مولانا صلاح الدین احمد ۲۵ مارچ ۱۹۰۳ ء کولاہور میں پیدا ہوئے ۔ لاہور کی علمی اور تہذیبی فضا نے ان کے افکار و خیالات اور شخصیت پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ ان کے والد احمد بخش لا ہور میں فارسی کے استاد تھے اور والدہ شیخ عبد القادر کی صاحبزادی تھیں ۔ مولانا صلاح الدین احمد نے اپنی تعلیم مسلم ہائی اسکول لاہور اور اعلیٰ تعلیم سناتن دھرم کالج لاہور میں پائی ۔ ادب کی طرف ان کا فطری میلان تھا۔ انھوں نے طالب علمی کے زمانے ہی میں ایک ادبی رسالہ "خیالستان ” جاری کیا۔ عملی زندگی کا آغاز پولیس کی ملازمت سے کیا، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد جب عدم تعاون کی تحریک کا آغاز ہوا تو ملازمت کو خیر باد کہہ کر انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ انھوں نے آزادی کے خواب کی تکمیل کے لیے صحافت میں قدم رکھنا ضروری سمجھا۔ یہی وہ میدان تھا کہ جس میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ۔ علامہ تاجور نجیب آبادی نے "ادبی دنیا ” کے نام سے لاہور سے ایک رسالہ جاری کیا کہ جسے منصور احمد نے اپنی ادارت میں چار چاند لگا دیے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا، تو اس رسالے کی ادارت کا منصب مولانا صلاح الدین احمد کو حاصل ہوا۔ مولانا کے بیشتر مضامین بھی اسی رسالے میں شائع ہوئے۔مولا نا صلاح الدین احمد کا مجموعہ مضامین ” صریر خامہ ” تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جلد اول میں : اقبال اور فکر اقبال سے متعلق مضامین ہیں۔ جلد دوم میں : اردو کے افسانوی ادب پر اعلیٰ پائے کے مضامین شامل ہیں،جبکہ جلد سوم میں محمد حسین آزاد کے فکروفن پر مضامین شامل ہیں۔ مولانا کی تحریر میں ہمیں محمد حسین آزاد ، مہدی افادی، یلدرم اور ابوالکلام آزاد کے اسلوب کی سی زمینی شلختگی اور دلآویزی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی تحریر میں حقیقت ، خواب، خیال اور جذ بہ ہم رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد نے ۱۴ جون ۱۹۶۴ء کو وفات پائی اور لاہور میں مدفون ہوئے۔کہانی کی مختلف صورتیں ہیں: داستان، ناول، افسانہ وغیرہ یہ صورتیں باہم مربوط بھی ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ان اصناف کے فکری اور فنی خدو خال انھیں ایک دوسرے سے ممیز کرتے ہیں لیکن ان کا معنوی ارتباط انھیں کہانی کے جمالیاتی آہنگ سے جوڑے ہوئے ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی افسانے کی ابتدا ہوئی۔ ناول کی طرح یہ صنف ادب بھی مغرب سے اردو میں آئی۔ سجاد حیدر یلدرم، علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند نے اس صنف کو معنوی اور فنی اعتبار سے ثروت مند کیا۔ سعادت حسن منٹو ، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر اور انتظار حسین وغیر ہم نے اس صنف کے امکانات کو اس قدر وسعت آشنا کیا کہ اب اسے کسی بھی ترقی یافتہ زبان کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ اس یونٹ میں آپ چھے افسانوں کا مطالعہ کریں گے۔ یہ افسانے زندگی کے مختلف رویوں کے عکاس ہیں۔ ان میں تہذیب اور معاشرت کے رنگ اپنی تمام تر جمالیات کے ساتھ عکس انداز ہوئے ہیں۔ ان افسانوں کا مطالعہ دراصل زندگی کے مختلف رنگوں کی جمالیات کو سمجھنے سے عبارت ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں