دکنیات سے متعلق ان کا ایک اہم کارنامہ وجہی کی قطب مشتری ۱۹۳۹ ء ہے۔ اس میں انھوں نے بھا ئمتی اور قلی قطب شاہ سے متعلق مختلف بیانات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ، اور ساتھ ہی دکنی ادب سے متعلق ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے نصرتی کی مثنوی علی نامہ کو جامع مقدمہ اور ایک اچھی فرہنگ کے ساتھ شائع کیا۔ میر حسن کی مثنوی خواب و خیال اور ان کا دیوان دونوں کو عبد الحق نے شائع کیا ۔ قدیم نثر و نظم کے نمونوں کو تلاش کر کے انھیں عوام سے روشناس کروایا۔ اس سلسلے میں ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ میرا امن کی باغ و بہار ہے، جس میں اس وقت کے تحقیقی اصولوں کے مد نظر اچھے نکات کو بیان کیا ہے۔ جس میں بعد کے محققین مثلا رشید حسن خاں وغیرہ نے اس نقش اول پر چل کر اعلیٰ کارنامے کی شکل میں باغ و بہار کا جدید ایڈیشن شائع کیا۔

اس طرح مولوی عبد الحق کی بعض متن کی شامیوں ، کوتاہیوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں کی وجہ سے اردو میں ” متنی تنقید کا رواج عام ہوا اور قدیم ادب پاروں کی بازیافت اور ترتیب و تدوین سے ادیبوں نے دلچسپی لی۔ غرض اردو تحقیق و تدوین کے میدان میں عبدالحق کے کارنامے فرد واحد کی حیثیت سے ایسی عظیم نعمت ہے جو بیسویں صدی میں کسی اور کو حاصل نہ ہو سکی ۔

حافظ محمود خان شیرانی: (۱۸۸۰-۱۹۴۶ء) عبدالحق کے پہلو بہ پہلو حافظ محمود خاں شیرانی نے اپنی عالمانہ تحقیق و تدوین کی ابتدا لاہور سے کی اور اس میدان میں غیر معمولی کام کر کے امتیازی اور انفرادی مقام حاصل کر لیا۔ نئے مآخذ کی تلاش اور اولین تاخذ کی اہمیت کا احساس انھیں کے زمانے سے شروع ہوا۔ ان کا شمار اردو تحقیق کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں ان سے قبل بھی تحقیقی کاوشوں کے نمونے ملتے ہیں لیکن یہ وہ نمونے ہیں جو تحقیق کے جملہ اصولوں کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ کہیں جذباتیت نظر آتی ہے، کہیں رومانی انداز بیان اور کہیں بلا تکلف روایتوں کو قبول کرنے کا رجحان نظر آتا ہے ۔ حافظ محمود نے پہلی بار غیر محتاط طریق کار سے دامن بچاتےہوئے کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کی ۔ انھوں نے مسلمہ حقائق پر بھی تحقیقی نظر ڈالی اور بہت سی طے شدہ باتوں کے خلاف رائے کا اظہار کیا۔ اس لحاظ سے ان کی اہمیت تاریخی بھی ہے۔ انھیں بجاطور پر اردو میں تحقیق کا معلم اول کہا گیا ہے۔

محمود شیرانی نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں اردو میں لسانی تحقیق کا فی الحقیقت بہت بڑا کارنامہ انجام دے کر اردو کی ابتدا کے سلسلہ میں تحقیق کا راستہ ہموار کیا ۔ ان کی تحقیقی زندگی کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوتا ہے۔ اس وقت سے حیات کے آخری لمحات ۱۹۴۶ ء تک وہ برابر لکھتے رہے۔ گویا کم و بیش ۲۴ سال تک انھوں نے اپنی تحقیقی خدمات سے اردو زبان وادب کو مالا مال کیا لیکن اصول تدوین کی طرف توجہ کم کی۔

متن کی تصحیح کے اصول اور طریقوں کی تفصیلات ان کے یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ان سے مختلف اور یادگار میں وابستہ ہیں ۔ پنجاب میں اردو ، پرتھوی راج را سو، تنقید شعر انجم اور مجموعہ نغز ۔ اول الذکر کتاب میں انھوں نے پنجاب کو اردو زبان و ادب کا مرکز قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو پنجاب کے علاقہ میں وجود میں آئی اور اس کی ابتدائی شکل ہریانی زبان ہے۔ ان کے بعد مسعود حسین خان کی تصنیف ” مقدمہ تاریخ زبان اردو ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی جس میں انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہریانی زبان پرانی اردو کی باقی ماندہ شکل نہیں ہے بلکہ علیحدہ اور مستقل زبان کی حیثیت سے عرصے سے مضافات دہلی میں رائج تھی۔

اس کے علاوہ مختلف حضرات نے اردو کے آغاز اور اس کے مولد پر اظہار خیال کیا ، جن میں وحید الدین سلیم ، سید سلیمان ندوی ، نصیر الدین ہاشمی ، ڈاکٹر زور اور شوکت سبزواری وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اردو کے آغاز کے تعلق سے محققین کے لیے یہ موضوع بہت اہم رہا ہے کہ اردو کا دوسری زبانوں سے کیا رشتہ ہے؟ اردو اور پنجابی کی اسانی مشابہتوں پر محمود شیرانی نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میں ان کی زیادہ تر توجہ اردو، پنجابی اور برج بھاشا کے تقابلی جائزہ پر مرکوز رہی ہے۔

اردو کے ابتدائی ناموں کی تحقیق پر بھی محققین نے خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ تاریخی حوالوں میں اس کے جو مختلف نام ہندی ، ہندوستانی ، زبان ہندوستان ، مورس ، اردو ہندی اور اردوئے ہندی ملتے ہیں ان کا حوالہ متعدد مصنفین کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اولاً اس موضوع پر محمود خاں شیرانی نے داد تحقیق دی تھی۔

پی ڈی ایف سے تحریر از ثمینہ کوثر

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں