مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

مولانا صلاح الدین احمد: فن پارے کی فنی و جمالیاتی اہمیت

مولانا صلاح الدین احمد کا تعارف اور ادبی پس منظر

ادبی ماحول اور تاثراتی تنقید

مولانا ایک مخصوص سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ادبی دور میں اردو کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا جینا مرنا، دوستی دشمنی سب اردو کے لیے تھا۔ اس دور کے بارے میں ڈاکٹر وحید قریشی کہتے ہیں:

مولانا کے ادبی شعور نے جب آنکھ کھولی تو سر زمین پنجاب میں سر عبدالقادر اور ان کے رفقا کی تحریروں کا غلغلہ تھا۔ رسالہ "مخزن” کی ادبی تحریک رومانوی ادب کے زیر سایہ پھل پھول رہی تھی پھر تحریک خلافت، رولٹ ایکٹ اور تحریک موالات کا دور دورہ ہوا اور ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ مولانا ظفر علی خان اور ابو الکلام آزاد کی شعلہ نوائی برصغیر کی سیاسی فضا کو مشتعل کر دیا تھا اسکرویلڈ اور ٹیگور کی تحریروں نے ان کے خیالات کو ہوا دی جن کے سہارے "مہدی افادی” اور "سجاد انصاری” نے ادب میں اپنے اپنے اسلوب کی دھاک بٹھائی۔ تنقید میں تاثراتی انداز بس گیا تھا "مولانا صلاح الدین احمد” اس ادبی فضا میں سانس لینے لگے ان کے انداز بیان کا یہ پہلو اہم ہے کہ وہ تنقید کو ادب پارہ جانتے تھے اور اپنے مقالات کی عبارت کو بنانے سنوارنے اور دلکش و جاذب نظر بنانے میں محنت کرتے تھے۔

مولانا صلاح الدین احمد کی تنقیدی بصیرت

افسانہ آزاد کا فنی و جمالیاتی جائزہ

ان تمام باتوں کے باوجود یہاں جس بات کا بیان ضروری ہے وہ ہے فن پارے کی فنی و جمالیاتی اہمیت اور حسن۔ مولانا نے رتن ناتھ سرشار کے ناول "افسانہ آزاد” اور اس کی گفتگو میں فنی کاوشوں کا ذکر کیا ہے۔ اس ناول کا مصنف سرشار ہندو تھا مگر اس نے اسلامی معاشرت کے زوال کی کہانی لکھی۔ مولانا کے زمانے میں اردو ناول نے ابھی عروج حاصل نہیں کیا تھا جبکہ اس وقت کی مغربی ناولوں میں کہانی کے علاوہ ناول کی ہیئت متعین ہو چکی تھی جبکہ اردو میں ابھی اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تھی۔ مولانا لکھتے ہیں

مذکورہ ناول نگار چونکہ اردو ناول نگاری کا ابتدائی نام ہے اور اس زمانے کے ناولوں میں فکشن کا عروج نہیں ہے جو ہمیں اپنے زمانے کے اردو ناولوں میں ملتا ہے یہ اس وقت کی مغربی ادب میں دیکھا جا سکتا تھا۔ بلکہ یہ ناول نگار کہانی لکھنے کے ساتھ ساتھ ناول کی ہیئتی خدوخال متعین کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور خود اس سلسلے میں کماحقہ واضح نہیں تھے۔

اردو ناول کی ہیئت سازی میں مولانا صلاح الدین احمد کا کردار

چنانچہ ان کے ہاں فنی طور پر بعض ایسے مسائل ہیں جن پر مولانا صلاح الدین احمد نے لکھا اور ان خدوخال پر بحث کر کے ناول کی ہیئتی تشکیل کی کوشش کی اسی سلسلے میں انہوں نے ناول کے عناصر ترکیبی پر جہاں مناسب سمجھا مدلل اور مفصل لکھا۔ فنی باریک الفاظ کا حسن اور ہیئت کی اہمیت، یہ سب کچھ مولانا کے ہاں مشرقی انداز نقد میں پایا جاتا ہے اور وہ فن برائے فن کے قائل تھے نہ کہ فن برائے افادہ یا فن برائے مقصدیت۔

نظیر احمد پر مولانا صلاح الدین احمد کے اعتراضات

مثال کے طور پر نظیر احمد کو قصہ گو سمجھتے ہیں ان کی ورعیت کا ادراک بھی پایا جاتا ہے اس کے باوجود نظیر احمد پر کڑا اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نظیر احمد نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ناول کا سہارا لیا اور وہ نظیر احمد کے نام کو عمران ہی مقالے کہتے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مولانا فن پر کبھی بھی سودا بازی کے لیے تیار نہیں ہوتے وہ فن کو صرف فن ہی سمجھتے ہیں فن کی پردے میں مقصدیت کے بالکل قائل نہیں۔ نظیر احمد ابتدائی ناول نگار تھے اس لیے ان کے ہاں فن کی بلندیوں تک رسائی ممکن نہ تھی اس کے باوجود مولانا ان سے فنی اور جمالیاتی تقاضے کرتے نظر آتے ہیں۔ ہاں ان کو ایک اچھا قصہ گو گردانتے ہیں مگر مقصدیت کے ساتھ خلاف ہیں۔

نظیر احمد طبعاً قصہ گو تھے اور قصہ گوئی کے فن کی بہت سی باریکیاں اور خوبیاں انہیں فطری طور پر ارزانی ہوئی تھیں۔ نظیر احمد تک پہنچتے پہنچتے ہمارے ناول نے ایک ایسے جدید کا وہ لباس پہن لیا تھا جو آج بھی اس کے قد موزوں اور زیب نہیں لگتا۔ "نظیر احمد” صحیح معنوں میں اردو کے علاوہ ناول نگار تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس حقیقت کے اظہار سے بھی گریز نہیں کرتے تھے کہ ایک شاید قسم کی مقصدیت کے باوجود بار بار اپنے راستے سے بھٹک کر فنی

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں